Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Nazm o Zabt

Nazm o Zabt

نظم و ضبط

قائد کا فرمان ایمان، اتحاد، نظم۔ بحیثیت قوم ہم ان زریں اصولوں کو فراموش کر چکے ہیں۔ ہمارے ایمان کمزور ہو چکے ہیں۔ اتحاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ علاقائی، گروہی بنیادوں پر بٹ چکے ہیں۔ اسی کا شاخسانہ کہ ہم کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے پیدا نہیں کر پائے۔ نظم و ضبط ہماری زندگی میں گھر نہیں کر پایا۔ ہم بھیڑ چال کا شکار لوگ ہیں۔ قدرتی آفات ہمیں خواب غفلت سے جگانے کے لئے آتی ہیں۔ ایسی مشکلات سے عہدہ براء ہونا قوموں کی زندگی میں دوام بخشتا ہے۔

ہمارے ملک میں ایک ایسا ادارہ موجود ہے جس نے کوڈ 19 جیسے بھیانک سانحے کو احسن اور اچھےطریقے سے ہینڈل کیا ہے۔ جسے این ڈی ایم اے سے جانا جاتا ہے (نیشنل ڈسزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی)۔ بہت ضروری ہے کہ اس ادارے کو مزید وسعت اختیار دیا جائے۔ جو افرادی قوت یا فورس تشکیل دے ان کی تربیت کرے۔ ہم جو ہر مشکل گھڑی میں اپنی افواج کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں ان کے کندھوں سے بوجھ کو کم کریں۔ مستقل بنیادوں پر اس ادارے کی بنیاد رکھیں۔

کوئی بھی قدرتی آفات چاہے زلزلہ یا سیلاب دونوں صورتوں میں ہمیں نظم و ضبط کا فقدان نظر آتا ہے۔ ہمارے لوگ الحمداللہ چیرٹی دینے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ لیکن ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ہم وہ کماحقہ فائدہ نہیں اٹھا پاتے۔ پچھلی حکومت نے ایک منصوبہ بندی کی تھی کہ سب فلاحی اداروں کو مربوط کیا جائے ان کے درمیان ایک ورکنگ ریلشن شپ پیدا کی جائے۔ وہ منصوبہ بندی کہاں تک پہنچی کوئی علم نہیں۔

ملک میں فنڈ ریزنگ کا معاملہ ہمیشہ مشکوک ہی رہا ہے۔ چاہے وہ ڈیم فنڈنگ ہو یا کوئی اور کسی کو کچھ علم نہیں کہ ہمارا دیا گیا پیسہ کہاں گیا؟ ایک اسکیم آئی تھی قرضہ اتارو لوگوں نے دل و جاں سے کوشش کی لیکن آج تک اس کی بھی ہوا تک نہیں لگی۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ جب بھی کوئی ایسی آفت آتی تو خدمت خلق کی بہت سی تنظیمیں کھمبیوں کی طرح اگ آتی پر نظم و ضبط تال میل نہ ہونے کی وجہ سے اصل حقدار اس کاوش سے محروم رہ جاتے ہیں جو جگادری لوگ جو پہلے ہی بھیک مانگتے پروفیشنلز ہوتے وہ اپنا کام دیکھا جاتے۔

عزت دار، سفید پوش لوگ کب چاہیں گے کہ ان کی عزت نفس مجروح ہو۔ ہمارے سیاسی شعبدہ باز بھی اسی تاک میں ہوتے کہ فوٹو سیشن کئے جائیں۔ ووٹ پکے کئے جائیں، موجودہ سیلاب کی صورتحال میں ایسےواقعات تواتر سے ہو رہے اور سوشل میڈیا پر بہت لے دے ہو رہی۔ کہ کیسے پچاس کے نوٹ تقسیم کئے جا رہے۔ آج ہی کی خبر ہے کہ کچھ جگہ پر بطور احتجاج لوگوں نے راشن لینے سے انکار کر دیا ہے کہ لوگ ساتھ فوٹو سیشن کرتے پھر میڈیا کی زینت بناتے جس سے ان کی عزت نفس مجروع ہوتی ہے۔

ان سب مسائل کا واحد حل ایک قومی ادارہ قائم ہو اس کے پاس رضا کارروں کی فورس موجود ہو، تمام فلاحی ادارے ان کی افرادی قوت ان کے کنٹرول میں ہو۔ جتنی بھی ملکی یا غیر ملکی امداد آئے وہ ایک جگہ پر اکٹھی ہو۔ اس ادارے کے پاس یہ معلومات ہو کہ کس جگہ پر کتنی تعداد میں کیا چاہئے؟ وہ سب ایک کنٹرول روم کے ذریعہ سائنسی بنیادوں پر اس سارے نظام کو چلائے۔ اور اس کا ڈیٹا آن لائن ہو ساتھ ساتھ اپ ڈیٹ بھی ہو۔ تا کہ شفافیت قائم رہے۔

لاہور کی تاجر تنظیموں نے بھی فنڈ ریزنگ شروع کر دی ہے اسی طرح دوسرے شہروں کی تاجر برادری کو بھی اس موقع پر آگے آنا چاہئے۔ فنڈ کی کمی نہیں اس ملک میں عدم اعتماد کا فقدان ہے جو کہ اس ملک کے سیاست دانوں نے پیدا کیا ہے۔ کہ ملک کے ٹیکس کے پیسے کو نانا جی کی کھیر سمجھ کر بانٹا گیا ضائع کیا گیا ہے۔ جس دن عوام کو یہ تسلی ہو گئی کہ ان کا پیسا محفوظ ہاتھوں میں ہے اور جائز خرچ ہو رہا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ ہمارا خزانہ بھر جائے گا۔

قدرتی آفات پر موقع پرست لوگوں کو پہچانیے جو صرف اپنے بینک بیلنس میں اضافہ کر کے غائب ہو جاتے ہیں۔ بہت ضروری ہے کہ اتفاق رائے سے این ڈی ایم اے کے ذریعے عوام تک پہنچا جائے تاکہ جس مقصد کے لئے لوگوں نے اپنا حصہ ڈالا ہے وہ ضرورت مند اس سے مستفید ہوں۔ حقدار کو حق ملنا چاہئے پیشہ ور لوگوں سے اجتناب کریں۔ یہ لوگ جان بوجھ کے ایسے راستوں پر ڈیرے ڈال لیتے جہاں سے امدادی سامان گزارا جاتا ہے۔ ہم نا سمجھی میں ادھر بانٹ کر مطمئن ہو جاتے جو شریف اور حقدار لوگ وہ شرمندگی کے مارے پیچھے رہ جاتے ہیں۔

اس لئے نظم و ضبط بہت ضروری ہے کہ ایک چھت کے نیچے یہ نظام ترتیب دینا چاہئے۔ کمپوٹر پر سائنسی بنیاد پر سیٹلائیٹ کے ذریعے سے اس کو مانیٹر کیا جائے جیسے سعودی عرب میں وہ لوگوں کو ایک سسٹم کے تحت مانیٹر کرتے ہیں ان کو مینج کرتے ہیں۔ وہاں آپ کو ایک نظم و ضبط نظر آئے گا۔ ہمیں بھی اسی نظم و ضبط کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ قائد کے فرمان کو پورا کرنا ہو گا۔ کامیابی کے لئے یہ ایک بنیادی اصول ہے۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail