Sabar Ka Pemana
صبر کا پیمانہ

جس تیزی سے موجودہ صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ اس پر سابقہ سپیڈی خادم اعلیٰ کی تعریف بنتی ہے۔ کچھ ایسے فیصلے جو کئے گئے ہیں وہ عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ اور ذہن ان کوقبول کرنے سے انکاری ہے۔ اب موقع آ گیا ہے کہ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہو گا اس ملک کو ایک بادشاہی ریاست میں تبدیل کر دینا چاہئے۔ اور رعایا کو کوئی حق نہ ہو کہ وہ بادشاہ کے خلاف کھڑی ہو سکے۔
یا کوئی ایسا فارمولا تیار کیا جائے جو انسان کے دیکھنے، سوچنے، سمجھنے کی صلاحیت کو سلب کر لے یا بیان کرنے پر روک لگا دے۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ماضی میں جو سنا، دیکھا، یقین کیا اب تو زبان پر یہی آ رہا
یاد ماضی عذاب ہے یا ربّ
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
جنگل کا قانون سنتے تھے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس پڑھتے تھے۔ اب ان محاورات کی سمجھ اچھے سے آنے لگی ہے۔ ایسا ہمارے ساتھ ہی کیوں ہوتا کہ ہم ہر دس سال کے بعد وہی کھڑے ہوتے جہاں سے ہم نے سفر شروع کیا تھا؟ کہتے "مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاتا" ہم شاید اس لسٹ میں نہیں آتے اسی لیے بار بار انہی لوگوں کے در پر حاضری دینی پڑتی۔
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
کیا اس سسٹم کے فیلیئر ہونے میں کوئی شک باقی ہے؟ ابھی کچھ دن پہلے ایک انتہائی محترم جج صاحب نے اپنی کیمونٹی کے لوگوں سے سوال پوچھا کہ کون اس انصاف عدل کے سسٹم سے مطمئن ہے ہاتھ کھڑا کریں، ویڈیو میں نظر آتا کہ کسی ایک نے بھی ہاتھ کھڑا نہیں کیا۔ سوچئے ہم کہاں کھڑے ہیں؟ دنیا میں جو انصاف فراہم کرنے والے اداروں کی رینکنگ کرتا ہم سو کے بعد کسی ہندسے کو ٹچ کر رہے ہیں۔
ہم خود دنیا کو جگ ہنسائی کا موقع دیتے ہیں۔ ہمارا قانون ثابت کر رہا کہ یہ کمزور مکھی اس میں پھنس کے رہ جاتی ہے طاقتور اس کو توڑ کے نکل جاتا ہے۔ موجودہ سیٹ اپ نے بڑی خوبصورتی سے اس نظام کو اپنے حق میں استعمال کیا ہے۔ اور یہ پیغام دیا ہے کہ کوئی تبدیلی نہیں آ رہی۔ پر یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ
"وہ قومیں بربّاد ہو گئیں جو کمزوروں کو سزا دیتی تھی اور طاقتوروں کو چھوڑ دیتی تھی۔ "
قدرت کے اپنے قانون ہوتے جس سے مفر ممکن نہیں اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ آپ وقتی اپنا جشن منا سکتے ہیں لیکن اندر کھاتے عوام کے اندر بےچینی غصہ بڑھ رہا ہے۔ ایک لاوا ہے جو پک رہا ہے۔ لوہا گرم ہے بس ایک ہتھوڑے کی ضربّ کی ضرورت ہے۔ جس طرح ٹی وی میڈیا بے نقاب ہوا ہے کہ لوگوں کا اس پر سے اعتماد ہی اٹھ گیا ہے۔ سب چینل ایکسپوز ہو گئے ہیں کہ کون کس کی راگنی گا رہا ہے۔
اب وہ انیسویں صدی کا دور نہیں رہا نہ وہ طریقے اب مستعمل ہیں۔ جدید دور کے جدید طریقے کہ آپ ایک مکھی جیسی ڈیوائس سے کسی کی بھی آواز یا جاسوسی کر سکتے ہیں۔ اور اس کا مشاہدہ اب آئے روز سننے، دیکھنے کو مل رہا ہے۔ کیسے کیسے جگادری ہمارے لیڈر ہیں۔ اب یہ قوم کو فیصلہ کرنا ہے کہ اسی سیٹ اپ، اسی غلامی کے ساتھ زندگی گزارنی ہے یا اس سیٹ اپ سے جان چھڑانی ہے جو باہم ایک دوسرے کو سپورٹ کرتا ہے۔
اس ملک کی جغرافیائی اور معاشرتی پوزیشن ایسی کہ اس ملک کو صدارتی نظام ہی ٹھیک کر سکتا ہے۔ جب تک ہم اس کی بنیاد کی پہلی اینٹ کو ٹھیک نہیں کرتے عمارت سیدھی نہیں ہو سکتی۔ پارلیمانی نظام کی برکات آپ نے دیکھ لی ہیں۔ یہ ہمارے ملک کے لئے کارآمد نظام نہیں ہے۔ بنانا ری پبلک کی اصطلاح بہت سنی ہے کوئی بتائے گا کہ وہ کیسی ہوتی ہے؟ خاموشی کسی طوفان کاپیش خیمہ ہوتی ہے۔ عوام کی خاموشی کہیں، بظاہر لگ تو یہی رہا کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کو ہے۔ فیض احمد فیض یاد آ رہے۔
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے

