Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Bilal Ahmed Batth
  4. Pani Bachayen Zindagi Bachayen

Pani Bachayen Zindagi Bachayen

پانی بچائیں زندگی بچائیں

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، جن میں سب سے قیمتی اور بنیادی نعمت پانی ہے۔ پانی نہ صرف انسانی زندگی کا لازمی جز ہے بلکہ پوری کائنات کی بقا کا دار و مدار اسی پر ہے۔ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے: "اور ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے پیدا کیا" (الأنبياء: 30)۔ یہ آیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ پانی کے بغیر زندگی کا کوئی تصور نہیں۔ آج دنیا بھر میں پانی کو ایک تیزی سے ناپید ہوتی ہوئی نعمت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور پاکستان بھی اس خطرے سے محفوظ نہیں۔ پاکستان میں پانی کی قلت، آلودگی اور اس پر مناسب پالیسی نہ ہونا آنے والے وقتوں میں ایک بڑا انسانی اور معاشی بحران بن سکتا ہے۔

پاکستان کی معیشت کا بڑا انحصار زراعت پر ہے اور زراعت پانی کے بغیر ممکن نہیں۔ گندم، چاول، گنا، کپاس اور دیگر فصلیں جن پر ہماری خوراک اور صنعتیں قائم ہیں، سب پانی سے جڑی ہوئی ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں کروڑوں افراد کو پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں۔ شہری آبادی کا کچھ حصہ منرل واٹر استعمال کرتا ہے، لیکن دیہی علاقوں میں لوگ آج بھی گندے جوہڑوں، نالوں یا غیر محفوظ کنووں سے پانی حاصل کرتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان کی صرف 20 فیصد آبادی کو محفوظ پینے کا پانی دستیاب ہے، جبکہ 80 فیصد آبادی یا تو آلودہ پانی استعمال کرتی ہے یا پانی کے شدید مسائل سے دوچار ہے۔

پاکستان کو دنیا میں ان ممالک میں شامل کیا جا رہا ہے جہاں پانی کی قلت شدید ہو سکتی ہے۔ اقوام متحدہ اور عالمی بینک کی رپورٹس کے مطابق اگر موجودہ رفتار سے آبادی میں اضافہ، شہری پھیلاؤ اور آبی وسائل کی کمی جاری رہی تو پاکستان 2040 تک "پانی کی قلت والے ممالک" کی فہرست میں سرِ فہرست ہوگا۔ پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی 1990 میں 5000 مکعب میٹر تھی، جو اب کم ہو کر 1000 مکعب میٹر سے بھی نیچے آ چکی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم آبی قحط کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔

پانی کی قلت سے زیادہ خطرناک چیز پانی کی آلودگی ہے۔ روزانہ لاکھوں گیلن صنعتی فضلہ بغیر کسی فلٹریشن کے دریاؤں اور نہروں میں پھینکا جا رہا ہے۔ شہروں میں نکاسیٔ آب کا نظام انتہائی ناکارہ ہے، جس کی وجہ سے گندے نالوں کا پانی پینے کے پانی میں شامل ہو جاتا ہے۔ زرعی زمینوں پر استعمال ہونے والی زہریلی کھادیں اور اسپرے زیر زمین پانی کو آلودہ کر رہے ہیں۔ لوگوں کا رویہ بھی افسوسناک ہے۔ ندیوں میں کچرا پھینکنا، جانور نہلانا، یا کپڑے دھونا معمول کی بات بن چکی ہے۔ یہی آلودہ پانی ہیپاٹائٹس، ڈائریا، ٹائیفائڈ اور دیگر جان لیوا بیماریوں کا باعث بنتا ہے۔

