Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Zulm Aur Na Insafi

Zulm Aur Na Insafi

ظلم اور نا انصافی

پاکستان کی دیہی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زراعت کے بعد اگر کسی شعبے کو کہا جائے تو وہ دودھ پیدا کرنے والا طبقہ ہے۔ یہ وہ کسان ہیں جو صبح سویرے سے لے کر رات گئے تک محنت کرتے ہیں تاکہ عوام کو خالص اور صحت مند دودھ مہیا کر سکیں۔ لیکن افسوس کہ یہی طبقہ آج سب سے زیادہ معاشی دباؤ اور ناانصافی کا شکار ہے۔

حکومت کی جانب سے دودھ کے ریٹس کا کوئی واضح نظام موجود نہیں۔ مارکیٹ میں دو نمبر اور کیمیکل ملا دودھ نہ صرف عام دستیاب ہے بلکہ کم قیمت ہونے کے باعث زیادہ فروخت بھی ہوتا ہے۔ اس کے برعکس خالص دودھ پیدا کرنے والے کسانوں کو ان کی محنت اور معیار کے مطابق قیمت نہیں مل رہی۔

دوسری طرف، جانوروں کی خوراک، ویکسین، بجلی، فیڈ اور چارہ کے اخراجات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ دودھ پیدا کرنے والے فارمرز کے لئے یہ تمام اخراجات پورے کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ان کا کاروبار نفع کے بجائے نقصان کا سودا بنتا جا رہا ہے اور کئی کسان یا تو جانور بیچنے پر مجبور ہیں یا پھر غیر معیاری دودھ کے کاروبار کی طرف مائل ہو رہے ہیں، جو عوام کی صحت کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔

کسی بھی حسابی کتابی ماہر سے حکومت فی لیٹر دودھ پر آنے والے اخراجات کا حساب لگائے اور پھر دیکھے کہ کیا موجودہ قیمت میں ملک فارمر کیسے دودھ بیچ سکتا ہے۔ دودھ کی مناسب قیمت نہ ملنا کیمیکل ملا پانی ملا دودھ کی پیداوار میں اضافہ کا سبب بن رہا ہے۔

اگر حکومت واقعی دودھ کی صنعت کو مضبوط کرنا چاہتی ہے تو اسے فوری اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ سب سے پہلے دودھ کے نرخوں کے لئے ایک ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے جو کسانوں کو ان کی محنت کا مناسب معاوضہ دلوائے۔ خالص دودھ کے لئے ٹیسٹنگ اور سرٹیفکیشن سسٹم متعارف کرایا جائے تاکہ عوام اور خالص دودھ پیدا کرنے والے دونوں محفوظ رہیں۔

اسی طرح حکومت کو چاہیے کہ ملکنگ فارمرز کے لئے سبسڈی، آسان قرضے اور جدید مشینری تک رسائی کو یقینی بنائے۔ دودھ کے ذخیرہ (storage) اور ترسیل کے نظام کو بہتر بنایا جائے تاکہ دودھ ضائع نہ ہو۔ اگر کسان کو سہولت، تحفظ اور منافع دیا جائے تو وہ بہتر کارکردگی دکھائے گا، جو نہ صرف معیشت بلکہ عوام کی صحت کے لیے بھی مفید ثابت ہوگا۔

آخر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دودھ کا کاروبار محض تجارت نہیں بلکہ ایک خدمت ہے۔ وہ کسان جو اپنی راتوں کی نیند قربان کرکے قوم کے لئے خالص دودھ پیدا کرتا ہے، وہ ہمارے احترام اور حکومتی تعاون کا حقدار ہے۔ اگر حکومت نے اب بھی توجہ نہ دی تو خالص دودھ پیدا کرنے والے کسان مایوسی کا شکار ہو جائیں گے اور مارکیٹ میں صرف کیمیکل زدہ دودھ باقی رہ جائے گا۔

یہ وقت ہے کہ حکومت محنت کش کسان کے ساتھ کھڑی ہو، تاکہ دیہی معیشت مضبوط ہو، دودھ کی کوالٹی بہتر ہو اور قوم صحت مند مستقبل کی طرف بڑھے۔

دودھ کے ریٹ زیادہ نہ بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ دودھ کی مارکیٹ میں ڈیمانڈ دو نمبر دودھ بااحسن طریقہ سے پورا کر رہا ہے۔ اگر اس پر کسی طرح روک لگا دی جائے تو جب صیحح دودھ کی ڈیمانڈ بنے گی دودھ کی قدر میں اضافہ ہوگا تو ریٹ بھی اچھا ملے گا۔ یہ سیدھا سیدھا ڈیمانڈ اور سپلائی کی گیم ہے۔

حکومت کو چاہئے کہ اپنی ہراساں کرنے کی پالیسی پر ازسر نو غور کرے۔ ایک فارمر خالص دودھ مڈل مین کو فروخت کرتا ہے۔ راستے میں وہ مڈل مین دودھ کی مقدار بڑھانے کے لئے جو بھی غلط حربہ استعمال کرتا ہے۔ تو اس میں فارمر پر ایف آئی آر درج کرنے کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔ ایسا ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ دہشت گردی کوئی کرتا ہے شامت ڈبل سواری پر آ جاتی ہے۔ بسنت ایک اچھا ایونٹ تھا۔ کچھ لوگوں کی عاقبت نا اندیشی کے سبب سب لپیٹ میں آ گئے۔ مارکیٹوں میں لا اینڈ آرڈر کے مسائل پیدا ہونا شروع ہو گئے۔ تو گارڈ رکھنے کا قانون بنا دیا گیا۔ یاد رکھے ایسا کرکے آپ ملک فارمر کی حوصلہ شکنی کریں گے۔ لائیو سٹاک جو پہلے ہی آخری سانسوں پر کھڑی ہے موت کے منہ دھکیلنے کے مترادف ہوگا۔

دودھ کے معیار کو چیک ضرور ہونا چاہئے۔ وہ ملکنگ شاپس پر ہو سکتا۔ داخلی راستوں پر لیبارٹریوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ تا کہ کم وقت میں دودھ چیک ہو کر سیل پوائنٹ پر وقت پر پہنچ جائے۔

دو نمبر دودھ شہر کے باہر سے کم شہر کے اندر گلی محلوں میں دو کمرے کرائے پر لیکر زیادہ بنایا جا رہا ہے۔ اس لئے شہر کے اندر ایکشن زیادہ لینے کی ضرورت ہے۔ نہ کہ جو صیحح کام کر رہے ان کو بلا وجہ تنگ یا پریشان کیا جائے۔ ظلم اور زیادتی کا نظام زیادہ پائیدار نہیں ہوتا۔ ظلم آخر مٹ جاتا ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan