Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Bint e Afzal
  4. Udas Eid, Azadi Ki Kahani Dada Abbu Ki Zubani

Udas Eid, Azadi Ki Kahani Dada Abbu Ki Zubani

اداس عید، آزادی کی کہانی دادا ابو کی زبانی

علی 14 اگست کی خوشی میں گھر کا صحن سجا رہا تھا، ہر طرف سبز اور سفید جھنڈیاں لہرا رہی تھیں۔ دادا جان قریب ہی کرسی پر بیٹھے، خاموشی سے اُسے دیکھ رہے تھے۔

علی، جو اپنے ہی خیالات میں گم تھا، کم عمری کے باعث سجاوٹ کے ساتھ ساتھ اپنے جیسے ننھے ننھے سوالات بھی کر رہا تھا: "دادا ابو! کیا آپ بھی آزادی ایسے ہی مناتے تھے؟ کیا آپ بھی اپنا گھر اور محلہ سجاتے تھے؟"

دادا ابو اپنے پوتے کے معصوم سوالات پر مسکرا دیے، مگر آنکھوں میں ایک پرانی یاد کی نمی اتر آئی۔

یوسف صاحب نے علی کو اپنے پاس بٹھاتے ہوئے یادیں سنانا شروع کیں: "ہم جالندھر کے ایک چھوٹے سے محلے میں رہتے تھے۔ قلعے کے ساتھ ہمارا گھر تھا۔ میں بھی تمہاری طرح ایک بچہ تھا، ہم چھ بہن بھائی تھے۔ جب پاکستان بننے کا اعلان ہوا تو خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ مگر ساتھ ہی دل میں ایک عجیب سا خوف بھی اتر آیا۔

ہمیں صرف اتنا کہا گیا: جلدی سے نکل جاؤ، ورنہ کچھ نہیں بچے گا!

ہم نے گھر کی دیواروں کو آخری بار دیکھا۔ امّی کی آنکھوں میں آنسو تھے، ابو کے چہرے پر فکر کی لکیریں۔ ہم ایک قافلے کے ساتھ پیدل روانہ ہوئے۔ راستہ لمبا، پیاس شدید اور ہر قدم پر خطرہ منڈلا رہا تھا۔ کچھ لوگ ٹرینوں اور بیل گاڑیوں پر سوار تھے اور سب خالی ہاتھ، صرف ایمان اور امید لیے پاکستان کی طرف جا رہے تھے۔ اس وطن کی طرف جو لا الٰہ الا اللہ کے نام پر بنا تھا۔

1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد انگریز مسلمانوں کو باغی سمجھتے تھے۔ سر سید احمد خان نے اسبابِ بغاوتِ ہند لکھ کر انگریزوں کو اصل صورتحال بتائی اور مسلمانوں کو تعلیم کی طرف مائل کیا۔ 1940ء میں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی تو ہر مسلمان آزادی کا خواب دیکھنے لگا۔

آخرکار، قائداعظم کی محنت اور قربانیوں سے 14 اگست 1947ء، 27 رمضان المبارک کی رات لاہور ریڈیو سے یہ آواز گونجی: "یہ ریڈیو پاکستان لاہور ہے۔۔

آزادی مبارک ہو! آپ ایک آزاد ریاست کے شہری ہیں!"

لیکن ہمارے لیے آزادی کا مطلب آسان نہ تھا۔

ہندوستان میں مسلمانوں کا قتلِ عام شروع ہوگیا۔

***

عید قریب تھی جب میری نانی ابو کے پاس آئیں اور کہا: "محمد علی! بچوں کو پاکستان روانہ کر دو، حالات بہت خراب ہیں"۔

یہ سنتے ہی ابو نے ہمیں خود روانہ کر دیا۔ کچھ پیدل چل کر ہم کوئلے والے انجن کی ٹرین پر پہنچے۔ چار پانچ اسٹیشن گزرنے کے بعد ہندوؤں کی رکاوٹ کے باعث ٹرین روک دی گئی اور کپتان نے اسے واپس موڑ لیا۔

