Daire Ka Safar
دائرے کا سفر

کسی منزل پر پہنچنا ہو یا کسی مقصد کا حصول اگر سفر دائرے کے اندر ہی کیا جائے تو کبھی بھی انسان اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتا۔ البتہ خود کو دھوکہ یا تھکا ضرور سکتا ہے۔ اگر ہم اپنی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو زیادہ تر ہمیں محسوس ہوگا کہ ہم ابھی تک ایک دائرے کے اندر ہی گھوم رہے ہیں۔ جب کہ منزل ابھی دور ہے۔
جیسا کہ آپ کہ علم میں ہے سیلاب نے ملک میں تباہی پھیر کے رکھ دی ہے۔ خاص کر دریا راوی جو ہمیشہ سے نقصان کرتا رہا ہے۔ اگر ہم 1988کے سیلاب کی بات کریں تب بھی وہی مقامات متاثر ہوئے تھے جو آج کے سیلاب میں متاثر ہوئے ہیں۔ 37 سال کا سفر لیکن رزلٹ ایک جیسا؟
ہمیشہ ہیڈ سندھنائی جہاں پر دریا قدرے تنگ ہو جاتا ہے۔ پانی کے گزرنے کی گنجائش کم ہے۔ اس کو بچانے کے لئے ہمیشہ کٹ لگانا پڑتا ہے۔ اس کٹ کی تباہی ہمیشہ وہاں کے انتہائی غریب چھوٹا زمین دار تعلیم سے نا بلد کے نصیب میں ہی آتی ہے۔ یہ تین اضلاع کا سنگم ہے۔ تحصیل شورکوٹ، تحصیل پیر محل، تحصیل کبیر والہ ان کو ایک ریلوے لائن تقسیم کرتی ہے۔ اس علاقے کی بد قسمتی رہی ہے کہ تینوں تحصیلوں کے منتخب نمائندے علاقے کے وڈیرے یا گدی نشین منتخب ہوتے آئے ہیں۔ عام عوام کی رسائی ان تک نہ تھی۔ ہمیشہ روائتی طریقہ کار استعمال کرکے یعنی پولیس اور پٹواری کلچر کے ذریعے شناختی کارڈ جمع کرکے ووٹ کا حصول بنا لیا جاتا رہا ہے۔ ان علاقوں میں ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تعلیم کی شرح بہت کم ہے۔ ان علاقوں سے کوئی بھی بیورو کریسی، فوج کے کسی اعلی عہدہ، عدلیہ، یا کسی بھی اسمبلی کا ممبر نہیں ہے۔ یہی وجہ کہ ان علاقوں کی عوام کے ساتھ سوتیلے پن کا سلوک کیا جاتا ہے۔
انگریز سڑک یا ریلوے ٹریک بناتے وقت اس علاقے کی سٹڈی کے بعد ضرورت کے مطابق پانی کے قدرتی راستوں میں رکاوٹ کھڑی نہیں کرتا تھا۔ بلکہ پلوں کے ذریعے اور الگ سے زمین میں ایسی گزر گاہیں تشکیل دیتا تھا کہ سیلاب آنے کی صورت میں نقصان کم سے کم ہو۔ انگریز کی باقیات آج بھی کہیں کہیں موجود جو سیلاب میں کار آمد رہتی ہیں۔ ہمارے بابوؤں نے موٹروے بناتے وقت ان پانی کی قدرتی گزر گاہوں کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ ریلوے لائن کے نیچے سے موجود قدرتی پانی کی گزر گاہوں کے سامنے سے موٹر وے گزار دی لیکن پانی گزرنے کے لئے راستہ نہیں دیا یہ جھول متعلقہ علاقے کے لئے جانی و مالی نقصان کا باعث بن رہے ہیں۔ اسی طرح ہمیشہ سیلاب میں ریلوے کے ٹریک کو بھی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ یہاں سے ریلوے ٹریک کا نقصان ہوتا وہاں سے اس ٹریک کو ڈاؤن یا اس کے نیچے پل بنا دیا جائےکہ پانی با آسانی پاس ہو جائے۔
پانی کے بہاؤ میں جتنی کم رکاوٹ آئے گی اتنا ہی نقصان کم ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔
آج کل ایک تھیوری یہ سننے پڑھنے کو مل رہی کہ ڈیم سیلاب نہیں روک سکتے۔ ہمیں تو یہی آج تک پڑھایا جاتا رہا کہ ڈیم اضافی پانی کو ذخیرہ کرنے کا موثر ذریعہ ہوتے ہیں۔ مہربانی کرکے نصاب کو بھی تبدیل کر دیں۔ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔۔
تین اضلاع کے سنگم پر واقع یہ علاقہ جو ہر بار بند توڑنے پر پانی کے زیر عتاب آتا ہے کیوں نہ اس تمام علاقے کو دونوں اطراف کچی مٹی سے ایک ڈیم تعمیر کر دیا جائے تا کہ اضافی پانی کو اس میں جمع کر لیا جائے۔ اس ڈیم سے نہر نکال کے چولستان کے علاقے کو سیراب کرنے کا پلان تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ اس کے کناروں کے دونوں اطراف پختہ روڈ بنا کر پانی کے پارک فش فارم سوئمنگ پول کشتی رانی کے ملکی یا عالمی سطح کے مقابلے کروانے کے لئے بھی یہ جگہ مختص کی جا سکتی ہے۔ ان علاقوں میں جو غربت معاشی تنگی تعلیم کی کمی کے رحجانات دیکھنے کو مل رہےوہ کافی حد تک کم ہو جائیں گے۔
اگر اس سیلابی صورتحال اور اس کے نقصانات کے بعد بھی کوئی جامع حکمت عملی نظر نہ آئی تو عوام یہ سوچنے سمجھنے میں حق بجانب ہے کہ یہ سارا کھیل بیرونی امداد اور اپنی جیبیں بھرنے کے لئے ہی رچایا جاتا ہے اور ہم عوام اسی گول دائرے میں سفر کرتے کرتے تمام ہو جائیں گے۔

