Khud Ehtesabi Aik Behtareen Amal Hai
خود احتسابی ایک بہترین عمل ہے
"خود احتسابی ایک بہترین عمل ہے" اس میں کوئی شک نہیں ہے بلکہ میرے نظر میں خود احتسابی تو ہم سب پر فرض هے کہ اپنا احتساب خود کرے اس سے پہلے کہ کوئی اور ہمارا احتساب کرے۔
اگر ہم سب سے پہلے احتساب کا عمل اپنے آپ سے شروع کرے تو ہم اپنے انفرادی زندگی میں سی مثبت تبدیلیاں دیکھیں گے اور آج کل یہ ہمارے معاشرے کی ایک بنیادی ضرورت بھی هے که ہم اپنا احتساب خود کرے۔ اس که بجائے که دوسروں کو یہ موقع ملے کہ وہ ہمارا احتساب کرے۔ جوکہ پھر ہمارے لیے بہت تکلیف دہ عمل ہوگا اور ہمیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑےگا۔ آج کل یہ ہماری بدقسمتی ہے که ہم اپنا احتساب بھول چکے ہیں اور دوسروں کا احتساب کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنا قیمتی وقت دوسروں کا احتساب کرنے میں ضایع کررہے ہیں۔ اگر ہم اپنا احتساب کرنا شروع کرے تو ہمارا یہ معاشرہ گل گلزار بن جائے گا اور ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے جو کہ آج کل ہمیں درپیش ہیں اور جس کی وجہ ہم بے شمار تکالیف کا سامنا کررہے ہیں اور جن سے نکلنا اس وقت ہمارے لیے مشکل کیا بلکہ ناممکن ہو چکا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپنا احتساب کہاں سے شروع کرے؟ تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اگر کوی اپنا احتساب کرنا چاہے۔ اصل میں اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرنا ہے۔ کیونکہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ کہ ہم اپنا احتساب کرنا گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں اور ہمیشہ اپنے آپ کو ہر گناہ سے بالاتر گردانتے ہیں۔ کہ کیا ہم میں بھی کوئی برائی ہوسکتی ہیں؟ کیا ہم بھی کہیں مجرم تو نہیں ہیں؟ اس معاشرے کو تباہی کے طرف لے جانے میں؟ جب کبھی بھی ہم نے یہ مقبول کرلیا کہ ہم سے بھی غلطی ہو سکتی ہیں اور ہماری ایک چھوٹی سی غلطی سے بہت کچھ بگڑ سکتا ہے اور اس طرح کسی بھی خرابی کے لئے خود کو ذمہ دار ٹھہرا کر اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرے تو ہمارے بہت سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔
جناب عالی! ایک اور سوال یہاں پر یہ پیدا ہوتا ہے که میں اپنا احتساب کرنا چاہتا ہوں مگر کس طرح کروں؟ جناب عالی یہ تو کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اصل کام تو اپنا خود کا احتساب کرنا ہے۔ خود کو احتساب کے لئے تیار کرنا ہے۔ جب اپنے آپ کو تیار کیا تب کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔
اسکا حل میں آپ کو بتاتا ہوں آپکو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ صرف سنیں اور عمل کرے پھر دیکھیں کہ کیا ہوتا ہے اور آپ کے زندگی میں کتنی تبدیلی آتی ہے؟ اور ساتھ ساتھ یہ معاشرہ کس طرح تبدیل ہوتا ہے؟ خوشیوں اور رنگینیوں کا گہوارہ بنتا ہے۔
یہاں پر ایک طالب علم کی مثال لیتے ہیں۔ ایک طالبعلم اپنا احتساب باآسانی کر سکتا ہے اگر کرنا چاہے تو یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ بلکہ بہت ہی آسان اور سادہ ہے۔ بس صرف آغاز کرنے کی دیر ہے۔ اس سے ایک بار پھر ہمارے دوستوں کے ذہین میں یہ سوال آیا ہوگا کہ آخر کس طرح؟ تو ان کے لئے میرا جواب جوکہ انتہائی سادہ سا ہے اور وہ یہ ہے۔ نمبر ایک کہ جب کبھی بھی آپ کو سکول، کالج، یونیورسٹی یا مدرسہ عرض جہاں کہیں بھی آپ پڑھتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر آپ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو آپ کی توجہ سب سے پہلے اپنے آپ پر جانی چاہیے کہ مجھ سے ایسی کونسی غلطی ہوئی کہ مجھے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
