Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Ijaz Ahmad
  4. Darakht Lagao, Siasat Chamkao

Darakht Lagao, Siasat Chamkao

درخت لگاؤ، سیاست چمکاؤ

ہمارے ہاں ہر سال شجر کاری مہم چلائی جاتی ہے۔ خوب تصویریں اور نمود و نمائش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لیکن عملی طور پر جب ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو درختوں کی کمی واضح نظر آتی ہے۔ اصولی طور پر جتنے درخت شجر کاری مہم میں لگانے کا دعوی کیا جاتا ہے۔ اس کا ایک فیصد بھی اب تک شمار کیا جائے تو تب بھی ہماری سرزمین پاکستان پر ہر قدم پر درخت اگا ہوا نظر آنا چاہئے تھا۔ لیکن حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے۔

زیادہ رونا اس بات پر آتا ہے کہ ہم زرعی یونیورسٹی کو ایشیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی کا درجہ بھی دیتے ہیں۔ اس ناکامی کی سب سے جو بڑی وجہ ہے وہ ہماری اس شعبے میں عدم دلچسپی ہے۔ درخت لگانے اور اگانے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہم درخت تو لگاتے ہیں اپنی سیاست کو چمکانے کے لئے۔ فوٹو سیشن کے لئے لیکن اس کی پرورش کیسے کرنی ہے اس درخت کو جوان کیسے کرنا ہے کس جگہ پر کون سا پودا لگانا ہے اور وہ زمین کس پودے کے لئے موزوں ہے۔ ہم اندھا دھند (امریکن درخت سفیدہ کے نام سے موسوم) بغیر پلاننگ کے لگاتے گئے کسی نے اس کے مضمرات پر غور نہیں کیا آج جب پانی کا لیول کم ہوا تو عقدہ کھلا کہ یہ پانی بہت زیادہ جذب کرتا ہے زمین کو بنجر بناتا ہے جس نے اس پودے کا لگانے کی ترغیب دی کیا اس کی پکڑ کی گئی؟

آج بھی ناسمجھی میں ایسی جگہوں پر لگایا جا رہا جہاں اس پودے کو بلکل بھی نہیں ہونا چاہئے ہاں البتہ سیم تھور کی جگہ پر کامیاب اور موزوں ہے۔ ہمیں ان سب معلومات تک رسائی اس پر کوئی میکانزم موجود نہیں۔ انگریز ہمیں اس وقت ایک نظام دے گئے تھے کہ ہر سرکاری زمین پر موجود درخت کو ایک نمبر الاٹ کیا جاتا تھا۔ مجال ہے کوئی ایک ٹہنی بھی بغیر اجازت کے کوئی توڑ سکتا تھا۔ ٹمبر مافیا نے اس نظام کو جوتی کی نوک پر رکھا اور آج بھی وہ مافیا پوری طمطراق کے ساتھ موجود ہے۔ شہروں میں ترقی کے نام پر درختوں کے جو سرقلم کئے گئے اور بے دریغ کئے گئے۔

سیاسی اشرافیہ تو ایک طرف ہماری بیوروکریسی میں موجود بابو وہ بھی درختوں کی اہمیت، سبزوں اور پھولوں کی خوبصورتی سے نابلد ہیں۔ عام زندگی میں ان کے روئیے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ دل اور دماغ سے مکمل طور پر ایک ریگستان کی مانند ہیں۔ جب تک ہم اپنے بچوں کے دماغوں میں یہ بات راسخ نہیں کر دیتے کہ درخت قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں۔ ان کا وجود قدرت کے کینوس پر موجود ہونا لازم ہے اور درخت لگانا ایک صدقہ جاریہ ہے۔ بحثیت پاکستانی ہر بندہ اپنے اوپر یہ لازم کر لے کہ گھر کے باہر یا جہاں بھی وہ درخت لگا سکتا ہے لگائے گا اور اس کی پوری نشوونما بھی کرے گا۔

اس طرح بچوں کو عملی کام پرائمری کی سطح سے شروع کروایا جائے جو میٹرک تک پورا ہو یعنی ہر طالب علم ایک اپنے نام اور شعبہ تعلیم سے دیئےگئے انفرادی کوڈ سے ایک درخت کی نشوونما کرے۔ میٹرک کے رزلٹ میں اس کو اضافی مارکس اور حوصلہ افزائی پر سرٹیفیکیٹ سے نوازا جائے۔

زرعی یونیورسٹی لوگوں تک یہ معلومات پہنچائے کہ کس جگہ پر کون سا پودا بہتر ہے وہ پھل والا اور سایہ دار دونوں ہو سکتے ہیں اور ان تمام درختوں کو ایک ایپ میں محفوظ کیا جائے جس میں درخت کی جیوگرافیکل پوزیشن اور سٹیٹس ایک کوڈ میں محفوظ ہو۔

اب تو جدید مشینری سے بڑے بڑے درخت اکھاڑ کر دوسری جگہ لگائے جا سکتے ہیں۔ ہمیں بھی درخت کا قلع قمع کرنے کی بجائے اس کو کسی متبادل جگہ یا اس کے بدل میں اتنے درخت اگانے پر قانون سازی کرنی چاہئے اور انتظامیہ کو اس پر سختی سے پابند کیا جائے۔

جو بھی سڑک نئی بن رہی ہو یا اس پر مرمت ہو رہی ہو دونوں اطراف درخت لگانا لازم کر دیا جائے۔

ہمارا نہری نظام بہت وسیع ان کے کناروں پر پھولوں پھلوں فرنیچر اور عمارتی ضرورت کے لئے شجر کاری کے وسیع مواقع موجود ہیں۔ بیروزگار زرعی یونیورسٹی گریجوایٹ کو ایک مخصوص زمین پٹے پر دے کر بھی اس صنعت کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔

صرف ریلوے ایک ماسٹر پلان کے ذریعے اپنی ریلوے پٹڑی کے ساتھ موجود زمین پر درخت اگا کر چند سالوں میں اس خسارے سے نکل سکتا ہے آزمائش شرط ہے۔

شجر کاری مہم کی ناکامی ہماری غیر سنجیدگی اور لاپرواہی کا نتیجہ ہے۔ لیکن جس طرح سے گرمی کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے بارشیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ سموگ اور فوک کے مسائل پھن پھیلائے کھڑے ہیں۔ ہمیں سیاست اور شجر کاری مہم میں تفریق کرنا ہوگی۔ شجر کاری پر سیاست بہت ہوگئی ہے۔ کمروں میں بیٹھ کے فوٹوسیشن کروا کے مال روڑ پر شجر کاری بینر لگوا کر ہم کبھی بھی سرخرو نہیں ہو سکتے۔ بارشوں کے سسٹم کے لئے درخت ہمارے لئے اب زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ پانی کی کمی مستقبل کے لئے ایک چیلنج بننے جا رہی ہے۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر ہمیں ان سب مسائل کا کماحقہ احساس ہونا چاہئے اور سب کو مل کر شجر کاری مہم میں حصہ ڈالنا چاہئے پر یہ فرق ضرور ملحوظ خاطر رکھیں کہ "درخت لگانے اور اگانے میں کیا فرق ہے"۔ جان کے جیو۔۔

21 مارچ کو شجر کاری کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ ہمیں زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی طور پر دنیا کو بتا دینا چاہئے کہ ہم دنیا کے ساتھ قدم بقدم چلنے کے لئے تیار ہیں اور اس عزم کے ساتھ کہ " کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے"۔۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz