Noon Se Namak
ن سے نمک

نمک ہماری خوراک کا جزولانیفک ہے۔ اس لئے اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس کاحد سے زیادہ استعمال نقصان دہ ہے۔ خاص کر بلڈ پریشر اور دل کے امراض میں مبتلا لوگوں پر۔ ہومیو پیتھی میں نمک سے ایک دوائی تیار کی جاتی ہے جو کہ کثرت سے استعمال کی جاتی ہے۔
انگریزی پریکٹس میں نمک کے محلول سے زخموں کو دھونے اور جسم میں نمکیات کی کمی دور کرنےکے لئے بذریعہ نس بطور علاج بھی کیا جاتا ہے۔ کچھ لوگ محاورہ تن بھی استعمال کر لیتے جیساکہ
یار اب آپ میرے زخموں پر نمک مت چھڑکو
اقتدار کے سنگھاسن پر جو بھی بیٹھتا ہے اس پر بھی لوگ اکثر یہ جملہ بولتے کہ یہ سب نمک کیکان ہے جو بھی اس کے اندر گیا نمک ہی ہو گیا۔ نمک سے ہی کسی کو طعنہ دیا جاتا ہے کہ وہ تو نمک حرام نکلا۔
برصغیر کے لوگوں کی روایت رہی ہے کہ جب کوئی کسی کے گھر کا نمک کھا لیتا تھا۔ تا دم خاندانی لوگ اس نمک کی قیمت اس طرح چکا کر کرتے تھے کہ میں نے اس گھر کا نمک کھایا ہوا ہے میں کیسے ان سے دغا کر سکتا ہوں۔ یعنی نمک سے ہی اس کے حرام اور حلال کا فیصلہ کر لیا جاتا تھا۔
بچپن میں جو سب سے سستی چیز لگتی تھی وہ نمک تھا۔ کیا کہنے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اشتہاربازی کر کے لوگوں کو متوجہ کیا اپنی طرف اب نمک کی قیمت یہ جا وہ جا۔ بزرگوں سے سنتے تھے کہ ہمارے ہمسایہ ملک میں نمک کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ اور اکثر ایک واقعہ بھی سنایا جاتا تھا کہ نمک کی وجہ سے ایک جاسوس کو پکڑا گیا تھا۔ جس نے چائے کہ ڈھابہ پرآکر بولا تھا کہ چائے میں ایک روپے کا نمک ڈال دینا۔
پچھلی حکومت میں ہمسایہ ملک کو نمک کم نرخوں اور متواتر دینے کے حوالے سے کافی بازگشت سننے کو ملی کہتے کہ یہ ایک سب معاہدہ کے تحت ہے۔ معاہدہ تو اس بات پر بھی تھا کہ جو دریا پاکستان کو دئیے گئے ہیں ان پر بند نہیں باندھا جا سکتا لیکن وہ تو اس پانی میں رکاوٹ کھڑی کررہا ہے۔ تو ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ایک اور تھیوری بھی زبان ذد عام ہے کہ ہمارا پنک سالٹ ہمارا ہمسایہ ہم سے کم نرخ میں لے کر دنیا کو مہنگے داموں اپنا لیبل لگا کر بیچ رہا ہے۔ اس میں کتنی صداقت واللہ عالم۔
جہاں سے یہ نمک نکالا جا رہا ہے وہ دنیا کی دوسری بڑی کان ہے۔ اس کی دریافت بھی حیران کن طریقے سے وجود میں آئی۔ اس وقت کا حکمران یا نمائندہ جب اس پہاڑی سلسلے کے پاس سے گزرا تو سستانے کے لئے تھوڑی دیر کے لئے رکا اور گھوڑوں کو چرنے کے لئے چھوڑ دیا گھوڑوں نے گھاس چھوڑ کر ان پتھروں کو چاٹنا شروع کر دیا۔
جس پر تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ یہ سب نمک کی وجہ سے ہے۔ جس جگہ سے نمک کی دریافت ہوئی اس کو کھیوڑہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہم سب بشمول سیاستدانوں کے اس جگہ کا نمک کھایا ہوا ہے۔ سو نمک حلالی یہی ہے کہ اس ایریاکو اپ گریڈ کیا جائے۔ موٹروے سے اتر کر جو سڑک کان کی طرف جاتی اس کو دو رویہ کیا جائے۔
سیاحوں کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں۔ سیکیورٹی کے انتظام کو جدید اور مربوط بنایا جائے۔ کان کے اندر حفاظتی اقدامات مزید بہتر کئے جائیں۔ ایمرجنسی کی صورتحال میں ادھر کوئی ایسافعال ادارہ نظر نہیں آتا۔ سیاحوں سے ان کی جیبیں خالی نہ کروائی جائیں۔ بلکہ ایسا دوستانہ ماحول دیا جائے کہ ملک کے کونے کونے سے لوگ جائیں۔ اگر لاہور سے روزانہ کی بنیاد پر ریلوے کی طرف سے شٹل ٹرین چلائی جائے جو صبح جائے اور شام کو واپسی آئے تو بھی گہما گہمی میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
نمک سے بنے شاہکار بیچنے والوں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں اگر ان کو مناسب جگہ ایک ترتیب سے دےدی جائے اور ان کو ہینڈی کرافٹ کی اہمیت سے آگاہ کیا جائے تو ہم اچھا زرمبادلہ بھی کما سکتےہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہینڈی کرافٹ کی وسیع مارکیٹ موجود ہے۔
دمہ کے مریضوں کے لئے بھی کیمپ لگایا جاتا ہے، ایک تھیراپی کے ذریعے اس کا علاج بھی سننے کو ملتا ہے۔ اگر یہ کارآمد طریقہ علاج ہے تو ہم پوری دنیا کے مریضوں کو اپنے ہاں بلا سکتے ہیں۔ دنیا مارکیٹنگ بیس پر چل رہی ہے ہمیں بھی اپنی پروڈکٹ بیچنی چاہئے پر اس کے لئے فن آنا چاہئے۔
ہمیں اپنے ملک سے نمک حلالی کرنی چاہئے نہ کہ نمک حرامی۔ جو لوگ نون سے کچھ اور اخذ کرناچاہتے ان کی اپنی صوابدید پر ہے۔ ہم جو نون سے سمجھتے تھے وہ بتا دیا ہے۔
موجودہ حکومت کی مہنگائی پر کنٹرول نہ کرنے کی وجہ سے غریب کی آنکھ سے جو آنسو نکل رہےان کا ذائقہ بھی نمک جیسا ہے۔

