Fori Tibbi Imdad
فوری طبعی امداد

"جس نے ایک انسان کی جان بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی" یہ وہ بنیادی فلسفہ ہے جو اسلام ہمیں سکھاتا ہے۔ دس ستمبر کو فرسٹ ایڈ کا عالمی دن منایا گیا ہے۔ جو کہ ایک اچھی روایت ہے۔ اگر ہم اپنے ملک کی بات کریں اور جس طرح قدم قدم پر حادثات ہوتے ہیں۔ قیمتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ ڈاکٹر حضرات اور ون ون ٹو ٹو کے علاوہ شاید ہی کسی کو ایسا علم ہو کہ ایمرجنسی میں کیسے برتاؤ کرنا ہے۔
ہمارے ہاں جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہم سب کی پہلی کوشش یہ ہوتی کہ منہ میں پانی ڈالا جائے۔ جو کہ ایسے حالات میں بہت ہی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ مطلب یہ کہ ہماری قوم فرسٹ ایڈ کی اہمیت اور اس کے اثرات سے بہرہ ور نہیں۔ بہت سی جانیں بچائی جا سکتی ہیں جن کو دل کا دورہ پڑتا ہے۔ اس کے لئے ابتدائی اقدامات کیا ہونا چاہئے؟ ہماری ابتدائی ایجوکیشن سسٹم کا لازمی جزو ہونا چاہئے۔
کالج، یونیورسٹی لیول تک اس مضمون کو لازمی قرار دیا جائے اور اس کا عملی امتحان بھی لینا چاہئے۔ اور پاکستان کے ہر شہری کو فرسٹ ایڈ کی تربیت لازمی دینی چاہئے۔ دنیا ڈیجیٹیلائز ہو چکی ہے اور ہم عدالتوں سے یہ فیصلے کروا رہے ہیں کہ تھرمامیٹر، اسفیگمومینومیٹر بلڈ شوگر دیکھنے والا آلہ صرف ایم بی بی ایس ڈاکٹر کا استحقاق ہے۔ جب کہ فی زمانہ اب سب آن لائن مواد موجود ہے۔ یہ سب انسٹرومنٹ اب ہر گھر کی بنیادی ضروریات میں شامل ہیں۔ ان کا استعمال ہر طالب علم کو آنا چاہئے۔
پچھلے دنوں ایک ڈاکٹر صاحب کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ڈاکٹر صاحب اور ان کی بیوی نے ایک ڈوبتے بچے کی جان بچائی۔ سب نے اس کی ستائش کی۔ ایسے روزانہ پتہ نہیں کتنے واقعات ہوتے ہوں گے لیکن سبھی اس بچی کی طرح خوش قسمت نہی ہوتے کہ ان کو بھی فرسٹ طبعی امداد مل سکے۔ ہم برسات کے موسم میں اکثر دیکھتے کھمبے کے ساتھ کرنٹ لگنے سے بہت سی اموات ہو جاتی ہیں ہم ابھی تک اس کے بچاؤ اور اس موقع پر کیا حفاظتی تدبیر کرنی چاہئے اپنی قوم کو شعور نہیں دے پائے۔
آج بھی کرنٹ لگنے کے بعد ریت یا زمین کے اندر دبانے کا سلسلہ جاری ہے اور یہ بھی حقیقت ہے اور تلخ تجربہ ہے کہ گورنمنٹ کے ہسپتال میں ایمرجینسیز میں موجود ڈاکٹر زیادہ تر ہاؤس جاب کرنے والے ہوتے۔ بہت ضروری ہے کہ اچھا تجربہ کار جنرل فزیشن چوبیس گھنٹے آن ڈیوٹی موجود ہونا چاہئے۔ سابقہ حکومت نے ہیلی کاپٹر سروس شروع کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ بھی ایک مستحسن قدم ہے جتنی جلد ممکن ہو اس پر عمل درآمد کرنا چاہئے۔ عمان میں یہ سروس اسی کی دہائی میں بھی موجود تھی اور ہم ابھی تک سوچ بچار میں ہیں۔
کووالی فائیڈ ڈسپنسر حضرات جو گورنمنٹ ہسپتالز میں ڈاکٹر کے زیر نگرانی کام کرتے ہیں۔ ان کو بنیادی طبی علاج (فرسٹ ایڈ) کی اجازت ہونی چاہئے۔ کیونکہ دیہات میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کمی کو ڈسپنسر حضرات احسن طریقے سے نبھا سکتے ہیں۔ البتہ سرجری وغیرہ کی اجازت بالکل بھی نہیں ہونی چاہئے۔
اگر ہمارے ینگ ڈاکٹر صاحبان معترض ہیں تو اس کا حل ایسے ممکن ہے کہ جو ڈسپنسر جس ڈاکٹر کے زیر نگرانی کام کر رہا ہو وہ آن لائن اسی ڈاکٹر کے زیر نگرانی ایمرجنسی کی صورت میں اپنا رول ادا کرے۔ ویسے آنے والا وقت اب آنلائن پریکٹس کا ہے۔ بہت سی ایپس اور پیج ایسے موجود جس میں آپ آن لائن کنسلٹینسی کر سکتے ہیں۔ اور یہی حقیقت ہے۔ اس تمہید کے پیچھے انسانی جان کو بچانا مقصود ہے۔
ایک اور المیہ بھی ہمارے ملک میں ہے وہ ہے آبادی میں اضافہ ہمیں اپنے بچوں کو اس کے مضمرات سے آگاہی دینا ہو گی۔ جب تک ہم اپنی قوم کو باشعور نہیں بنائیں گے۔ اموات اور آبادی کا اژداہام ایسے ہی جاری و ساری رہے گا۔ ہمیں ایسے عالمی دن صرف ایک اشتہار دے کر نہیں منانے چاہئے بلکہ اس کے لئے پوری تندہی اور ایمان داری سے اپنا حق ادا کرنا چاہئے۔ تبھی ہم دنیا کے مقابلے کی صف میں کھڑے ہو سکتے ہیں۔

