Saturday, 17 May 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Kashif Hussain
  4. Jang Ke Saaye Mein

Jang Ke Saaye Mein

جنگ کے سائے میں

2015 کی ایک شام تھی جب مجھے ڈایان کا میسیج آیا کہ آج شام آڈیٹر مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ میں اس زمانہ میں اس این جی او کے بورڈ آف ڈائیریکٹرز کا چیرپرسن تھا۔ ڈایان ہمارے ادارے کی پروگرام مینیجر تھی۔ میں نے ملاقات کی جگہ اور وقت معلوم کرکے حامی بھر لی۔ جب شام کو ہوٹل کی لابی سے گزرا تو آڈیٹر سے ملاقات ہوگئی۔ آڈٹ پر رسمی بات چیت سے تسلی ہوگئی کہ سب مالی معاملات ٹھیک ہیں۔ ہماری این جی او کو سرکار سے اور دیگر اداروں سے ملنے والی مالی گرانٹ کا دارومدار آڈٹ کی شفافیت پر تھا۔ اسی لئے ہم نے ایک ممتاز آڈٹ کمپنی کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں۔

باتوں باتوں میں جب آڈیٹر کو معلوم ہوا کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے تو اس نے افغانستان کا ذکر چھیڑ دیا۔ کہنے لگا کہ میں کافی عرصہ افغانستان میں گزار چکا ہوں۔ میں چکرا سا گیا کہ یہ آڈیٹر وہاں کیا کر رہا تھا۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ موصوف کینیڈین آرمی کی طرف سے افغانستان میں امن فوج کی کمانڈ کر چکے ہیں۔ آڈیٹر اور آرمی کے تعلق پر کہنے لگا کہ چارٹر اکاونٹنٹ کا کورس تو آرمی سے نکلنے سے کچھ عرصہ قبل کیا۔ جب میں نے آرمی کی طرف سے افغانستان میں کمانڈ کے تجربے کے بارے میں دریافت کیا تو اس کے چہرے پر اداسی کی لہر چھا گئی۔ کہنے لگا کہ میں جب پہلی مرتبہ افغانستان گیا تو مجھے لگتا تھا کہ ہم وہاں امن قائم کرنے کی لئے جارہے ہیں۔ اس جنگ میں دھواں دھار گولہ باری، بستیوں اور علاقوں کی بربادی کے پس منظر میں ہمیں لوگوں کی آزادی اور عوام کی فتح کی نوید سنائی گئی تھی اور پھر وہاں کے لوگوں کی زندگی بامعنی اور بامقصد ہو جائے گی۔

جنگ میں شمولیت کے لئے یہ نسخے بہت آزمودہ ہیں۔ میں دل میں سوچ رہا تھا کہ میں اسے کیسے بتاوں کہ ہماری حکومتوں نے ان جذبات کی سرمایہ کاری اور جنگجو پسندی کے رجحانات کو پروان چڑھانے میں کثیر وقت اور سرمایہ بھی لگایا تھا۔ میری کیفیت سے بے خبر آڈیٹر نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھا کہ پہلی مرتبہ افغانستان جانے کے بعد ولولہ اور جذبہ آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا۔ میرا دل مطمئن نہ تھا اور پھر میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں اس طرح کسی کا استحصال نہیں کرسکتا۔ کیا مطلب؟ میں نے مزید کریدا تو آڈیٹر نے کہا کہ میں نے صرف شک کی بنیاد پر کئی مرتبہ مقامی لوگوں کو پکڑ کر قید میں بند کردیا کہ ان لوگوں کا حلیہ طالبان جیسا تھا۔ ان کے بیوی اور بچوں کی فریاد اور آوازوں کی میں نے شروع میں تو پروا نہ کی مگر میرے دل نے مجھے آواز دی کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ یہ بھی انسان ہیں۔ ان کو بھی زندگی گزارنے کا اتنا کی حق ہے جتنا ہم سب کو۔

