Mazhab O Jadeed Science Aur Asri Taqaze
مذہب و جدید سائنس اور عصری تقاضے
حقیقت مطلق کے دریافت کی خواہش ازل سے ہے۔ قدیم تاریخ سے لے کر 16ویں صدی تک مذہب اور سائنس کے درمیان مطابقت ہی رہی ہے۔ اس دوران حصول علم کے دونوں بنیادی ذرائع مذہبی تجربہ اور حواس خمسہ اپنے اپنے دائرہ کار میں انسانیت کی بہتری میں سرگرم عمل نظر آتے ہیں لیکن 17ویں صدی کے آغاز سے سائنسی انقلاب کی بدولت مذہب بالخصوص کلیسا کے چند نظام شمسی کے متعلق بنیادی مقدمات کو تشکیک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
جب کوپرنیکس اور گلیلیو نے نظام شمسی کے متعلق یہ دریافت کیا کہ زمین اور مریخ درحقیقت سورج کے گرد گردش میں ہیں اور سورج ساکن سیارہ ہے تو کلیسا نے اس دریافت کو اپنے خلاف بغاوت سمجھا کیونکہ وہ زمین کو ساکن اور سورج کو اس کے گرد گردش کردہ سیارہ کے طور پر پیش کر رہا تھا، لہذا گلیلیو کو قید کر لیا گیا جہاں وہ نو سال قید رہنے کے بعد وفات پا گیا۔ اس کے علاوہ اور بھی متعدد سائنسی مفکرین اور فلسفیوں کو کلیسا کے نظریات کے بر خلاف آواز اٹھانے پر پھانسی اور دیگر سزائیں دی گئیں۔ لہذا کلیسا اور سائنسی فکرکے درمیان فاصلہ بڑھنےلگا لیکن یہ معمہ درحقیقت محض کلیسا ہی کے نہیں، بلکہ مذہب اور سائنس کے مابین تضاد کی صورت اختیار کر رہا تھا۔ بعد ازاں کائنات کی ابتداء کے متعلق بگ بینگ تھیوری اور چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقاء نے مزید سوالات کو جنم دیا۔
دوسری جانب فلسفہ کی دنیا میں جان لاک جو کہ مشہور مغربی فلسفی تھا اس نے انسانی ذہن کو "ٹیبولا رسا" قرار دیا اور جدید تجربیت کی بنیادوں کو اور مضبوط کیا اسکا کہنا تھا کہ پیدائش کے وقت انسان کا ذہن کورے کاغذ کی مانند ہوتا ہے اور بعد ازاں تجربات اس کے شعور کو ترتیب دیتے ہیں لہذا انسان کا تمام شعور صرف تجربے سے ہی ظہور پذیر ہوتا ہے اور وہی چیز حقیقت کا درجہ رکھتی ہے جو مشاہدے، تجربے یا دلیل پر مبنی ہو اس کی یہ دلیل مذہب کے" مقدمہ استخراجی" کو رد کرتی ہے جس کے مطابق انسانی شعور کو خیر و شر کے متعلق ودیعت کیا گیا ہے اور حقیقت کا درجہ مذہبی تجربہ یا وحی کو قرار دیا گیا ہے۔
اسی طرح ڈیوڈ ہیوم، برکلے جو تجربیت کے ہی حامی تھے ان کی فکر یورپ میں بڑی تیزی سے پھیلی اور یوں عقلیت اور تجربیت کے مقدمات مزید مضبوط ہوتے گئے اور بالآخر سائنسی و صنعتی انقلاب کی صورت میں نمودار ہوئے۔ حال ہی 2020 میں دو امریکی خواتین سائنسدانوں کو کرسپر ٹیکنالوجی کی دریافت پر نوبل انعام سے نوازا گیا ہے۔ کرسپر ٹیکنالوجی در اصل ڈی این اے انجینرنگ کے متعلق ہے۔
سائنسی مفکرین کا دعوی ہے کہ اس کی بدولت ڈی این اے کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت حاصل ہو جائے گی اور انسانی جسم میں پیدا ہونے والے ہارمونز پر دسترس حاصل کر لی جائے گی۔ موروثی اور بہت سی دوسری بیماریاں ان ہارمونز کی خرابی کی ہی وجہ سے ہی پیدا ہوتی ہیں۔ اگر ہارمونز کو کنٹرول کر لیا جائے تو متعدد تشویشناک بیماریوں سے چھٹکارا حاصل کر لیا جائے گا اور اس کا ایک تجربہ چینی سائنسدان نے پیدائش سے قبل بچوں پر کیا ہے جس کو کامیاب قرار دیا گیا ہے۔
جہاں اس ٹیکنالوجی سے طب میں انقلاب برپا ہو سکتا ہے وہیں اس کی بدولت بہت سے خدشات بھی جنم لے رہے ہیں۔ اس کی بدولت انسان کی شکل و صورت، رنگت، نفسیاتی رجحانات کو بھی بدلا جا سکتا ہے کیونکہ یہ تمام بھی انسانی جسم میں موجود چند ہارمونز ہی کی وجہ سے ظہور پذیر ہوتے ہیں اور اگر ان ہارمونز کو نکال دیا جائے تو انسانی رجحانات میں تبدیلی ممکن ہے۔ گو کہ تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور اس کے ممکنہ اثرات کا تعین ابھی ممکن نہیں۔ لیکن اپنے انتہائی مراحل تک رسائی کے بعد مذہب کے لیے مزید خدشات کے پیدا ہونے کا اندیشہ کیا جا سکتا ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ سائنس بھی حقیقت مطلق کی تلاش میں سرگرداں ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے مذہب اور سائنس ایک دوسرے سے پرے ہٹ رہے ہیں حالانکہ دونوں کی دریافت کا مقصد حقیقت یا سچ تک رسائی ہی ہے۔ دونوں کے ہم آہنگ نہ ہونے کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے دونوں کے درمیان ربط قائم کرنے کی کوئی کوشش تاہم نہیں کی گئی۔
دور جدید میں مذہب کی ہیئت کو باقی رکھنے کے لیے، مذہب اور سائنس کے درمیان مطابقت کا پیدا ہونا ضروری ہے اور یہ کوشش اس تضاد کو معدوم کرنے کے ساتھ مذہب کے لیے نشاۃثانیہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر ہم مذہبی اور سائنسی فکر کو ایک ہی ذہن میں مقید کرکے ایسے شعور کو پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائیں جو مذہبی سائنٹفک ذہن ہوں تو یقینا اس چیلنج سے بخوبی نبرد آزما ہو سکتے ہیں، جو اولین عصری تقاضہ ہے۔