Iqbal Aur Goethe
اقبال اور گوئٹے
اقبال اور گوئٹے دو ہستیاں نہیں بلکہ مقامات ہیں جہاں مشرق اور یورپ آپس میں ملتے ہیں۔ گوئٹے 1749 کو جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں پیدا ہوا لیکن اس کا دل مشرق میں دھڑکتا تھا، اسے مشرق کے شعراء، اسلام اور حضور اکرم ﷺ کی ذات مبارکہ سے بے حد لگاؤ تھا۔ گوئٹے کی لائبریری میں آج بھی قران کریم کے نسخے تراجم و دیگر اسلامی کتب محفوظ ہیں۔ وہ نہ صرف جرمنی بلکہ یورپ کا ایک عظیم شاعر فلسفی اور ڈرامہ نگار تھا۔
گوئٹے کے بارے میں خود اقبال کا کہنا ہے کہ "جب کسی عظیم ذہن سے ہمارا رابطہ قائم ہوتا ہے تو ہماری روح اپنے آپ کو پا لیتی ہے گوئٹے کے تخیل کی بے کرانی سے آشنا ہونے کے بعد مجھ پر اپنے تخیل کی تنگ دامنی منکشف ہوگئی" اس کے دیوان کا آغاز جس نظم سے ہوتا ہے اس کا جرمن عنوان بھی ہجرت ہے۔
گوئٹے نے اپنے دیوان میں ایک نظم بعنوان "نغمہ محمد" بھی شامل کی، اپنی اس نظم میں وہ حضور اکرم ﷺ کے کردار کو ایک دریا کی مانند بیان کرتا ہے، جو زمین کے لیے کیسی کیسی نعمتیں لے کر آتا ہے اور انتہائی انقلاب افرین ہے 1923 میں علامہ اقبال نے گوئٹے کے دیوان کے جواب میں اپنی شہرہ آ فاق تصنیف "پیام مشرق" لکھی اور اسے مشرق کی طرف ہدیہ تحفہ کہا اور گوئٹے کی نظم کا آزاد ترجمہ بعنوان جوئے آب، بھی اس میں شامل کیا۔
اسلام پر تبصرہ کرتے ہوئے گوئٹے نے ایک بار اپنے سیکرٹری سے کہا تم نے دیکھا اس تعلیم میں کوئی خامی نہیں ہمارا کوئی نظام اور ہم پر کیا موقف ہے کوئی انسان بھی اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا، اس قول کو اقبال نے اپنے خطبات میں بھی نقل کیا۔ مئی 1815 کے ایک خط میں گوئٹے لکھتا ہے، میری آرزو اور مقصد یہ ہے کہ میں مشرق کو مغرب، ماضی کو حال اور ایرانی کو جرمن کے نزدیک کر دوں اور ان مناطق کے لوگوں کے طرز فکر عادات اور رسوم کو ایک دوسرے سے آشنا کرواؤں۔
اقبال کے عہد سے تقریبا ایک سو برس قبل یہ جرمنی کا وہ دور تھا، جب عقلیت پسندی تیزی سے پھیل رہی تھی گوئٹے اس دور میں جرمنی کے لیے ایک مسیحا کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ عقلیت پسندی کی تحریکوں کو رد کیا۔ اپنے شعور کو مشرقی و اسلامی فکر سے روشناس کیا۔ یہی وجہ تھی کہ اقبال گوئٹے سے متاثر تھے اور انہوں نے اپنے کلام میں بھی گوئٹے کو خراج تحسین پیش کیا۔
گوئٹے کے شعور میں اسلامی فکر سے ہم آہنگی اور علامہ اقبال کے کلام میں ان کی فکر کا اعتراف دیکھنے کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے مشرق اور مغرب دونوں ایک دوسرے کو گلے لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