Pashen Goi
پیشن گوئی

آجکل سوشل میڈیا پر ہر کوئی سیاسی معاملات پر دھڑا دھڑ پیشن گوئیاں کی جا رہی ہیں۔ غائب کا علم تو ربّ کائنات کے پاس ہے۔ لیکن سابقہ حالات، معاملات اور تجربات کی بنیاد پر انسان کچھ نتائج اخذ کر لیتا ہے۔ جس کے پاس جتنا علم ہوتا وہ اسی کو بنیاد بنا کر آنے والے حالات کی عکاسی کر دیتا ہے۔ کبھی وہ پیشن گوئی پوری ہو جاتی اور کبھی نہیں بھی ہوتی۔ جیسا کہ موجودہ سیلاب کے بعد جو آنے والے حالات ہیں جن لوگوں نے سابقہ ادوار سیلاب کے دیکھے ہیں وہ آنکھ بند کر کے بتا سکتے ہیں کہ اب کن کن مراحل سے گزرنا ہو گا؟
کن مصائب کا سامنا کرنا ہو گا اور آئندہ کے لئے ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے کیا اقدامات نا گزیر ہیں؟ عوام تو ہمیشہ ایسے مواقع پر بڑھ چڑھ کر اپنے بھائیوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہو جاتی ہے پر یہ سب عارضی بندوبست ہوتا ہے۔ زلزلہ زدگان کے متاثرین ابھی تک اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو پائے۔ سیلاب تو تقریباََ ہر سال اپنی موجودگی کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ ہمیں مستقل اور پائیدار حل کی طرف جانا چاہئے۔
موجودہ صورتحال میں اب سب راشن کی طرف متوجہ ہیں۔ حالانکہ اکیلا راشن داد رسی نہیں کر سکتا۔ گاؤں میں چولہے عموماََ لکڑی سے جلائے جاتے ہیں۔ خشک لکڑی نا پید ہو چکی ہے۔ اسی طرح پانی تو آ کر گزر چکا ہے لیکن وہ اپنے مضمرات چھوڑ جاتا ہے۔ مویشی مر چکے، فصلیں اجڑ چکی ہیں۔ جدھر پانی کھڑا رہ جائے گا وبائی امراض سر اٹھائیں گے ملیریا، ٹائیفائیڈ، ہیضہ وغیرہ عام ہو گا۔
اب اصل جو مرحلہ درپیش ہے وہ ان وبائی امراض سے تحفظ کا ہے۔ اس کے لئے میڈیکل کیمپس ناگزیر ہیں۔ ہسپتال ایمرجینسیز کو مزید فعال رکھنا ہو گا۔ مہنگائی کی لہر آ چکی ہے مزید کھانے پینے کی اشیاء خاص کر سبزیاں، فروٹ مزید مہنگے ہو جائیں گے۔ اس کے لئے ابھی سے ہوم ورک کر لینا چاہئے کہ ہمسایہ ممالک سے درآمد کر لی جائیں۔
بہت وسیع پیمانے پر جانوروں کی اموات سے یہ خدشہ بھی ہے کہ گوشت کی ترسیل کم ہو اور ریٹس میں اضافہ دیکھنے کو ملے۔ ان علاقوں میں جانوروں اور مرغیوں کی پرورش کے لئے کوئی جامع پلان دیا جائے۔ ہمسایہ ممالک کو جانوروں کی اسمگلنگ پر پابندی عائد کی جائے۔ تاکہ ملکی ضروریات پوری ہوتی جائیں اور عید قربّاں پر جانوروں کی تعداد وافر موجود ہو۔ تاکہ ہر کوئی سنت ابراہیمیؑ ادا کر سکے۔
جن کسانوں کی فصلیں، گھر تباہ ہوئے ہیں ترجیحی بنیادوں پر شفافیت اور میرٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد کی جائے۔ یاد رکھیے ہمیں صرف مچھلی نہیں دینی ہے یہ ووٹ لینے کا آسان حل ہے۔ فوٹو سیشن اور سیاسی شعبدہ بازی عوام نے بہت بار دیکھی ہے۔ ہمیں مچھلی پکڑنے کے اوزار اور مچھلی پکڑنے کے طریقے سکھانے ہوں گے پھر ہی اس ملک اور عوام کی تقدیر بدلی جا سکتی ہے۔
حکومت کی طرح عوام کا بھی ہر بار اغیار کی مدد کا منتظر رہنا بھکاری بنا دیتا ہے۔ اس سوچ سے حکومت بھی نکلے اور عوام کو بھی نکالیں۔ جب تک ہم نچلی سطح پر ہنر مندی اور چھوٹے اسکیل پر انڈسٹری کو پروان نہیں چڑھائیں گے قوم بھکاری رہے گی۔ خدارا اس قوم کی عزت نفس کو جگائیں۔ بہت جوہر ہے اس قوم میں۔

