Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Bilal Ahmed Batth
  4. Youm e Takbeer Se Youm e Tadbeer Tak

Youm e Takbeer Se Youm e Tadbeer Tak

یومِ تکبیر سے یوم تدبیر تک

ہر سال جب 28 مئی کا سورج طلوع ہوتا ہے، تو پاکستانی قوم فخر، عزم اور غیرت کے احساس کے ساتھ اسے "یومِ تکبیر" کے طور پر مناتی ہے۔ یہ دن ہمیں اُس تاریخی لمحے کی یاد دلاتا ہے جب پاکستان نے چاغی کے پہاڑوں کو ہلا کر دنیا کو یہ واضح پیغام دیا کہ ہم ایک پُرامن قوم ضرور ہیں، لیکن اپنی خودمختاری، آزادی اور قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ یہ محض ایٹمی دھماکوں کا دن نہیں، بلکہ ایک نظریے کی جیت، سائنس کی طاقت اور قومی غیرت کی گواہی ہے۔

پاکستان کا ایٹمی پروگرام طویل، پرخطر اور صبرآزما سفر کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک ایسا خواب تھا جو ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے بے لوث محب وطن سائنسدانوں کی آنکھوں میں پروان چڑھا اور جسے ہزاروں انجینئرز، ماہرین اور سکیورٹی اہلکاروں نے اپنی محنت اور حب الوطنی سے حقیقت کا روپ دیا۔ اس پروگرام کا ہر پہلو پاکستان کی دفاعی خودمختاری، تکنیکی قابلیت اور قومی خود اعتمادی کا آئینہ دار ہے۔

یومِ تکبیر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان نے دنیا کی بڑی طاقتوں کے دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے، قومی مفاد کو اولین ترجیح دی۔ اُس وقت کی قیادت نے تمام تر سیاسی، معاشی اور سفارتی خطرات کے باوجود ایک جرأت مندانہ فیصلہ کیا، جو آج پاکستان کے تحفظ اور بقاء کی بنیاد بن چکا ہے۔ یہی فیصلہ تھا جس نے پاکستان کو دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی قوت بنایا۔

ہمارا ایٹمی پروگرام صرف طاقت کا مظہر نہیں بلکہ امن کا محافظ ہے۔ یہ "ڈیٹرنس" یعنی روک تھام کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جس نے بھارت جیسے دشمن کو کئی بار حملے سے باز رکھا۔ حالیہ برسوں میں جب پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی بڑھی، تو ہمارا دفاعی نظام اور فضائی قوت دشمن کے عزائم کے آڑے آئی۔ پانچ بھارتی جنگی طیاروں کی تباہی، جن میں جدید رافیل طیارے بھی شامل تھے، ہماری عسکری برتری کا ثبوت ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عسکری طاقت ہی ترقی کا واحد زینہ ہے؟ کیا ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہماری معیشت مستحکم ہے؟ کیا ہمارے تعلیمی ادارے ترقی کی راہوں پر گامزن ہیں؟ کیا ہم اپنے عوام کو انصاف، صحت، روزگار اور تحفظ فراہم کر رہے ہیں؟ ان تمام سوالات کا جواب افسوسناک حد تک منفی ہے۔

لہٰذا آج یومِ تکبیر ہمیں ایک اور پیغام دیتا ہے: اب وقت آ چکا ہے کہ ہم "دفاع سے تدبیر" کی طرف بڑھیں۔ دفاع کی بنیاد رکھ دی گئی، اب اس پر ایک ترقی یافتہ، خوشحال اور باوقار ریاست کی عمارت کھڑی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اب ایک یومِ تدبیر کی بھی ضرورت ہے، ایک ایسا دن جب پوری قوم مل کر یہ طے کرے کہ ہم نے آگے کیسے بڑھنا ہے۔

یومِ تدبیر کا مطلب ہے کہ ملک میں ایک ایسا گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ ہو جس میں تمام سیاسی قوتیں، عسکری قیادت، عدلیہ، سول سوسائٹی، تاجر اور ماہرینِ تعلیم شامل ہوں۔ ایک ایسا مکالمہ جو صرف الفاظ کا کھیل نہ ہو بلکہ پالیسی کی بنیاد رکھے۔ ایسا بیانیہ جو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی بقاء، سالمیت اور ترقی پر مرکوز ہو۔