آڈیٹر کی بات سن کر مجھے لگا کہ یہی لوگ انسانیت کے منصب پر فائز ہیں۔ یہ خدا اور انسان کو الگ الگ نہیں دیکھتے معلوم نہیں کب بنی انسان نے مخصوص مفاد کی جتھے بندی میں خدا کو اس کے بندوں سے الگ کر دیا۔ آڈیٹر پر جنگ کا المیہ ایسے بیتا ہے کہ اس جنگی جنون نے باشعور شخص کا دل جنھجوڑ دیا ہے۔ جس نے جنگ کی ہیبت اور تباہ کاری کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو اس پر زمانہ امن اور جنگ کی حقیقت آشکار ہوگئی۔

ہم لوگوں کی بدقسمتی دیکھیں کہ ایسے اہل جنوں ہیں کہ پاکستان اور بھارت کی اس جنگی کیفیت میں بھی لوگ جگتوں اور مذاق سے اس صورت حال سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ ہم نے برصغیر کی تاریخ سے کچھ خاص سبق نہیں لیا۔ شاید اسی لئے تاریخ میں تماشہ بن رہے ہیں۔ یہی قدرت کا اصول ہے۔

یورپ کی اقوام نے جنگ عظیم کی تباہ کاریوں سے سبق بھی سیکھا اور جنگ سے بچنے کی کوشش بھی کی۔ جاپانیوں کا بھی یہی مزاج ہے۔ ہم لوگوں نے شاید کبھی جنگ کے مہیب سایوں میں چھپی وحشت کے آثار محسوس نہیں کیے۔ دور کیوں جائیں مجھے یاد ہے کہ جب ہمارے بزرگ برصغیر کی ہجرت کے موسموں کا ذکر کرتے تھے تو ان کی آواز لرزتی تھی اور آنکھیں نم ہو جاتی تھیں۔ ہولناک اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستان نے انسانیت کو شرمسار کیا۔ اس دو طرفہ خونریزی کی صورتحال میں بہت سوں نے آگ کا دریا پار کیا کچھ خوش نصیب تھے کہ خوابوں کی تعبیر پائی۔ ہمیں سمجھ نہ آتا تھا کہ کس آنکھ میں خوشی ہے اور کس آنکھ میں غم اور دکھ کا سمندر ہے۔ جب ان بزرگوں کی داستان سنیں تو پروین شاکر یاد آتی ہیں۔

تم نے تو صرف خواب دیکھے ہیں

ہم نے ان کے عذاب دیکھے ہیں

ہمارے بزرگوں نے خواب کی جو امانت ہمیں سونپی تھی ہم اس امانت کو منتقل کرنے کے اہل نہیں رھے۔ ہم اپنے بچوں کو کیسے بتائیں کہ ہم نے وہ فصل نہیں بوئی جس میں خدا خوفی اور اس کے بندوں سے تعلق کی پنیری موجود تھی۔ ہمارے اختیار کا عہد تیزی سے خشک ریت کی مانند ہماری مٹھیوں سے پھسل رہا ہے۔ کسے بتائیں کہ ہمارا عہد تو خزاں کی تاریکی سے منسوب ہے۔ ہماری آنکھ نے فطرت اور زمانے کے اشارے سمجھنے کے بجائے ہجوم کی فراست پر بھروسہ کیا اور خدا کو پس پشت ڈال دیا۔

مربی کہتے ہیں کہ ہمیں جن چیزوں میں حساس ہونا چاہیے ہم ان سے لاپرواہ ہیں مگر جن چیزوں میں حساسیت سے گریز کرنے کی ضرورت ہے وہاں ہم بے حد حساس ہیں اور معاملہ فہمی سے دور ہیں۔ ہمارے ایک استاد کہا کرتے تھے۔ کہ ہماری قوم نے عجب مزاج پایا ہے۔ اگر کھیل کا میچ جیت لیں تو خیال کرتے ہیں کہ دنیا فتح کر لی ہے اور قوم اجتماعی وقار کھو دے تو اس کا دکھ ایک میچ ہارنے سے زیادہ نہیں ہوتا۔

پھر کتاب روشن مسکراتی ہے اور آواز آتی ہے۔ بیشک اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں۔ (سورت رعد آیت نمبر 24۔ جزوی)

Check Also

Zikr e Ilahi

By Rao Manzar Hayat