Pasti Ki Inteha
پستی کی انتہا

پستی نیچے گر جانے کی اصطلاح میں استعمال ہوتی ہے۔ وہ پھر چاہے اخلاقی پستی ہو یا ذہنی پستی کسی بھی طرح اس کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔ کچھ عرصے سے جب سے رجیم چینج کا واویلا سننے میں آیا ہے۔ کچھ ایسی لائنیز کھینچی جا چکی ہیں۔ جس سے یہ فیصلہ کرنے میں آسانی پیدا ہو گئی ہے۔ کہ کون کہاں کھڑا ہے۔ ابھی جو ملکہ برطانیہ کی وفات ہوئی ہے۔
اس پر جس طرح ہمارے حکمرانوں نے اس خاندان سےاظہار ہمدردی دکھائی اور جس طرح ملکی وقار اور ہماری آزادی پر کاری ضرب لگائی ہے۔ کہ سوگکے لئے اپنا جھنڈا سر نگوں کیا۔ ہر اس پاکستانی کا سر بھی شرم سے جھک گیا جو یہ سمجھتاتھا کہ ہم آزاد قوم ہیں۔ چودہ اگست گزرے کچھ زیادہ دن نہیں ہوئے، جس میں ہم آزادی کے موضوع پر لمبی لمبی تقاریر فرما رہے تھے۔
کیا یہ تاریخ نہیں کہ ہمارے بڑوں نے آزادی کی قیمت چکائی تھی۔ اور یہ بھی کیا سچ نہیں کہ آزادی کے لئے جانوں کی قربانی دینی پڑی تھی؟ اور کیا یہ بھی سچ نہیں کہ آزادی ہم نے انہی انگریزوں سے لڑ کر لی تھی؟ پھر ایسا کیا ہے کہ ہم خود کو آزاد بھی کہتے ہیں۔ لیکن ذہنی غلامی سے نہیں نکل پا رہے ہیں۔ حکمرانوں کے اس فیصلے نے ہر اس پاکستانی کی آنکھیں کھول دی ہیں اور ایک لائن مزید کھینچ دیہے۔
اور یہ واضح ہو گیا ہے کہ ہمارے لیڈران منتخب تو ہمارے ووٹوں سے ہوتے ہیں۔ لیکن پانی انہی لوگوں کا بھرتے ہیں۔ ہمارے ملک کے اصل حکمران ہمارے لیڈر نہیں، بلکہ آج بھی انہی لوگوں کا سکہچل رہا ہے۔ انہی لوگوں کے پروردہ کٹھ پتلی لوگ ہماری صفوں میں شامل ہیں۔ یہی وجہ کہ ان کی جائیدادیں بھی انہی ممالک میں۔ ان لوگوں کی مجبوری ہے کہ اپنے آقاؤں کو خوش کریں۔
پر یہ ملک کی عوام کو غلام بنانے کی قیمت پر نہیں ہونا چاہئے۔ یہ پستی کی انتہا ہے۔ جو ہمیں دیکھنے کو ملی ہے۔ پر اس میں اچھا پہلو یہ ہے کہ وہ سب لوگنمایاں ہو گئے، جو برطانویں سامراج کےکسی نہ کسی مفاد کا حصہ ہیں۔ جو اس ہزیمت پر نہیں بولا وہ صحافی حضرات وہ میڈیا چینل وہ ادارے جو ملکی وقار عزت کے استع مارے کے طور پر جانےجاتے ہیں۔
وہ لیڈران جو تبدیلی کے داعی بنتے ان کی طرف سے بھی خاموشی بہت کچھ سوچنےسمجھنے پر مجبور کر رہی ہے۔ کیا قوموں کو اس طرح غلامی کی طرف دھکیلا جاتا ہے۔ جب لیڈر ہی ذہنی پستی اور غلامانہ سوچکے مالک ہوں وہ خاک قوم کو اٹھائیں گے۔ ممالک کے درمیان باہمی اعتماد وقار کے ساتھ برابری کے تعلقات ہونے چاہئیں۔ کیا کبھی برطانیہ نےبھی آپ کے کسی حکمران کی وفات پر اپنا جھنڈا سرنگوں کیا ہے؟
اس ملک میں رجیم چینج کے حوالے سے جس ملک کی بازگشت سنائی دیتی تھی۔ اب اس میں ایک اور ملک کا بھی اضافہ ہو گیا کہ اس ملک کا بھی ہمارے اقتدار کے ایوانوں میں عمل دخل ہے۔ اور ابھی بھی ہمارے ملک میں میر جعفروں میر صادقوں کی کمی نہیں ہے۔ جو صرف اپنے ذاتی مفاد کے لئے پورے ملک کی عزت داؤ پر لگانے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ کہ کہیں وہ ملک ویزہ دینے سےانکار نہ کر دے یا جو رہ رہے ان کو نہ نکال دے۔
خدارا قوم پہلے ہی بہت مشکلات میں ہے۔ پیٹ کی آگ بھرنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ جو تھوڑی بہت عزت نفس بچی ہوئی اس کو مٹی میں مت رلنے دیں۔ اگر ہم نے عزت نفس کھو دی تو صدیاں بیت جائیں گی غلامی کی چنگل سے نکلنے کے لئے۔ جناب وزیر اعظم صاحب آپ کے پاس ایسی فورس موجود جو عوام کی نبض بتا سکتی ہے ذرا ایسی عوام کی رائے جان لیں کہ آپ کے اس ایک فیصلے سے کتنے بے چینی بڑھی ہے۔
اور آپ کےخلاف نفرت کی خلیج بڑی ہے یا کم ہوئی ہے۔ خدارا تحریک آزادی کی یا تو تاریخ تبدیل کر دیں یا پھر خود کو تحریک آزادی کی تاریخ میں ڈھال لیں۔ قوم اب حقیقی آزادی چاہتی ہے کٹھ پتلی حکمرانوں سے بھی اور ان آقاؤں سے بھی جو پاکستان بننےسے لیکر اب تک ہماری قسمت کے فیصلے صادر کرتے آرہے ہیں۔ علامہ اقبال رع ہماری نفسیات سے واقف تھے اسی لئے وہ فرما گئے۔
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

