Chand Haqaiq
چند حقائق

انسان کی زندگی میں انسان کو مسائل سے واسطہ پڑتا ہے اور انسان ساری زندگی ان مسائل کا تدارک کرنے میں گزار دیتا ہے۔ کچھ مسائل تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتے ہیں۔ کچھ سے آپ پیچھا چھڑانا بھی چاہیں تو رہائی ممکن نہیں انسان خود کو بے بس بے آسرا سا محسوس کرتا ہے۔ انسان جتنا بڑے قد کاٹھ کا ہوتا اس کے مسائل بھی اسی حساب سے بڑے ہوتے۔ روز مرہ زندگی میں بظاہر ان مسائل کے کوئی وقعت نہیں پر ان مسائل پر غورو فکر کرنے سے ہمارے معاشرے کی بیمار ذہنی سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔
مثلا ہم بازار سے کتنا بھی اچھا فرش کی صفائی کرنے والا وائیپر خرید لائیں۔ اپنے تئیں چاہے وہ کتنا بھی قیمتی ہو ایک جھول ہمیشہ آپ کو نظر آئے گی۔ کہ وہ ہمیشہ جوڑ سے ٹوٹ جائے گا۔ ہم آج تک اس کا حل نہیں نکال سکے۔ یا پھر یوں کہہ لیں کہ ہم اس کا حل نہیں نکالنا چاہتے کہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔
اسی طرح ہم سڑکیں تو بنا رہے ہیں لیکن ہماری بدنیتی، نا اہلی یا نکمہ پن ہمیشہ نمایاں ہوتا ہے کہ ہم سڑکیں ہموار نہیں بنا سکتے۔ سڑک کا لیول کچھ اور ہوگا سیوریج کا ڈھکن جسم پر بنے اس بد نما گومڑ کی طرح ہمیشہ نظر آئے گا اور وہ نظر وٹو آپ کو اپنا احساس دلاتا رہے گا ہمیشہ بارش کا پانی اس کے ارد گرد تالاب کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
پنڈی بھٹیاں سے فیصل آباد موٹر وے، یا پھر لاہور سے ملتان موٹر وے پر سفر کرکے دیکھیں ہر پل کو کراس کرتے ہوئے آپ کو ایسا محسوس ہوگا جیسے کسی نے جھولا دیا ہو مطلب سفر کے ساتھ جھولے فری ملیں گے۔ پر یہ ہولناک حادثے کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ ہمارے انجنئیر یا ہماری انجنئیرنگ تعلیم کیا اس قابل نہیں کہ چند اچھے انجنئیر جو عالمی معیار کی سڑک بنا سکیں؟
سڑک پر اکثر مرمت کا کام دیکھ کر ان کے اوزار دیکھ کر مونجو دھاڑو کے زمانے میں رہنے کا احساس جا گزیں رہتا ہے۔
ہم اپنے واش روم کی ٹونٹی یا فلش کی ٹینکی کتنی بھی مہنگی اچھی خرید لیں کچھ ہی عرصے کے بعد اس کی لیکج شروع ہو جائے گی آپ جو مرضی جگاڑ لگا لیں نتیجہ صفر کیا ہم کوئی اس میں جدت یا تبدیلی نہیں لا سکتے؟ یا پھر ہم جان بوجھ کہ ایسا خلا رکھتے ہیں۔
کتنے بھی اچھے انجنئیر کی خدمات لے لیں مستری جب واش روم کی سیوریج بنائے گا تو لازمی تھوڑا سا فرش نیچے رکھے گا اور پانی لازمی رکے گا۔ جب آپ اس کو سمجھا رہے ہو گے تو وہ آپ کو ایسا مطمئین کرے گا کہ پورے پاکستان میں اس سے اچھا کاریگر چراغ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گا۔ پر سزا بھگتنی ہمیشہ اس گھر کے باسیوں کو پڑتی ہے۔
شیشہ سازی کی صنعت کو لے لیں ہم آج تک اچھی پالش میں شیشہ نہیں بنا پائے ہمیشہ دوسرے ممالک کا شیشہ بیچ رہے ہیں خود میں اس پر بہتری لانے کی کوشش ہی نہیں کر رہے۔
ایک محاورہ اکثر بولا جاتا کہ ہم ایٹمی طاقت ضرور ہیں پر سوئی تک بنانے کہ قابل نہیں اب یہ بات کہاں تک صداقت واللہ عالم۔۔
بجلی کی ترسیل کے نظام پر نظر دوڑائیں تو آج بھی اسی لگے بندھے اصولوں پر چل رہے ہیں مجال ہے کہ ہم اس میں کچھ جدت لے آئیں۔ جا بجا تاروں کا بے ہنگم استعمال میٹروں کی بھر مار سب ڈنگ ٹپاؤ پر کام چل رہا ملک میں نظم و نسق دیکھنی ہو تو کہتے کہ اس ملک کی ٹریفک سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں میں کہتا ہوں ہمارے ملک کے نظم و نسق کا اندازہ لگانا ہو تو بجلی کے ترسیلی نظام کو دیکھ لیں بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔
گھر میں کام کے لئے کسی بھی کاریگر کو بلا لیں کتنا بھی اس سے کہہ دیں کہ کام صفائی سے کرنا ہے مجال ہے کہ وہ اس بات پر کان دھرے موقع پر زبان سے ڈھیروں تسلیاں دے گا پر کرے گا وہی کہ چاروں طرف اپنی نشانیاں چھوڑ کے جائے گا۔ سوشل میڈیا پر جب اغیار کے کاریگروں کا کام ان کے آلات دیکھتے ہیں تو ایک ترتیب مضبوطی اور خوبصورتی نظر آئے گی چاہے وہ گٹر کی صفائی کرنے والا ہی کیوں نہ ہو۔ ہم اپنے لوگوں کو وہ آلات اور تربیت کیوں نہیں دے سکتے؟
سب ممکن ہے اگر ان ایشوز کو مسائل کی لسٹ میں شامل کیا جائے اور سنجیدگی سے اس پر غوروفکر ہو۔ اس طرح کے چھوٹے بڑے بہت حقائق ہیں۔ پر تنگی داماں کا احساس۔۔