ہم صبح نکلے تھے مگر رات گیارہ بجے گھر واپس آئے۔ رات کے وقت زیادہ قتل و غارت ہوتی تھی کیونکہ مسلمانوں کے پاس نہ ہتھیار تھے، نہ وسائل۔ ابو نے ایک سکھ پڑوسی سے پناہ مانگی، وہی جسے ہم یتیم ہونے کے بعد سنبھالتے رہے تھے۔ مگر آدھی رات کو اس نے ہمیں گھر سے نکال دیا۔

پھر ابو نے ایک اور سکھ سے پناہ مانگی۔ وہ بظاہر نیک تھا، مگر اس کی نیت جلد ہی سامنے آ گئی۔

کہنے لگا: "پاکستان مت جاؤ۔ اپنی بیٹیوں کی شادی میرے بیٹوں سے کر دو، ہمارے کھیتوں میں کام کرو اور اللہ اور قائداعظم کو بھول جاؤ"۔

ابو نے سختی سے انکار کیا، مگر صبح ہونے کا انتظار کیا۔ تقریباً تین بجے دو بلوائی آئے اور جانوروں کو ہانکنے کے بہانے مسلمانوں کو سرِعام تلواروں سے شہید کرتے جا رہے تھے۔

وہ کہتے جاتے: "گولی کیوں ضائع کریں جب تلوار ہمارے پاس ہے!"

ابو نے ان سے منت کی کہ ہمیں جانے دیں، مگر وہ تیار نہ ہوئے۔

پھر اچانک جانے کیوں، انہوں نے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا۔

***

ہم نہر کے کنارے اس امید پر چلتے گئے کہ شاید ٹرین آ جائے اور ہم سوار ہو سکیں۔ راستے میں ایک گھر نظر آیا جو نہر کے قریب تھا۔ بھوک اور پیاس سے نڈھال ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ اس گھر کے لوگ بھی ہجرت کر چکے تھے۔

وہاں آٹا رکھا تھا، امی نے روٹی پکانے کی کوشش کی، مگر اچانک ایک سکھ نے خبر دی: "بلوائی آ رہے ہیں! کھانے کے بجائے بھاگ جاؤ!"

ہم فوراً نکل کھڑے ہوئے۔ دل میں یہی سوچ تھی کہ اگر بچ گئے تو پہنچ جائیں گے، ورنہ نہر میں کود جائیں گے۔ پیاس نے نڈھال کر دیا تھا، مگر پینے کو صاف پانی نہ تھا۔ نہر کا پانی خون کی ندی بن چکا تھا۔ کسی کا ہاتھ، کسی کا پاؤں پانی میں بہتا نظر آ رہا تھا۔

جب خطرہ قریب آیا تو امی نے چھوٹے بھائی جمیل کو ساتھ لے کر نہر میں چھلانگ لگا دی، ہم بھی پیچھے پیچھے کود گئے۔ ابو نے دوسری طرف سے ہمیں نکالا، مگر نہر کا بہاؤ تیز اور پانی گہرا تھا۔ امی سے جمیل کا ہاتھ چھوٹ گیا اور میرے سے فراز کا ہاتھ چھوٹ گیا۔

ابو نے کہا: "چلو، فوراً آگے بڑھو!"

***

کیا حال ہو سکتا ہے اس ماں کا، جو اپنے بچوں کو ڈوبتے دیکھ کر بھی چھوڑ آئی؟

راستے میں جگہ جگہ لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ اللہ کا کرم ہوا کہ ایک گھنٹے بعد ٹرین کی سیٹی سنائی دی۔ جگہ نہ ہونے کے برابر تھی، مگر ہم کسی طرح سوار ہو گئے۔ ٹرین وزیرآباد تک گئی، پھر رک گئی۔ پانچ گھنٹے بعد دوبارہ چلی اور بالآخر ہم لاہور پہنچ گئے۔

آزادی تو ملی، مگر عید اداس گزر گئی تھی۔

***

یہ کہانی سنتے سنتے علی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔

دادا ابو نے اس کے سر پر ہاتھ رکھا اور کہا: "بیٹا! یہ آزادی لاکھوں جانوں کے نذرانے سے ملی ہے، اسے کبھی ضائع نہ ہونے دینا"۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed