Tasadum Aur Taghayur Ka Zamana
تصادم اور تغیر کا زمانہ

مئی اور جون 2025 کے دوران عالمی منظرنامہ شدید کشیدگی، معاشی غیر یقینی، ماحولیاتی بگاڑ اور سماجی ابال سے عبارت رہا۔ خاص طور پر ایران اور اسرائیل کے مابین بڑھتے ہوئے تصادم نے دنیا کو ایک نئی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ 13 جون کو ایران کی جانب سے اسرائیل پر بیلسٹک میزائل اور ڈرون حملے نے خطے میں جنگی خطرات کو شدت دی، جس کے جواب میں اسرائیل نے ایران کے میزائل اور جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔
ایران کی جانب سے ہائپرسونک میزائل رکھنے کے دعوے پر بین الاقوامی ماہرین نے شکوک ظاہر کیے، تاہم یہ اعلان بھی جنگی نفسیات کی ایک مثال بن کر سامنے آیا۔ امریکی سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی "بے شرط ہتھیار بندی" کا مطالبہ کیا اور اس کے جواب میں امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ میں بحری افواج اور میزائل بیڑے تعینات کر دیے۔ یہ تمام تر پیش رفت نہ صرف فوجی تصادم بلکہ سائبر جنگ کی بھی پیش گوئی کر رہی ہے، کیونکہ امریکی سائبر ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایرانی سائبر حملوں کا خطرہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔
یہ بحران محض ایک علاقائی مسئلہ نہیں رہا بلکہ اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، روس، چین اور نیٹو جیسے عالمی پلیئرز کے لیے تشویش کا باعث بن چکا ہے۔ جہاں ایک طرف G7 نے اسرائیل کی خودمختاری کی حمایت کا اعلان کیا، وہیں دوسری طرف اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے اسرائیلی کارروائیوں کو ممکنہ جنگی جرائم کے دائرے میں پرکھنا شروع کر دیا ہے۔ اس سفارتی تقسیم سے اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی سیاست کس قدر مخمصے میں مبتلا ہے۔
اس کشیدگی کا شدید اثر عالمی معیشت پر بھی پڑا ہے۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق تیل کی طلب اور رسد کے درمیان شدید عدم توازن نے مارکیٹ کو غیر مستحکم کر دیا ہے۔ عالمی سطح پر افراط زر کی لہر، شرحِ سود کی پالیسیوں میں تعطل اور تجارتی بے یقینی نے عالمی معیشت کو نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ امریکہ میں فیڈرل ریزرو نے شرحِ سود میں تبدیلی نہ کرنے کا اعلان کیا، جبکہ مستقبل قریب میں ممکنہ کمی کے اشارے دیے جا رہے ہیں۔ برطانیہ، چین، جاپان اور یورپی مرکزی بینکوں میں بھی افراط زر اور معاشی نمو کے مابین توازن کی جدوجہد جاری ہے۔
ٹرمپ کی ممکنہ دوبارہ صدارتی دوڑ اور ان کی تجارتی پالیسیوں کی غیر یقینی صورتحال نے عالمی تجارتی نظام میں مزید بے چینی پیدا کی ہے۔ تجارتی پابندیاں، سیاسی دھمکیاں اور اتحادیوں میں اعتماد کی کمی نے معاشی عدم استحکام کو مزید تقویت دی ہے۔
ادھر ماحولیاتی تبدیلی کی ہولناکی بھی روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔ انسانی سرگرمیوں سے پیدا شدہ گرین ہاؤس گیسز نے قدرتی ماحولیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ کرڈ پول کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 2023 تا 2025 کے گلوبل کبلیکچر ایونٹ نے دنیا بھر کے 84 فیصد مرجانی ریفز کو سفید کر دیا، جس سے سمندری حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ جنگلات کی آگ، شدید گرمی، خشک سالی اور طوفانی بارشوں جیسے مظاہر ماحولیاتی تبدیلی کی ناقابل تردید علامات بن چکے ہیں۔
اس بگڑتے ماحولیاتی منظرنامے کے خلاف بین الاقوامی سطح پر کچھ اقدامات بھی سامنے آئے ہیں، جیسے "ہائی سیز ٹریٹی" جسے اب تک 49 ممالک نے منظور کیا ہے۔ یہ معاہدہ سمندری حیات، ماحول اور قدرتی ذخائر کے تحفظ کے لیے اہم سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے، مگر زمینی سطح پر اس کے عملی اثرات اب تک محدود دکھائی دیتے ہیں۔
