Friday, 20 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Bilal Saleem
  4. Overcoat Aaj Ke Daur Mein

Overcoat Aaj Ke Daur Mein

اوورکوٹ آج کے دور میں

اوورکوٹ ایک ایسا لمبا کوٹ جس کا بنیادی مقصد آپ کو سردی سے بچانا ہے، مگر جب آپ نے اوورکوٹ زیب تن کیا ہو تو اس میں آپ کا سارا جسم ہی چھپ جاتا ہے۔ یہ جاننا مشکل ہوتا ہے کہ اوورکوٹ کے نیچے آپ نے کیا زیب تن کیا ہوا ہے۔ غلام عباس بیسویں صدی کے نامور اردو افسانہ نگار ہو گزرے ہیں۔ جن کے افسانوں کی خاصیت حقیقت نگاری ہے۔ زندگی کی حقیقتوں پر ان کی گہری نظر رہتی تھی، جو کچھ دیکھتے اسے اپنے افسانے میں کہانی کے طور پر قلمبند کر لیتے۔ یہی ان کی نماہاں خصوصیت تھی۔ ان کے بارے میں ڈاکٹر عبادت بریلوی نے لکھا ہے:

"زندگی کی حقیقتوں کو تلاش کرنا ان کا مقصد ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک بہت بڑے حقیقت نگار ہیں وہ زندگی کے حسن اور ان کے حسین پہلوئوں پر کم ہی نظر رکھتے ہیں ان کی نظر تو حقائق کے حسن پر رہتی ہے"۔

غلام عباس کی پیدائش 1909ء میں امرتسر میں ہوئی، 1 نومبر 1984ء میں لاہور میں جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کے چار افسانوی مجموعے، تین ناولٹ، تین کتابوں کے تراجم اور انہوں نے بچوں کے ادب پر بھی لکھا ہے۔ اوورکوٹ ان کاایک شاندار افسانہ ہے جس کی کہانی تب پیدا ہوئی جب ایک رات انہیں جلد بازی میں اپنے دوستوں کے ساتھ بنیان ہر اوورکوٹ پہنے ہوئے چائے پینے جانا پڑا۔ آتے یا جاتے ہوئے ان کی گاڑی حادثے کا شکار ہوتے ہوتے بچی۔ بطور ادیب انہوں نے اس واقعے کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا اور اوورکوٹ کے نام سے ایک لازوال افسانہ تحریر کر ڈالا۔

افسانہ اجزاء کے اعتبار سے بالکل مکمل ہے۔ پلاٹ سادہ اور مربوط ہے۔ اکلوتے کردار کو بہترین طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔ منظر جز سمیت بیان ہے۔ افسانے کی لازما خصوصیت وحدت تاثر جوافسانے میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے اور اختصار بھی موجود ہے۔ افسانے کے اسلوب کے بارے میں مبشر مہدی لکھتے ہیں:

"اس افسانے کو آغاز سے پڑھتے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس میں ایک خاص قسم کی ترتیب پائی جاتی ہے۔ افسانہ اپنے آغاز سے ہی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک خاص قسم کا انکشاف آخر میں ہوگا"۔

افسانے کی کہانی ایک ہی کردار کے گرد گھومتی ہے۔ جسے مصنف نےاوورکوٹ پہنے ہوئے چہل قدمی کرتے ہوئے دکھایا ہے۔ اس نوجوان میں آج کا نوجوان دکھائی دیتا ہے۔ جس طرح وہ اپنے آپ کو بنا سنوار کر بالکل فراغت کے موڈ میں گھر سے نکلا ہوا ہے کچھ اسی طرح کی حالت آج کے نوجوان کی بھی ہے (خصوصا میرے آس پاس کا نوجوان)۔ نوجوان اپنی وضع قطع اور چال ڈھال سے کسی امیر گھرانے کا چشم و چراغ معلوم ہوتا ہے جسے چلتا ہوا دیکھ کر تانگے اور ٹیکسی والے بھی رک جاتے ہیں جنہیں وہ اپنی چھڑی سے نا کا اشارہ کرتا ہے۔ جب وہ رش والی جگہ پر پہنچتا ہے تب وہ انگریزی گانے کی دھن کی سیٹی بجاتا ہے۔ نوجوان ایک جگہ پر پہنچ کر تنہا بھی بیٹھتا ہے اور اپنے سامنے گزرنے والے لوگوں اور چیزوں کو بغور دیکھتا ہے وہیں اسکے پاس ایک سگریٹ والا آتا ہے جسے وہ پوچھتا ہے کہ کیا تمہارے پاس دس روپے (اس وقت یہ ایک بڑی رقم تھی) کا کھلا ہے اور آخر میں اکنی دے کر ایک سگریٹ خرید لیتا ہے۔ وہ سینما کی عمارت میں جاتا ہے وہاں سے ایک ریسٹورانٹ کے سامنے سے گزرتا ہے جہاں اندر بجتے ہوئے آرکسٹرا پر نغمہ سننے کے لیے لوگوں کی ایک لمبی تعداد باہر کھڑی ہوتی ہے۔ وہ ایک انگریزی میوزک کی دکان پر، ایرانی قالینوں کی دوکان پر بھی جاتا ہے۔ آخر میں ایک نوجوان جوڑے کی گفتگو سننے کا تجسس اس کی موت کا سبب بنتا ہے۔

