Khof Ke Saaye
خوف کے سائے

دنیا کا کوئی بھی کھیل محض بازو کی طاقت کا نام نہیں، بلکہ دماغ اور حوصلے کا بھی کھیل ہوتا ہے۔ پاکستان کی کرکٹ ٹیم اپنے ازلی دشمن اور حریف بھارت کے خلاف ایشیا کپ کے سفر میں آگے بڑھی تو یہ بات واضح نظر آرہی تھی کہ کھلاڑی جسمانی نہیں بلکہ دماغی اور اعصابی طور پر زیادہ تھک گئے تھے۔ یہ شکست کا خوف جو ان کے دلوں جا گزیں ہو چکا تھا۔ اس میں بڑا ہاتھ عوامی توقعات اور میڈیا کے شور کا تھا۔
پاکستان کے کھلاڑی بھارت کے خلاف دو بار میچ ہارنے کے بعد نفسیاتی طور پر اعتماد کی چمک سے محروم ہو چکے تھے۔ جو کہ کسی بھی بڑے مقابلے میں سب سے زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ میدان میں غلط فیصلے غیر ضروری شارٹس اور بے جا گبھراہٹ اسی بات کا ثبوت تھے کہ ٹیم دماغی طور پر ہار مان چکی تھی۔
فائنل میچ میں پاکستان کے کھلاڑیوں کے چہرے اس امر کی غمازی کر رہے تھے کہ ان کے ذہنوں پر ایک دبیز پردہ ڈال دیا ہو۔ اس پردے کے پیچھے نہ اعتماد تھا نہ جرات اور نہ وہ عزم جو بڑے میچوں میں سب سے اہم ہوتا ہے۔ یہ بھی حقیقت جب دو ٹیمیں کھیلتی ہیں تو جیت ایک کے مقدر میں آتی ہے۔ پر فرق یہ ہوتا ہے کہ دنیا کی ہر بڑی ٹیم اپنے شکست کے بعد اپنا محاسبہ کرتی ہے اور اس شکست کے بعد وہ خود کو اعصابی طور پر مضبوط رکھتی ہے۔
دنیا کی کامیاب ٹیمیں اپنی جیت کا نصف حصہ فیلڈنگ کے معیار سے حاصل کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی ٹیم اس امتحان میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ شکست کی وجوہات تو بہت زیادہ ہیں۔ جس پر سیر حاصل لکھا جا سکتا ہے۔ ٹیم سیلیکشن پر سوالیہ نشان ہے؟ ٹیم مینجمنٹ لو لیول کی ہے۔ ایسے چہرے جو خود اپنے عروج پر ایک سطحی لیول کے تھے ان سے کیا توقع کی جاسکتی ہے، اقربا پروری نے پہلے قومی کھیل ہاکی پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اب کرکٹ کا جنازہ نکال دیا ہے۔ پاکستان کی ٹیم کو کیچ ڈراپ اور سست روی پر قابو پانا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی ٹیم کو یہ سمجھنا ہوگا کہ جیتنے کے لئے صرف بیٹ اور بال کافی نہیں اپنے نروز کو کنٹرول کرنا۔ ذہنی پختگی، اعتماد اور کامل یکسوئی بھی کھیل کا خاصہ ہوتے ہیں۔ ورنہ بڑے بڑے میچ جیتنے کے خواب بار بار ادھوریں رہ جائیں گے۔
یہ بہت ضروری ہے کہ کھلاڑیوں کی انفرادی نفسیاتی ٹریننگ ہونی چاہئے تا کہ وہ دباؤ میں بھی بہتر کارکردگی دیکھا سکیں۔ کھلاڑیوں کو چاہئے کہ شائقین اور میڈیا کے شور سے الگ ہو کر اپنے کھیل پر توجہ دیں۔ شکست پر تنقید فطری ہے مگر کھلاڑیوں کو سکھایا جائے کہ تنقید سے سیکھیں ٹوٹیں نہیں۔
پاکستان کے پاس ٹیلینٹ کی کمی نہیں کمی ہے تو صرف خلوص نیت ذہنی پختگی فٹنس اور اجتماعی حکمت عملی کی اگر ان پہلوؤں پر توجہ دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان بڑے ٹورنا منٹس میں دنیا کی سب سے مضبوط ٹیم بن کر نہ ابھرے۔
کرکٹ کا کھیل ہر پاکستانی کے دل کی دھڑکن کے طرح ہے۔ یہ کھیل ہمارے لئےخوشیوں کا چراغ بھی ہے اور غم کی گھڑی میں امید کی کرن بھی۔ ایشیا کپ کا فائنل صرف ایک میچ نہیں تھا بلکہ کروڑوں لوگوں کے خوابوں کی تعبیر اور سبز ہلالی پرچم کے وقار کا بھی معاملہ تھا۔
خوف کے سائے جہاں بھی منڈلاتے ہیں اپنے پیچھے ویرانیوں کی ایک لمبی داستان چھوڑ جاتے ہیں اور یہ سائے ابھی مزید لمبے ہو رہے ہیں۔ پتہ نہیں کامیابی کا سورج کب طلوع ہوگا اور کب یہ شکست کے خوف کے بت ریزہ ریزہ ہوں گے۔