ملک کو درپیش مسائل، مہنگائی، بےروزگاری، کرپشن، اقربا پروری، تعلیمی زوال اور عدالتی کمزوری، کسی ایک حکومت یا ادارے کی ناکامی نہیں بلکہ مجموعی نظام کا بگاڑ ہیں۔ ان مسائل کا حل صرف تب ممکن ہے جب ریاست اور عوام ایک صفحے پر ہوں۔ آئین کی بالادستی، ادارہ جاتی اصلاحات اور شفاف نظامِ احتساب کے بغیر کوئی تبدیلی دیرپا نہیں ہو سکتی۔

ہمیں چاہیے کہ اپنے جمہوری اداروں کو مکمل آزادی دیں تاکہ وہ اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔ پارلیمان کو قانون سازی میں خود مختار بنایا جائے، عدلیہ کو سیاست سے پاک رکھا جائے اور بیوروکریسی کو کرپشن سے نجات دلائی جائے۔ لوکل گورنمنٹ کو بحال کرکے اس کی مالی و انتظامی خودمختاری یقینی بنائی جائے تاکہ عوام کے مسائل ان کی دہلیز پر ہی حل ہوں۔

سفارت کاری بھی ایک اہم محاذ ہے جس پر ازسرِ نو توجہ درکار ہے۔ ہمیں دنیا کو یہ دکھانا ہے کہ پاکستان صرف ایٹمی طاقت ہی نہیں بلکہ ایک باشعور، باوقار اور ترقی پسند ریاست ہے۔ اسلامی دنیا کے ساتھ مضبوط تعلقات، مغرب سے برابری کی بنیاد پر مذاکرات اور خطے میں امن و استحکام کی کوششیں ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہونی چاہییں۔

تعلیم اور ٹیکنالوجی وہ ستون ہیں جن کے بغیر کوئی قوم آگے نہیں بڑھ سکتی۔ ہمارے اسکول، کالجز اور جامعات ابھی تک روایتی نظام کا شکار ہیں۔ تعلیمی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیے بغیر ہم نہ نئی نسل تیار کر سکتے ہیں اور نہ دنیا کے ساتھ قدم ملا سکتے ہیں۔ ہمیں نوجوانوں کو جدید علوم، تحقیق اور تخلیقی سوچ سے آراستہ کرنا ہوگا۔

سیاسی قیادت کو بھی چاہیے کہ وہ اپنی انا، مفادات اور الزام تراشی کی سیاست سے باہر نکلے۔ ہمیں ایک ایسا سیاسی ماحول درکار ہے جس میں اختلافِ رائے کو برداشت کیا جائے، مشترکہ نکات پر اتحاد ہو اور سب مل کر پاکستان کے لیے کام کریں۔ پاکستان کسی فرد، خاندان یا جماعت کی میراث نہیں بلکہ بائیس کروڑ عوام کی امانت ہے۔

یومِ تکبیر ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ جب قوم متحد ہو جائے، تو دنیا کی کوئی طاقت اُسے روک نہیں سکتی۔ ہمیں اس اتحاد کو اب صرف دفاعی میدان سے نکال کر معیشت، تعلیم، صحت، عدل اور اخلاقیات تک وسعت دینی ہے۔

آخر میں ہم ان سائنسدانوں، انجینئرز اور اہلکاروں کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا۔ ان کی محنت، حب الوطنی اور پیشہ ورانہ مہارت کے بغیر یہ ممکن نہ تھا۔ لیکن ہمیں اُن لاکھوں محنت کشوں، اساتذہ، ڈاکٹروں اور نوجوانوں کو بھی خراجِ تحسین پیش کرنا ہوگا جو خاموشی سے اس ملک کی تعمیر میں مصروف ہیں۔

آئیے اس یومِ تکبیر پر ہم صرف ماضی کی فتوحات کو یاد نہ کریں بلکہ مستقبل کی منصوبہ بندی کا آغاز کریں۔ دفاعی فتح ہو چکی، اب ترقی کی جنگ جیتنی ہے۔

اللہ تعالیٰ پاکستان کو سلامت رکھے، ترقی دے اور ہمیں ایک زندہ، باوقار اور بیدار قوم بنائے۔

پاکستان زندہ باد

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali