Jinnat Ki Scienci Haqeeqat
جنات کی سائنسی حقیقت ؟

مملکت خداداد میں سیاسی گرما گرمی کے اس ماحول میں ایک غیر سیاسی کالم لکھنا بھلا کونسی عقلمندی اور دوراندیشی ہے؟ مگر دیواروں پر جگہ جگہ لکھا ہوا "کالا جادو اور اس کا توڑ" اور ساتھ ہی ہمارے بلوچستان کے معاشرے سے جڑے ہوئے کاروباری ملاؤں کی حقیقت کو عیاں کرنا نہایت ہی ضروری ہے کیونکہ اس سے ہمارا اجتماعی معاشرہ متاثر ہو رہا ہے۔
تحریر کا پہلا حصہ سائنسی نوعیت جبکہ دوسرا حصہ اسلامی نوعیت کا ہوگا۔ بچپن سے جن حربوں سے ہمیں ڈرایا جاتا تھا اس میں جنات سر فہرست ہیں۔ جنات کی تعریف کسی بھی لغت میں"unseen creation" سے ہوتی ہیں یعنی جن کا ماخذ "نظر نہ آنے والی چیز" کی ہے۔ کائنات Electromagnetic، spectrum، کے تحت 19 روشنیوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں انسان صرف ایک دیکھ سکتا ہے جو سات رنگوں پر مشتمل ہے۔ کیونکہ انسانی آنکھ کے صرف دو "light receptors" ہے اسکے علاوہ اگر تمام دنیا کو ایک میٹر میں سمویا جائے تو انسان صرف 300 نینو میٹر کے اندر تک دیکھ سکتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کائنات کے صرف 0.0000003 فیصد حصہ دیکھنے کے قابل ہیں کیونکہ انسانی آنکھ کو دیکھا دینے والی روشنی "visible light"الٹراوائلٹ ریڈ اور انفراریڈ کے درمیان چھوٹی سی روشنی ہے۔
دوسری طرف انسان کی طاقت سماعت تیس ہرٹز سے لیکر بیس ہزار ہرٹز تک ہے ہمارے "علماء جن" اکثر اوقات جنات کے بارے میں سرگوشیوں کا تذکرہ کرتے ہیں جس کی وجہ ایک سرگوشی کی فریکوئنسی سو پچاس ہرٹز کی آواز ہے۔ میں جنات کے وجود سے نہ انکاری ہوں بلکہ اس کے ماننے والوں میں سے ہوں مگر ساتھ ہی جس چیز کا وجود نہ ہمیں معلوم ہو نہ ہی اس کی آواز کا پتہ ہو تو اس مخلوق کے ہونے اور نہ ہونے سے کیا انسان کو فرق پڑے گا؟ مگر"string theory"کے مطابق کائنات گیارہ ڈائمینشن پر محیط ہے انسان کی حرکت آگے پیچھے، دائیں بائیں، اوپر اور نیچے ہوسکتا ہے ساتھ ہی انسان اور یہ کائنات 3D کے اندر قید ہیں۔
گزشتہ دنوں ایک کتاب"The jinn and human sickness" نظروں سے گزری جس کو Dr Abdul Mundhir Ibn Ibrahim نے لکھا تھا اس کتاب میں جنات کی طرف سے لاحق بیماریاں اور اس کا علاج درج تھا۔
معاشرے کے بہت فرسودہ باتوں کو جنات سے منسلک کیا گیا ہے مثلاً مرگی ایک تسلیم شدہ بیماری ہے میڈیکل سائنس میں اس کو Epilepsy کہا جاتا ہے جس سے انسان کی نروس سسٹم میں خرابی ہو جاتی ہے انسان پردفعتاً بیہوشی طاری ہوتی ہے جس سے وہ اچانک گرجاتا ہے۔ دنیا کے تقریباً پچاس ملین افراد اس مرض کا شکار ہیں مگر ہمارے ہاں مرگی کو ایک "جن" تسلیم کیا گیا ہے۔ جدید دنیا کے لوگ اس کا علاج کسی اچھے یورولوجسٹ سے کرواتے ہیں اس کے برعکس ہمارے ہاں مرگی کے دم درود کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔
ایک عام مبالغہ آرائی یہ بھی ہیں کہ جنات ہمیشہ نوعمر اور کنواری لڑکیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں بعد میں درندہ صفت پیر اور عالم جنسی استحصال کرکے وہ جن نکالتے ہیں جو من حیث القوم کے سوچنے کا مقام ہیں۔
مگر دوسری طرف ضیاء الحق کے دور میں بھی جنوں کو سائنس سے نتھی کیا جانے لگا ڈیفنس انجینئرنگ اینڈ سائنس ٹیکنالوجی آرگنائزیشن DESTO کے ڈاکٹر صفدر جنگ راجپوت نے ایک مقالہ "کیمیکل کمپوزیشن آف جن" لکھا جس میں جن کی کیمیائی ساخت میتھین گیس (CH4) بیان کی گئی تھی۔ ساتھ ہی سید بشیر الدین محمود صاحب نے تو حد کردیا تھا انہوں نے حکومت کے انرجی کمیٹی کو اپنے سفارشات میں کہا تھا کہ "جن" چونکہ آگ سے بنے ہوئے ہیں تو کیوں نہ حکومت اس کو قابو کرکے ان سے توانائی پیدا کریں اور ساتھ ہی پاکستان میں توانائی کے بحران پر جنات کی مدد سے قابو پایا جاسکتا ہے۔
جب ریاست سرکاری طور پر اس طرح مبالغہ آمیز لوگوں اور اس کے تحریروں کو تحفظ دیتی ہیں تو یہاں پر منطق ودلیل اور سائنسی پروف میں لوگوں کی دلچسپی ختم ہونے لگتی ہے۔ جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہیں۔
اجتماعی طور پر اگر بات کی جائے تو ہمارے مسجد کے ممبر کو بھی نہ صرف اس طرح توجہات بلکہ جنات کی تصدیق مذہب کے آڑ میں غلط طریقے سے کئی گئی ہیں۔ اور تو اور معاشرتی بگاڑ انتہا کو پہنچ گیا ہے آج کل بھی مختلف دیہات میں کنواری لڑکی اگر حاملہ ہوتی ہیں تو اسے بابا کے پاس لے جاتے ہیں اور اسے جنات ودیگر بلاؤں کا اثر گردانتے ہیں۔ اس سے خیر لڑکی کی جان بخشتی ہے مگر تعجب اس بات پر کہ بھلا ایک جن کس طرح لڑکی کو حاملہ کرسکتا ہے؟ کیا جنات اور انسانی ڈی این میں کوئی فرق نہیں؟ اس طرح کے مزید سوالات کے جواب نہ کسی بابا کے پاس ہوتا ہے اور نہ ہی کسی عالم کے پاس!
لہذا دنیا اب بہت آگے جاچکی ہے خدارا اپنے اور اپنی عزیز و اقارب کے علاج پیروں اور دیگر ذرائع کے بجائے سائنسی طریقہ کار سے کریں ایسا نہ ہو کہ کہیں زیادہ دیر نہ ہو جائے!