مثال کے طور پر اگر آپ خدانخواستہ فیل ہی ہوگئے تو سب سے پہلے اپنے آپ پر غور کرو اور اپنا احتساب کرو کہ مجھ سے کونسی کمی رہ گئی؟ کہ میں ناکام رہا۔ کیا مجھے جس طرح پڑھنا چاہیے تھا میں نے اس طرح پڑھنے کی کوشش کی؟ کیا میں نے اساتذہ کے مشوروں پر عمل کیا جو انہوں نے ہمیں امتحان کے بارے میں بتائیں تھے۔
جیسے کہ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہم میں سے ہر کوئی اپنی زندگی کا قیمتی وقت اس پر بے دریغ ضائع کر رہا ہے اور ہمیں ہمارے اصل کام سے دور کردیا ہے۔ کیا اس بارے میں ہم نے سوچا ہے؟ کہ اس میڈیا کے بے دریغ استعمال نے ہمارے قیمتی مطالعہ کا کتنا وقت ضائع کیا؟ اگر ہم ان سوالات کا جواب سچے من سے تلاش کرے تو ہمیں اپنے اندر کوئی نہ کوئی خامی ضرور نظر آجائے گی۔ جوکہ ہماری ناکامی کے لئے کافی ہوگی۔ اور جس کا ہمارے ناکامی میں اہم کردار ہوگا۔ اور جب کبھی بھی ہمیں اپنی ناکامی نظر آئے تو اس کو چھپانے اور ناکامی کے لئے دوسروں کو ذمہ دار ٹھکرانے کی بجائے اپنے خامی جس کی وجہ سے میری ناکامی وجود میں آئی ہے دروست کرنے کی ضرورت ہے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اسکا اشد فقدان ہے۔ اور کوئی بھی طالب علم اپنے ناکامی کا ذمہ دار اپنے آپ کو ٹھکرانے کا سوچنا بھی گہوارہ نہیں کرتا ہے۔ اور اپنے سارے ناکامی کا ذمہ دار اپنے اساتذہ، سکول، یونیورسٹی، اور ساتھ ساتھ اپنے والدین کو بھی ٹھہراتے ہیں۔ کہ جناب میرے اساتذہ میرے ساتھ ضد کرتے ہے۔ اور وہ مجھے ناکام دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن میرے خیال سے ایسا سوچنا درست نہیں ہے۔ کہ ایک استاد اپنے شاگرد کے ناکام ہونے پر خوش ہوجائیں۔ بلکہ اچھا استاد اپنے شاگرد کی کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھتا ہے۔ بلکہ ایک اچھے استاد کو تو اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے۔
ہاں اس سے ہم انکار نہیں کرتے ہیں کہ سارے بالکل ایسا نہیں کرتے ہیں۔ ضرور بدنیت اساتذہ موجود ہیں۔ ہمارے معاشرے میں مگر آٹے میں نمک کے برابر۔ مگر ہم تو اپنی ناکامی کا تمام ملبہ اساتذہ پر ڈال دیتے ہیں۔ جوکہ بالکل غلط ہے۔ بلکہ ہمیں خود بھی ذمہ داری لینی چاہئے۔ نہ کہ سارے ناکامی کا ملبہ اساتذہ پر ڈالیں اور ہمارے بعض لوگ اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے ناکامی کا اہم سبب ہمارے تعلیمی ادارے ہیں اور یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام درست نہیں ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے اسطرح کی تعلیمی خدمات فراہم نہیں کرتے ہیں جس طرح کرنا چاہیے۔ اور خاص کر ہمارے سرکاری تعلیمی ادارے جوکہ انتہائی تباہ خالی کا شکار ہیں لیکن ایسا بھی نہیں کہ بالکل کچھ نہیں ہے۔ میں خود ذاتی طورپر کچھ ایسے لوگوں کو جانتا ہوں۔ جوکہ انہی تعلیمی اداروں سے نکلے ہیں اور آج کل نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ دنیا بھر میں اپنے بہترین کام کے لئے جانے جاتے ہیں۔ اور ہمارا یہ بہانہ بےجا اور غیر ذمہ دارانہ ہیں۔ کہ ہمارے ناکامی کا 100% ذمہ دار تعلیمی ادارے ہیں۔ بلکہ بہت ساری جگہوں میں ہم خود اپنی ناکامی کا ذمہ دار ہوتے ہیں بلکہ اپنا احتساب گہوارہ نہیں کرتے ہیں۔
اب خود اختسابی کے حوالے سے تھوڑا مجلس بڑے طبقہ کے حوالے سے کرنے کی اجازت چاہتا ہوں اگر اس طبقہ کے حوالے سے گفتگو نہ کرو تو یہ سب کچھ ب معنی ہیں جو میں ذکر کر چکا ہوں۔ کیونکہ اس طبقے کا اپنا اختساب کرنا باقی سب کے نسبت سب سے زیادہ ضروری ہے۔ میرا مطلب یہاں ہمارا حکمران طبقہ ہیں یعنی ہمارے سیاسی رہنما۔ کیونکہ ان پر تمام قوم کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ان کی ناکامی صرف ان کی ناکامی نہیں ہوتی بلکہ تمام قوم اور ملت کی ناکامی ہوتی ہے۔ اور پوری قوم زوال کا شکار بن سکتی ہے ان کی ناکامی سے لہٰذا اس طبقے پر تو باقی کے نسبت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ اس طبقے نے کبھی اپنے احتساب کے حوالے سے سوچا تک نہیں ہے۔ اور ہمیشہ اپنی ناکامی کا ذمہ دار اوروں کو ٹھہرایا ہے۔ اور خود احتسابی سے ہر ممکن حد تک بچنے کی کوشش کی ہے۔ جس کی وجہ سے ہمارا ملک اور معاشرہ روز بہ روز زوال کی جانب گامزن ہے۔ کیونکہ ووٹ نہ ملنے کے ڈر سے کوئی بھی اپنا اختساب کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اور اپنا سارہ ملبہ دوسروں پر گرانے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر ہم اپنا اختساب خود کرے تو ہمارے تمام مسائل حل ہوجائیں گا اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام غلطیاں ہم ہی میں ہیں۔ بس ہمیں اپنے آپ نظر نہیں آتا ہے ورنہ سب کچھ ٹھک ہو جائے گا۔ اور خود احتسابی کوئی برا عمل نہیں ہے بلکہ اسلام کا تو درس ہی خود احتسابی ہے اور الله رب العزت نے خود احتسابی کو بہت پسند کیا ہے اور قرآن پاک میں بار بار اس پر زور دیا ہے کہ اپنا احتساب خود کرو اس سے پہلے کہ الله رب العزت تمہارا احتساب خود کرے اور پھر تم ایک بڑی مشکل میں پڑھ جاو اور تمہارے لئے وہاں سے نکلنا ممکن نہ ہو سو اس سے پہلے اپنا احتساب یقینی بناؤ۔
اپنا احتساب کرنے والوں کو انعامات سے نوازنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔ اور ایسے لوگوں کو بہت پسند کیا ہیں اور ان کی مثالیں پیش کی ہیں۔ اور ان کو بہترین مسلمان قرار دیا ہے۔ اور اسی پر عمل کرتے ہوئے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے ہمیشہ اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کیا ہے۔ نہ صرف نبی کریم ﷺ نے بلکہ اس کے بعد آنے والے ہمارے خلیفہ راشدون نے بھی ہر اپنے آپ کو احتساب کے لیے تیار پایا ہیں۔ اور اپنے آپ کو اپنے رعایا کے سامنے احتساب کے لئے پیش کیا ہے۔ تو یہاں سوال یہ پید ہوتا ہے کہ پھر ہمارے حکمران اپنے احتساب سے بچنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟ تو اس کا جواب یہ کہ آج ہم برائے نام مسلمان رہ گئے اور اسلام کو صرف اور صرف اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے اگر ہم اسلام ان سچے اصولوں پر عمل کرے تو سب کچھ ٹھک ہوسکتا ہے اور ہمارا ملک اور ہمارا معاشرہ گل گلزار بن سکتا ہے۔
اب میں اپنے اس گفتگو کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں کہ ہم سب کو اپنا احتساب کئے بغیر آگے بڑھنا مشکل کیا نا ممکن ہے اور نا ممکن کا لفظ میں سوچ سمجھ کر استعمال کررہا ہوں۔ تو لہذا اب ہم سب پر فرض ہے کہ اپنا احتساب خود کرے چاہئے طالب علم ہوں، استادہوں حکمران ہوں عرض کہ معاشرے کے ہر فرد پر اپنا احتساب لازم ہو چکا ہے۔ اور ایک بار پھر میں اپنے اس جملے کو دھراتا ہوں کہ ہمیں اپنا احتساب خود کرنا چاہئے اس سے پہلے کہ کوئی اور ہمارا احتساب کرے۔