Friday, 20 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Bilal Saleem
  4. Taleem o Tarbiat

Taleem o Tarbiat

تعلیم و تربیت

تعلیم و تربیت دونوں زندگی کے اہم عناصر ہیں۔ دونوں میں سے کوئی ایک بھی نہ ہو تو انسان انسانیت کے کسی بھی درجے پر پہنچنے سے قاصر رہتا ہے۔ خاص طور پر تربیت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ ان دونوں ہی کے درمیان گہرا ربط و تعلق ہے۔ تعلیم انسان کو فہم عطا کرتی ہے، اسے کائنات کے رموز سے واقف کرواتی ہے۔ اسے یہ سمجھاتی ہے کہ انسان کیسے پیدا ہوا، آگے کیسے بڑھا جائے۔

آج دنیا میں تعلیم کے حصول کے لیے بڑی بڑی درسگاہیں موجود ہیں۔ دنیا نے اس کے حصول کے لیے مختلف انتظامات کیے ہوئے ہیں۔ جیسے کہ اساتذہ، کتب اور آج خاص طور پر گوگل بابا جو افراد کو تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ تربیت کی بات کی جائے تو تربیت اس عمل کو ظاہر کرتی ہے، جو فرد کو ایک بہتر انسان بنانے کی کوشش میں کیا جاتا ہے۔ تربیت کے ذریعے انسان کو اخلاقی، معاشی اور سماجی اصول اور طریقے سکھائے اور سمجھائے جاتے ہیں۔ کسی بھی ادارے چاہے وہ گھر ہو، تعلیمی ادارہ ہو یا معاشرتی ماحول اس کی اہمیت تربیت میں پنہاں ہے۔

مثال کے طور پر اگر کسی معااشی ماحول میں رہتے ہوئے بچہ اخلاقیات سے دور ہو رہا ہو تو وہ معاشرہ قابلِ قبول بھی نہیں ہوتا اور نہ ہی اس معاشرے کی کوئی اہمیت ہوتی ہے۔ جیسا کہ آج کا ہمارا پاکستانی معاشرہ، پاکستان کے نامور تعلیمی ادارے، کالجز اور یونیورسٹیاں جہاں صرف تعلیم دی جا رہی ہے۔ وہ بھی ایسی جو نظریہء پاکستان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک ایسا ذہن تیار کر رہی ہے جو سیکولر ہے۔

تعلیم و تربیت ملکی، سماجی اور انسانی ترقی کے لیے بنیادی عناصر ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح مربوط ہیں جس طرح لفظ اپنے معنی کے ساتھ یا سکے کا ایک رخ دوسرے رخ کے ساتھ۔ بحیثیت مسلمان یہ دیکھ لینا بے حد ضروری ہے کہ اسلام کا تعلیم و تربیت کے بارے میں کیا نظریہ ہے۔ اسلامی تعلیم و تربیت میں فکری ہدایت و رہنمائی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ یعنی اسلام کے نزدیک ایسا علم کوئی معنی نہیں رکھتا جو محض سنا سنایا ہو اور عملی زندگی میں اس کا کوئی دخل نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا خلیفہ مقرر کرکے اس دنیا میں بھیجا ہے، لہذا اسے علم کے ساتھ ساتھ حکمت بھی عطا فرمائی ہے۔ کیونکہ انسان ایک پورے معاشرے کا بانی بنتا ہے۔ جہاں صرف معلومات کافی نہیں ہوتیں بلکہ اس معلومات کے صحیح استعمال کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ استعمال تربیت سے آتا ہے۔

سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 269 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جسے چاہتا ہے دانائی عطا فرما دیتا ہے اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگی، اور صرف وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و دانش ہیں"۔

اس آیت کی روشنی میں پاکستان میں بحیثیت مجموعی شاید ہی کوئی صاحبِ عقل و دانش موجود ہے وگرنہ لوگوں کی بڑی تعداد نے تعلیم تو حاصل کر لی ہے، مگر تربیت نہ ہونے کے سبب وہ تعلیم ان کے لیے سوائے خسارے کے سودے کے اور کچھ نہیں۔

