Hamara Qaumi Challenge
ہمارا قومی چیلنج
آرنلڈ ٹوائن بی ایک مشہور برطانوی تاریخ دان ہے اس نے اپنی تعلیم اکسفورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی اور بعد ازاں اسی یونیورسٹی میں بطور استاد اپنی خدمات سر انجام دیتا رہا اس کی مشہور کتاب تاریخ کا مطالعہ 1961 میں شائع ہوئی جس میں اس نے دنیا کی 23 بڑی تہذیبوں کا مطالعہ کیا۔
یہ 23 تہذیبیں ٹوائن بی کے خیال میں وہ تہذیبیں ہیں جنہوں نے 6 ہزار برس میں انسانی تاریخ اور دنیا کی صورت گری کی۔ ان تہذیبوں کے مطالعہ کے بعد وہ اس حیرت انگیز نتیجے پر پہنچا کہ ان تمام بڑی تہذیبوں کے زوال کی وجہ مختلف نہیں بلکہ ایک ہی ہے۔ اس وجہ کو بیان کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے کہ جو تہذیبیں درپیش چیلنجز کو رسپانس کرنا چھوڑ دیتی ہے وہ صفہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں اور اس کے برعکس جو تہذیب اپنے چیلنجز کو رسپانس کرنا شروع کر دیتی ہے، نہ صرف اس کا وجود بڑھنے لگتا ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو قائم رکھنے پر کامیاب ہو جاتی ہے۔
اس کی یہ تھیوری چیلنج اینڈ رسپانس تھیوری کے نام سے مشہور ہوئی۔ تاریخ کے تجزیہ سے جو ایک اور بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ کسی بھی تہذیب میں سب سے پہلے فنون لطیفہ، فائن ارٹس، ادبی فکر و تخلیق ترقی کرتے ہیں اور بعد میں وہ قوم یا تہذیب عروج پر فائز ہوتی ہے۔
دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں کہ جس نے مندرجہ بالا کے بغیر عروج حاصل کیا ہو۔ اسی کے پیش نظر اگر ہم پاکستان کو سب سے اہم درپیش چیلنجز کی بات کریں تو وہ یہی ہیں۔ تمام معاشی سماجی اور سیاسی چیلنجز اسی سے پیدا ہوتے ہیں۔
جب تک ہم فائن آرٹس تجدید فکر اور ادبی تخلیق کے چیلنجز کو ریسپانس نہیں کریں گے ہم معاشی اور سیاسی مسائل سے بھی چھٹکارا حاصل نہیں کر پائیں گے اور اسی طرح غیر ضروری مسائل سڑک، پل، مسافر خانے، روٹی کپڑا مکان کو اپنے قومی چیلنجز سمجھ کر رسپائنس کرتے رہیں گے۔