Friday, 18 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Nawaz Amin
  4. Meri Pehli Rishwat

Meri Pehli Rishwat

میری پہلی رشوت

ہم روزانہ کی بنیاد پر جب چیزوں کو استعمال کرتے ہیں تو بہت سا کوڑا کرکٹ پیدا ہوتا ہے جسے ہم اپنے گھر میں باہر کی ٹوکری میں رکھ دیتے ہیں اور صفائی والا اس سے روزانہ لے جاتا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں یقینا روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں ٹن کوڑا پیدا ہوتا ہے جس میں سے انتہائی تھوڑی مقدار کو ری سائیکل کرکے دوبارہ قابل استعمال بنا دیا جاتا ہے۔ روزانہ پیدا ہونے والا یہ لاکھوں ٹن کوڑا یقینا کروڑوں کی مالیت کا ہوتا ہے۔ اگر ہم اس ضائع ہونے والے سرمایہ کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس سے متعلق آگاہی ضروری ہے کہ ہم اس کی پیداوار کو کیسے کم کر سکتے ہیں اور اس کو ری سائیکل کرنے کے کیا طریقہ کار ہیں؟

جب ہمیں حقیقی طور پر اس بات کا علم ہوگا کہ ہم مجموعی طور پر روزانہ کتنی مالیت کا سرمایہ ضائع کرتے ہیں تو ہمیں اس معملہ کا مزید بہتر احساس ہوگا۔ یہ کوڑا کرکٹ ضائع ہونےکے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی اور دیگر اسی قسم کے مزید مسائل پیدا کرتا ہے جن کو حل کرنے کے لیے ہمیں مزید سرمایہ لگانا پڑتا ہے۔ انسان جہاں رہتے ہیں وہاں کوڑا پیدا کرتے ہیں۔ یہ کوڑا صرف ہمارے گھروں سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ ہماری فکر، تربیت اور عمل سے بھی سماجی کوڑا پیدا ہوتا ہے جو ہمارے سماج میں آلودگی پیدا کرتا ہے۔

روزانہ کی بنیاد پر کئی کروڑوں کی رشوت کے لین دین ہمارے سماج میں لاکھوں ٹن کا معاشرتی کوڑا پیدا کرتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ 2012 میں جب میں ایک سرکاری ہسپتال میں ملازمت کرتا تھا تو مجھے وہاں کے کلرک سے پتہ چلا کہ کسی بھی درخواست پر ادارہ کے سربراہ کے دستخط کروانے کے لیے آپ کو کچھ جبری تحفہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ وہ میری عملی زندگی کے ابتدائی دن تھے جب میں اس عمل کو کرنے کے تمام مراحل سے ناواقف تھا۔

مجھے اس بات کا علم بہرحال ہوگیا تھا کہ بغیر جبری تحفہ اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکتے۔ ان ابتدائی دنوں میں اپنی معصومیت اور سماجی رواج کی کشمکش میں، میں صرف اس سوچ بچار میں تھا کہ ادارے کے سربراہ کو یہ تحفہ کیسے دیا جائے۔ جب بھی میں ان کے دفتر میں جانا ہوتا تو بہت سے لوگ وہاں موجود ہوتے، تو ان کے سامنے اس طرح سے تحفہ دینا مناسب نہیں لگ رہا تھا۔

سوچ بچار کے بعد ایک معصومانہ سی ترکیب سوجھی، میں نے ایک کتاب خریدی اور لفافے میں تحفہ ڈال کر اس کتاب میں رکھ دیے اگلے دن جب میں ان کے دفتر میں گیا تو وہاں پہلے کی طرح کافی لوگ موجود تھے۔ میں بھی وہاں جا کر بیٹھ گیا اور جب انہوں نے مجھے بلایا تو میں نے سبھی لوگوں کے سامنے وہ کتاب پیش کی اور کہا کہ یہ آپ کے ذوق کے مطابق ہے، آپ اسے قبول فرمائیں مجھے انتہائی خوشی ہوگی، انہوں نے کتاب کو معمولی سا کھولا، لفافے کو دیکھا اور میری اس ترکیب کو نیم ہنسی میں سراہا۔

کچھ دیر کے بعد میں دوبارہ اپنی نشست سے اٹھا اور اپنی درخواست کو ان کے سامنے رکھا۔ انہوں نے بیٹا کہہ کر مجھے مخاطب کیا اور اس پر دستخط کرکے کلرک کو جمع کروانے کا کہہ دیا۔ عملی میدان میں یہ میری پہلی فتح تھی، گو کہ اس کے بعد بھی کئی فتوحات نصیب ہوئیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ سماجی اور فکری کوڑا کرکٹ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ ہر نئی پیدا ہونے والی سوچ اور تخلیقی شعور اس کے نیچے دب کر رہ گیا ہے۔

اس سماجی کوڑا کرکٹ کو کم اور ری سائیکل کرنے کہ بہت سے طریقے ہوں گے مگر ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہےکہ ہم اونچی آواز میں سوچنا شروع کریں۔ اپنی اپنی جگہ پر اس کوڑے کو برداشت کرتے رہنا اس کے ڈھیر کو مزید بڑھا کرتا جاتا ہے۔ اگر ہم انفرادی سطح پر اس کی پیداوار کو کم نہیں کر سکتے تو اپنے اپنے کوڑے کو جس قدر ممکن ہو ریسائیکل کرتے جائیں۔ سماجی بیماریوں کے متعلق بحث، فکری اور عملی سطح پر ان کا اظہار کسی نہ کسی درجہ میں اس کوڑا کو ری سائیکل کرنے میں یقیناً مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔

Check Also

Taleem Baraye Farokht

By Khalid Mahmood Faisal