Manji Thale Dang
منجی تھلے ڈانگ
تحریک انصاف کے چئیرمین جناب عمران خان صاحب کا عوام میں ایک خاص تشخص بن چکا ہے۔ اوپر سے اعلی عدلیہ نے صادق اور امین کا سرٹیفکیٹ بھی دیا ہوا ہے۔ اور اگر ان کےسیاسی کیرئیرپر نظر دوڑائیں۔ یا مالی معاملات پر، لوگ ان پر اپنا اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ عمران خاں کے لئے پلس پوائنٹ ہے۔ رجیم چینج سے لیکر اب تک مخالفین نے ان کی کردار کشی کی انتہا کی ہوئی ہے۔
لیکن عوام نے ان سب حربوں پر کان نہیں دھرے۔ حالیہ الیکشن لمیشن کا فیصلہ جو توشہ خانہ کے اثاثے نہ دیکھانے پر ان کو ڈی سیٹ کیا ہے۔ ایک سوالیہ نشان چھوڑ گیا ہے۔ عمران خان صاحب کو ضرور اپنے اردگرد جو نورتن اکٹھے کئے ہوئے ہیں۔ جن کا کام بس آپ کی ذاتپر ہی رطب السان رہتے ہیں۔ سوچنا اور سمجھنا چاہئے کہ ان کو اس توشہ خانہ سے گفٹ لینے پراکسایا کس نے آپ کو تو پیسے دولت شہرت کی چاہ نہیں۔
بقول آپ کے یہ سب بہت پہلے مجھے مل چکا ہے۔ آپ کے ساتھ ویسا ہی کھیل کھیلا گیا، جیسا بے نظیر شہید کو گاڑی سے باہر نکلنے کا کہا گیا اور یہ ہمیشہ تیسری آنکھ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ اس سے ایک بات عیاں ہو گئی ہے کہ تیسری آنکھ کے کارندے ہر جگہ ہر جماعت میں موجود ہیں۔ ہر سیاسی جماعت اور خاص کر عمران خاں صاحب کو اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنے کی ضرورت۔
اور ان لوگوں سےمحتاط رہنے کی ضرورت، جو آپ کے لئے جماعت کے لئے مشکلات کا سبب بن رہے ہیں۔ موجودہ حالات نے بہت سوں کی آنکھیں کھول دی ہیں۔ کہ ہمیشہ ایک تیسری آنکھ یہ بساط کچھ عرصہ کے بعد بچھا لیتی ہے۔ اس میں قصور ہمارے اپنے سیاستدانوں کا ہے کہ وہ کچھ ضرور غلط کرتے اور پھر ان قوتوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے ہیں۔
میثاق جمہوریت ایک اچھا قدم تھا۔ اگر من و عن اس کی روح پر عمل ہو جاتا۔ پر حسرت ہی رہی اور وہ سبوتاژ ہو گیا۔ اب پھر قدرت تمام سیاسی پارٹیوں کو اس دوراہے پر لے آئی ہے۔ کہ یہ سب مل کر ایک نئےعمران یا میثاق جمہوریت پر اتفاق کر لیں۔ تا کہ تیسری آنکھ کی ریشہ دوانیوں سے محفوظ رہ سکیں۔ یہ ازل سے فارمولہ چلا آرہا کہ تقسیم کرو اور حکومت کرو۔
سپر پاور بھی یہی فارمولہ اپلائی کرتی ہے۔ حکومت کے اندر موجود تیسری ان دیکھی قوت بھی یہی فارمولہ استعمال کرتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کا آپس میں دست و گریباں ہونا، اسی کو تقویت فراہم کرتی ہے۔ عوام کی نظروں میں برےسیاستدان بنتے ہیں۔ تمام سیاسی لیڈران کو چاہئے کہ اپنے اندر چھپے میر جعفر میر صادق تلاش کریں۔ ایسے غلط کام نہ کریں، جس سے وہ گرفت میں آئیں۔
ملک کی تقدیر تبدیل کرنے میں سیاسی قائدین اہم رول ادا کر سکتے ہیں کہ الیکشن میں امیدواروں کا چناؤ پیسہ دیکھ کر نہیں، بلکہ ان کی دیانتداری اور قابلیت کی بنیاد پر دی جائے، اگر ادھر سے ہی ہم اپنی اینٹ صیح رکھ لیں تو عمارت اچھی کھڑی ہو جائے گی۔ اپنی اپنی اناؤں کے بت توڑیں متحد ہو جائیں، کب تک ایک دوسرے کو رگیدتے رہیں گے۔ اس طرح کرنےسے عوام کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھی تھی کہ دو بندوں کے آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئ اور ان کے ہاتھ میں کوکلا چھاپاکی والا رسہ دے دیا گیا کہ وہ اندازے سے ایک دوسرے کو مارے وہ بیچارے دونوں ہی مار کھاتے رہے، لیکن مارنے والی تیسری آنکھ کھلی تھی۔ خدارا سمجھ جائیں۔