آج سکولوں اور کالجوں میں صرف تعلیم باقی رہ گئی ہے، سلیبس بنا کر دے دیا جاتا ہے اور اسے مکمل کروانا ایک استاد کا نصب العین قرار پاتا ہے، اگر ایک استاد تربیت کی کوشش کرے تو دوسروں کی باتوں کو سن کر ایک اچھے استاد کو بے عزت کرتے ہوئے ادارے سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے پرانا دور اور اس کے مدارس بہترین درسگاہیں تھیں جو طلباء کو صرف کاغذ کا ٹکڑا حاصل کرنے کی تگ و دو سکھانے کے بجائے اسے ایک اچھا معاشرہ تشکیل کرنا سکھاتی تھیں۔ جس کی تصدیق ارسطو کے نظریہ تعلیم سے ہوجاتی ہے، جو انہوں نے اپنی کتاب "اخلاقیات" میں پیش کیے ہیں۔

انہوں نے تعلیم کو دوحصوں میں تقسیم کیا، پہلا حصہ: عقلِ فعال اور دوسرا حصہ: افعالی عقل اور پھر بہترین تعلیم کے بارے میں کہا کہ وہ تعلیم جو روح، جسم، عقلِ فعال اور افعالی عقل کی تربیت پر مشتمل ہو۔ ان کے نزدیک "تربیت کی آسانی سے تعلیم نہیں دی جا سکتی۔ لیکن بغیر تربیت کے تعلیم کا کوئی طریقہ نہیں"۔ دراصل تعلیم و تربیت ایک انسان کو اس طرح کا بناتے ہیں جیسے کہ کیمیا گر دھات کو سونے میں تبدیل کرتا ہے۔ تربیت کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اقبال کہتے ہیں: ؎

زندگی کچھ اور شے ہے علم ہے کچھ اور شے

زندگی سوزِ جگر ہے علم ہے سوزِ دماغ

(ضربِ کلیم سے انتخاب)

مندرجہ بالا اقوال کی روشنی میں اگر آج کے تعلیمی اداروں پر روشنی ڈالی جائے تو صاف ظاہر ہوگا کہ آج کا تعلیمی ادارہ جو چاہے کھلتے وقت ایک اعلیٰ مقصد رکھتا ہو، لیکن آج وہ صرف تعلیم کے پیچھے خود بھی بھاگ رہا ہے، استاد اور شاگرد کو بھی بھگاتا ہے اور پھر رونا رویا جاتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اتنی گندگی ہے، بڑوں کا احترام موجود نہیں رہا، میرا بچہ پڑھائی میں بہت اچھا ہے مگر بد تمیز ہے۔ الزم سکول والے والدین پر اور والدین استاد پر لگا کر دونوں اپنی اپنی جگہ بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن اپنا گریبان چاک کرکے کوئی اپنی کوتاہیاں دیکھنا گوارا نہیں کرتا۔

اس صورت میں معاشرے میں سدھار کیسے آ سکتا ہے، جب بچہ کو نمبروں کی ریس میں دوڑایا جا رہا ہو، ایک اچھے استاد پر سلیبس کو مکمل کروانے کا پریشر ہو، اس صورت میں معاشرے، میں صرف ٹیکنالوجی کی حد تک ترقی اور جرائم میں اضافہ ہی ہو سکتا ہے سدھار ہر گز نہیں آ سکتا۔ آخر ہم نے کیوں تعلیم و تربیت کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے اسکول کو صرف تعلیم کا مرکز بنا دیا ہے، وہاں پڑھتے ہوئے بچے کے اخلاق سدھار تو نہیں آتا البتہ چھپ کر غلط فعل کرنے ضرور آ جاتے ہیں۔ تربیت کے لیے سزائیں دینا کوئی حل نہیں ہوتا، بیٹھیں خود کا احتساب کریں اور پھر سنیں کہ آپ کا دل کیا گواہی دیتا ہے۔

اپنے معاشرے کی اخلاقی ترقی اور بحیثیت مسلمان اور بحیثیت پاکستانی اگر ہم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو اپنا رب تسلیم کرتے ہیں تو ہمیں اپنے تعلیمی اداروں میں تربیت کو جگہ دینی ہوگی۔ اگر رب دل ہے یعنی نفس ہے تو تجزیہ آپ کے سامنے ہے کہ کس طرح کی تباہ کاریاں، جرائم اور بیماریاں معاشرے میں سرطان کا روپ اختیار کرچکی ہیں۔

Check Also

Maryam Nawaz Aur Hamza Shahbaz Ki Siasat

By Farhat Abbas Shah