جیسا کہ اوپر لکھا کہ اس نوجوان میں آج کا نوجوان دکھائی دیتا ہے جس کے ظاہر و باطن میں تضاد ہی تضاد ہے، جو دو چہرے لیے معاشرے میں گھوم پھر رہا ہے۔ جسے اپنے سے اعلا (اس کے نزدیک) طبقے کی وضع قطع اپنانے کا جنون ہے اور وہ اپناتا بھی ہے۔ خود کو بالکل انہی کی طرح بنا کر گھر سے نکلتا ہے۔ یہ نوجوان تعلیم یافتہ بھی ہے۔ کچھ کی جڑیں بھی اس اعلا طبقے سے جڑی ہوئی ہیں مگر آج کا نوجوان باغیانہ سوچ کا حامل ہے۔ لیکن وہ جتنا بھی اس طبقے کی پیروی کرلے ایک آوازایسی ہے جواسی کے کہیں اندر سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ آواز ہمیشہ اس کے دماغ پر چوٹ کرتی رہتی ہے جس کی وجہ سے وہ اس ماحول میں ہوتے ہوئے بھی وہاں نہیں ہوتا۔ اور آخر میں جو اس نوجوان کے ساتھ ہوا کہ چلتے چلتے ایک نوجوان جوڑا جو اس کے پیچھے پیچھے چلا آرہا تھا اس کے پاس سے گزر کر آگے نکل آتا ہے، کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس جوڑے میں جو گفتگو شروع ہوتی ہے وہ نوجوان کو ان کی طرف متوجہ کردیتی ہے۔ نوجوان یہ بھی نہیں چایتا کہ اس جوڑے کو شک ہو کہ وہ ان کی گفتگو سن رہا ہے۔ ان سے تھوڑا فاصلے پر رہنے کی کوشش میں وہ ان کے سڑک کراس کرنے کے تھوڑی دیر بعد سڑک پار کرتا ہے اور بیچ سڑک پر ایک گاڑی اسے کچلتی ہوئی آگے نکل جاتی ہے۔ نوجوان کو اسپتال لے جایا جاتا ہے وہاں موجود نرسیں اس کے ظاہری حلیے سے اسے ایک اعلا خاندان کا چشم و چراغ تصور کرتی ہیں مگر جب اس کا اوورکوٹ اتارا جاتا ہے تب اس کا باطن سب پر عیاں ہوجاتا ہے۔ اوورکوٹ کھلنے پر نوجوان کا چہرہ جو چھت کی سمت تھا اب وہ دیوار کی طرف مڑ گیا تھا۔

کچھ یہی حال آج کے نوجوان طبقے کا بھی ہے جنہیں ہر چمکتی ہوئی شے فوری تجسس میں مبتلا کردیتی ہے اور جسے حاصل کرنے کی تگ و دو میں وہ اپنا سب کچھ کھو دیتے ہیں۔ آج کا نوجوان صرف ظاہر کو فوقیت دیتا ہے، باطن سے اسے کوئی سروکار نہیں۔ وہ باغیانہ سوچ کا حامل ہے۔ ایک ایسی نسل کی نمائندگی کرنا چاہتا ہے جو صرف ظاہری طور پر شاندار ہوگی مگر جس کی جڑیں بالکل کھوکھلی ہو چکی ہوں گی۔ افسانے کا اختتام ایک غیر مرئی منظر پر ہوا ہے یہی غیر مرئی کیف اور لے پورے افسانے پر چھائی ہوئی ہے۔ بیگانگی اور دھوکہ دہی کا منفرد اظہار اس افسانے میں ملتا ہے جس کی ترجمانی آج کا نوجوان کررہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ظاہر و باطن کا تضاد، بیگانگی اور دھوکہ دہی ہمارے لیے کس قدر نقصان دہ ہے اس کے باوجود ہم انہی کو ترجیح دے رہے ہیں اور جب ہمارا باطن سب پر عیاں ہوتا ہے (جسے ایک دن ہونا ہی ہوتا ہے) اس وقت ہمیں شرم کے مارے اپنی آنکھیں بند کرنا پڑتی ہیں۔

ملبوس خوش نما ہیں مگر جسم کھوکھلے

چھلکے سجے ہوں جیسے پھولوں کی دکان پر

Check Also

Aik Nazar Idhar Bhi

By Javed Ayaz Khan