عالمی سیاسی اور معاشی بحران کے ساتھ ساتھ عالمی ادارے عوامی صحت، صفائی اور ثقافتی بیداری کی کوششوں میں بھی سرگرم ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) نے 19 تا 20 جون کو "ہیلتھ 20 سمٹ" کا انعقاد کیا، جس کا مقصد COVID-19 کے بعد صحت کے نظام کو از سر نو استوار کرنا تھا۔ فضائی آلودگی کے خلاف کانفرنسوں اور ویب نارز کے ذریعے دنیا بھر میں بیداری پھیلانے کی کوشش جاری ہے، خاص طور پر اس تناظر میں کہ ہر سال تقریباً 7 ملین افراد قبل از وقت اموات کا شکار ہو رہے ہیں۔
ادھر سماجی سطح پر انسانی حقوق اور عوامی تحریکیں بھی اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہیں۔ منگولیا میں حکومت مخالف احتجاج کے نتیجے میں وزیرِ اعظم کو استعفیٰ دینا پڑا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عوامی قوت کس قدر فیصلہ کن ہو چکی ہے۔ فلسطینی عوام کے حق میں "گلوبل مارچ ٹو غزہ" کے تحت ہزاروں افراد نے مصر کے راستے انسانی امداد کی راہ داری کھولنے کا مطالبہ کیا، جو نہ صرف انسان دوستی بلکہ عالمی ضمیر کی بیداری کی علامت بھی ہے۔
ثقافتی محاذ پر 2025 کے فلمی میلوں نے عالمی فنون و ثقافت کو پھر سے زندگی بخشی ہے۔ نئے ٹیلنٹ کی آمد، سماجی مسائل پر بننے والی فلمیں اور بین الاقوامی تعاون پر مبنی پروجیکٹس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا نے فنی انداز سے بھی مسائل پر اظہارِ رائے کی راہیں کھول لی ہیں۔ عالمی یوجا ڈے، جس کا موضوع "One Earth, One Health" ہے، بھی ثقافت اور صحت کے امتزاج کا عالمی مظہر بن کر سامنے آیا ہے۔
صحت کے شعبے میں تشویشناک امر یہ ہے کہ نوجوانوں میں کولوریکل کینسر کی شرح بڑھ رہی ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں غربت، ناقص غذائی نظام اور صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی شامل ہیں۔ یہ رجحان نہ صرف صحت عامہ کے لیے ایک وارننگ ہے بلکہ معاشرتی اور اقتصادی ڈھانچے کی ناکامی کا آئینہ بھی ہے۔
مستقبل کے امکانات کے حوالے سے تجزیہ کیا جائے تو واضح ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی علاقائی توازن کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ اگر امریکہ یا نیٹو کی براہ راست مداخلت ہوئی تو مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کا دائرہ وسیع ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتیں سفارتی حکمتِ عملی کو بروئے کار لانے کی کوشش کر رہی ہیں، تاہم یہ تنازع اب بھی کسی پائیدار حل سے محروم ہے۔
عالمی معیشت کو سیاسی غیر یقینی، تجارتی پابندیوں، تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور افراط زر کے دباؤ نے غیر متوازن کر دیا ہے۔ ایسے میں مرکزی بینکوں کی مالیاتی پالیسیوں، عالمی تجارتی تعاون اور بین الاقوامی اداروں کی ہم آہنگی ہی استحکام کا راستہ فراہم کر سکتی ہے۔
ماحولیاتی چیلنج دنیا کے لیے سب سے بڑی آزمائش بنتے جا رہے ہیں۔ فضائی آلودگی، سمندری بگاڑ اور موسمیاتی تباہی سے بچنے کے لیے عالمی سطح پر حقیقی، منظم اور سخت اقدامات کی ضرورت ہے، بصورتِ دیگر انسانی بقا ہی داؤ پر لگ سکتی ہے۔
سماجی تحریکوں نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ آج کا شہری، خاص طور پر نوجوان نسل، ناانصافی اور کرپشن کے خلاف خاموش نہیں رہتی۔ وہ سوشل میڈیا، احتجاج اور بین الاقوامی مہمات کے ذریعے اپنی آواز بلند کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جو حکومتوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کریں۔
مجموعی طور پر عالمی حالاتِ حاضرہ کا تجزیہ بتاتا ہے کہ دنیا اس وقت ایک گہرے عبوری دور سے گزر رہی ہے، جہاں ایک طرف جنگ، سیاسی کشیدگی، ماحولیاتی تباہی اور صحت کے خطرات ہیں، تو دوسری طرف عوامی شعور، ثقافتی بیداری اور عالمی تعاون کی امید بھی زندہ ہے۔ اگر دنیا مشترکہ حکمتِ عملی، اخلاقی جرات اور اجتماعی وژن کے ساتھ آگے بڑھے تو یہ بحران مواقع میں بھی بدل سکتے ہیں۔ بصورتِ دیگر، یہ الجھاؤ مزید پیچیدگیوں کو جنم دے گا اور انسانی تاریخ ایک بار پھر انتشار، تباہی اور بے یقینی کا شکار ہو جائے گی۔

