Ilm Aur Mazhabi Tajurba
علم اور مذہبی تجربہ

کائنات کے بارے میں ہماری سمجھ، جو عقل اور حسی ادراک کے ذریعے حاصل ہوتی ہے، جسے ہم "علم" کہتے ہیں، اپنی نوعیت میں محدود اور زمانی طور پر پابند ہے۔ یہ ایک وسیع اور مسلسل ارتقاء پذیر حقیقت کی محض ایک تصویر، ایک عارضی جھلک پیش کرتی ہے۔ ہماری علمی گرفت، کائنات کی وسعت اور پیچیدگی کے مقابلے میں، ایک چھوٹے سے جزیرے کی مانند ہے۔ ہر نیا سائنسی انکشاف، ہر نیا تجربہ، ہماری سمجھ کے افق کو مزید وسعت دیتا ہے، لیکن ساتھ ہی اس بات کا احساس بھی دلاتا ہے کہ ابھی کتنا کچھ جاننا باقی ہے۔
اس کے برعکس، مذہبی تجربہ، ہماری فہم میں ایک روحانی جہت کا اضافہ کرکے ان زمانی حدود سے ماورا ہونے کی سعی کرتا ہے۔ یہ مادی دنیا سے ماورا، کسی ایسی ہستی یا حقیقت سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے جو دائمی اور لامحدود ہو۔ مذہبی تجربہ، روایتی علم میں داخلی معرفت شامل کرنے کا نام ہے۔ مذہبی تجربے کے حامیوں کا استدلال ہے کہ یہ روحانی رابطہ، جو مذہبی تجربے کے ذریعے ممکن ہوتا ہے، کائنات کی ایک زیادہ جامع اور کامل فہم، ایک کلی علم عطا کرتا ہے جو خالصتاً عقلی اور سائنسی جستجو کی حدود سے کہیں آگے ہے۔ وہ اسے ایک ایسی بصیرت قرار دیتے ہیں جو کائنات کے معنی، زندگی کے مقصد اور انسانی وجود کی نوعیت کے بارے میں گہرے سوالات کے جوابات فراہم کرتی ہے۔
تاہم، یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ سائنسی علم کی جستجو، جو مشاہدے، تجربے اور عقلی استدلال پر مبنی ہے، کچھ بنیادی اوزاروں پر انحصار کرتی ہے۔ تجربی علم، جو مشاہدے اور تجربات سے حاصل کردہ معلومات پر مشتمل ہوتا ہے، ہماری طبعی دنیا کی سمجھ کے لیے خام مواد مہیا کرتا ہے۔ سائنسی طریقہ کار، مفروضوں کی تشکیل، تجربات کے ذریعے ان کی جانچ اور نتائج کے تجزیے پر مشتمل ہوتا ہے، جو کائنات کے بارے میں ہماری سمجھ کو بتدریج بہتر کرتا ہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے جس میں نئے انکشافات پرانے نظریات کو چیلنج کرتے ہیں اور علم کی نئی راہیں کھولتے ہیں۔
نتیجتاً، یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ کوئی مذہبی تجربہ خلا میں موجود نہیں، جو عقلی تحقیق کے عمل اور تجربی حقیقت کے غور و فکر سے مکمل طور پر الگ ہو۔ ہر چند کہ مذہبی تجربہ، سائنسی علم سے مختلف نوعیت کا ہوتا ہے، لیکن دونوں ہی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دونوں میں، عقل، استدلال اور مشاہدے کا کسی نہ کسی شکل میں دخل ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ سائنسی علم، مادی دنیا پر توجہ مرکوز کرتا ہے، جبکہ مذہبی تجربہ، اسی مادی دنیا میں روحانی جہت شامل کرکے اسکی مکمل صورت گری کرتا ہے، جس کے بعد مادی دنیا محض مادی نہیں رہتی بلکہ مزید ترقی یافتہ، اخلاقی اور آفاقی ہو کر، روحانی دنیا ہو جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پروفیسر وائٹ ہیڈ نے بالکل درست طور پر کہا ہے کہ "ایمان کے ادوار، عقلیت کے ادوار ہوتے ہیں"۔ اسلام میں عقلی بنیادوں کی تلاش کا آغاز خود پیغمبر اسلام ﷺ سے ہوا سمجھا جا سکتا ہے۔ آپ کی مسلسل دعا تھی: اے خدا! مجھے اشیاء کی حتمی نوعیت کا علم عطا فرما! ، قرآن کا بنیادی مقصد انسان میں خدا اور کائنات کے ساتھ اس کے متنوع تعلقات کے اعلیٰ شعور کو بیدار کرنا ہے۔ علمی بصیرت اور مادی دنیا کو گرفت میں کرنے کے بعد ہی اس میں روحانی جہت شامل کرکے مذہبی تجربہ سے ہمکنار ہوا جا سکتا ہے جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ مذہبی تجربہ خلا میں صادر نہیں کیا جا سکتا، قران کریم کی مذکورہ آیات علمی و مادی دنیا کو گرفت میں لانے کے بعد اس میں روحانی جہت کےاضافہ کرنے کا یوں تقاضا کر رہی ہے۔
"بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے یکے بعد دیگرے آنے میں، سمجھ داروں کے لیے نشانیاں ہیں۔ جو لوگ کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہوئے خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں اور کہتے ہیں: "اے ہمارے رب! تو نے یہ بیکار نہیں بنایا۔۔ (3: 190-191)

