Ba Adab Ba Naseeb
با ادب با نصیب

پانچ اکتوبر کو اساتذہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کی اٹھان ان اساتذہ اکرام کی مرہون منت ہوتی ہے۔ ان کی اہمیت اور قدر و منزلت کا ادراک ہی انسان کو شعور کی منزلیں طے کرواتا ہے۔ انسان کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے۔ گو کہ انسان کے لئے ماں ایک طرح سے پہلے استاد کے درجہ پر فائز ہو جاتی ہے۔ پھر جیسے جیسے انسان شعور کی منازل طے کرتا جاتا اس کو اساتذہ کا ساتھ ملتا جاتا ہے۔
ویسے تو کہا جاتا ہے کہ زمانہ خود ایک بہت بڑا استاد ہے۔ اور یہ باتبادی النظر میں سچ بھی ہے۔ ماں باپ کے بعد استاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا جاتا ہے۔ استاد اس پگڈنڈی کی طرح ہوتا جو رہتی تو اپنی جگہ پر ہے پر لوگ اس پگڈنڈی کے ساتھ چل کر منزل مقصود پر پہنچ جاتے ہیں۔ دنیا میں جتنے بھی کامیاب لوگ ہیں وہ سب اس بات سے انکاری نہی ہوتے بلکہ فخریہ اپنے راہبر اپنے اساتذہ کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں۔
علامہ اقبالؒ کا اپنے لئے سر کا خطاب لینے سے پہلے اپنے استاد محترم کے لئے شمس العلماء کا خطاب دلانا اس امر کی واضح دلیل ہے۔ یقیناََ انسان جتنی مرضی بلندی پر چلا جائے اپنے اساتذہ کی شفقت ان کی کاوشوں کو نہیں بھلا سکتا۔ اساتذہ کی قدر و منزلت کو مغربی ممالک نے اوج ثریا تک پہنچایا آج بھی استاد کو معاشرے میں وہاں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ حکومتی سطح پر بھی اساتذہ کے لئے آسانیاں پیدا کی جاتی ہیں۔
اشفاق احمد مرحوم صاحب اکثر اس واقعہ کو سناتے تھے کہ کیسے ان کا ٹریفک کا چالان ہوا اور کیسے جج نے عزت اور توقیر بخشی۔ زندہ اور سمجھدار قومیں اپنے محسنوں کو ایسے ہی قدر و منزلت سے نوازتی ہیں۔ اگر ہم اپنے معاشرے کا موازنہ کریں تو ہم اس دوڑ میں بہت پیچھے ہیں۔ ہم نے حکومتی سطح پر بھی اور انفرادی سطح پر بھی اپنے اساتذہ کو وہ جائز مقام نہیں دیا جو کہ ان کا حق تھا۔
ہمارے معاشرے کی اخلاقی پستی کی بڑی وجہ اس درس تدریس کے شعبے کو نظر انداز کیا جانا ہے۔ رہتی سہتی کسر پرائیویٹ ایجوکیشن نے پوری کر دی بچے کے دماغ میں یہ بات راسخ کر دی گئی کہ تم تو پیسے دیکر پڑھ رہے ہو۔ اوپر سے مستزاد یہ کہ "مار نہیں پیار" اس سلوگن نے بھی بچوں کے دلوں سے استاد محترم کا رہتا سہتا دبدبہ ختم کر دیا۔ نتیجہ اب ہم جو نسل تیار کر رہے وہ اخلاقیات سے عاری ہے۔
جو اسی قبیل سے تیار ہو کر استاد کے درجہ پر فائز ہو رہے وہ مزید نسل کی تباہی کا سبب بن رہے۔ کیونکہ جو ہمارے دور کے استاد تھے۔ وہ کتاب کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت، نظم و ضبط، بھی سکھاتے تھے۔ فی زمانہ پیسے کی ہوس نے اساتذہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس میں حکومت کا قصور ہے کہ انہوں نے اساتذہ کی مالی، معاشی حالات کا صیح ادراک نہیں کیا۔ اساتذہ کے لئے وہ چھلنی نہیں بنائی گئی جس سے گزر کر جو صیح استاد کے مقام پر فائز ہو سکے۔
جب تک ہم اچھا بیج نہیں بنائیں گے تب تک ہم کیسے ایک اچھی فصل کی امید کر سکتے ہیں۔ یہی وہ نقطہ ہے اگر اس پر ہم غور و خوض نہیں کرتے ہم ایک آئیڈیل معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتے نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ ہمیں اپنی نسل کو اچھے معیاری اساتذہ دینے ہوں گے تبھی ہم اپنے معاشرے میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے اساتذہ کو عزت، توقیر اور ان کا جائز مقام ان کی معاشی پریشانیوں کا مداوا کرنا ہو گا۔ اگر آج سے ہم اس لائن پر کام کریں تب کم از کم بیس سال کے بعد ہم اس کے ثمرات سے بہرہ مند ہوں گے۔
آج جب یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو پہلی کلاس سے لیکر اب تک جتنے بھی اساتذہ میری زندگی میں آئے سب کے چہرے میری نظر سے فلم کے سین کی طرح گزر رہے ہیں۔ کچھ اساتذہ اس دارفانی سے کوچ کر چکے ہیں۔ دل سے ان کے لئے دعا ہے اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے ان کے درجات بلند کرے، امین۔ جو اساتذہ حیات ہیں اللہ پاک ان کو لمبی صحت تندرستی والی زندگی خوشیوں بھری دے امین۔
ہمارے اساتذہ اکثر ایک جملہ بولا کرتے تھے " کہ با ادب با نصیب۔ بے ادب بے نصیب" اس وقت اس جملے کی اتنی سمجھ نہیں آتی تھی۔ حوادث دنیا نے اس جملے کی معنویت سے روشناس کرایا تب سمجھ آیا کہ اگر دنیا میں کامیاب ہونا چاہتے ہو اپنے ماں باپ اور اساتذہ کا دل سے ادب کرو کامیاب ہو جاؤ گے۔ یہ وہ کیمیائی نسخہ ہے جو کوئی بھی اس پر عمل کرے گا یقیناََ سیراب ہو گا۔ بقول علامہ اقبالؒ
"مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے"۔