پانی کے مسئلے نے نہ صرف داخلی سطح پر بحران پیدا کیا ہے بلکہ خارجی سطح پر بھی خطرناک کشیدگی کو جنم دیا ہے۔ حال ہی میں پاک بھارت تعلقات میں پانی ایک سنگین تنازعے کے طور پر ابھرا۔ بھارت نے بارہا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی، جو 1960ء میں عالمی ثالثی کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان طے پایا تھا۔ بھارت کی جانب سے دریائے چناب اور جہلم پر متعدد ڈیمز کی تعمیر اور پانی روکنے کی دھمکیاں پاکستان کے لیے وجودی خطرہ بن چکی ہیں۔ 2019ء میں پلوامہ حملے کے بعد بھارتی وزیراعظم نے واضح الفاظ میں کہا کہ "ایک ایک قطرہ پانی روکیں گے"۔ یہ اعلان دراصل ایک خاموش مگر مہلک جنگ کا آغاز تھا۔ اس بیان کے بعد پاکستانی عوام، ماہرین اور حکومت میں شدید تشویش پائی گئی۔ اس کشیدگی نے دونوں ممالک کو جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا تھا۔

بھارت کا آبی جارحیت کی جانب رجحان نہ صرف خطے کے امن کے لیے خطرہ ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی تشویش کا باعث ہے۔ ماہرین بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ اگلی جنگیں تیل یا بارود پر نہیں بلکہ پانی پر ہوں گی۔ اگر خطے کے ممالک نے پانی کے مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا، تو برصغیر ایک ایٹمی جنگ کی زد میں آ سکتا ہے، جس کے اثرات پوری دنیا پر ہوں گے۔ اس لیے عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدے کی مکمل بحالی اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائے تاکہ پانی کو جنگ کا ذریعہ بنانے کے بجائے امن اور ترقی کا وسیلہ بنایا جا سکے۔

پاکستان میں پانی کے ضیاع میں عوام اور حکومت دونوں برابر کے شریک ہیں۔ ہمارے معاشرے میں پانی کو ایک "مفت اور لا محدود" چیز سمجھا جاتا ہے۔ گھروں میں نل کھلے چھوڑ دیے جاتے ہیں، مساجد میں وضو کے دوران پانی ضائع ہوتا ہے، کھیتوں کو ضرورت سے زیادہ سیراب کیا جاتا ہے اور سروس اسٹیشنز پر پینے کے پانی سے گاڑیاں دھوئی جاتی ہیں۔ حکومت کی جانب سے کچھ اقدامات ضرور کیے گئے، مثلاً 2018 میں قومی واٹر پالیسی کا اعلان، لیکن عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔

ہمیں فوری اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ پانی کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ عوامی سطح پر آگاہی مہمات، نئے ڈیمز کی تعمیر، صنعتی فضلے کی صفائی، زرعی شعبے میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اور پانی کی معاشی قدر طے کرنا اب ناگزیر ہو چکا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جیسے فن لینڈ، آئس لینڈ اور نیوزی لینڈ میں صاف پانی کا نظام مثالی ہے۔ ان ممالک نے پانی کو قانون، نظم اور شعور سے محفوظ بنایا ہے۔ ہمیں بھی ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔

اب وقت آ چکا ہے کہ ہم بطور قوم بیدار ہوں۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ پانی زندگی ہے اور اس کی حفاظت فرض ہے۔ اگر ہم نے آج بھی غفلت کی تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ ہمیں اپنی روزمرہ زندگی، گھروں، دفاتر، کھیتوں اور اداروں میں پانی کو بچانے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ ہمیں سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر پانی کو قومی سلامتی کا مسئلہ سمجھنا ہوگا۔

آخر میں، یہ بات ذہن نشین کر لیجیے کہ پانی کو بچانا صرف ماحولیاتی فریضہ نہیں بلکہ قومی بقا کی جنگ ہے۔ پانی کو اگر ہم نے آج محفوظ نہ کیا تو یہ جنگ میدانوں میں نہیں بلکہ گھروں میں لڑنی پڑے گی پیاس، بیماری اور تباہی کی صورت میں۔ لہٰذا آئیں، آج ہی سے پانی کی قدر کریں، اسے بچائیں، دوسروں کو بھی آگاہ کریں اور اپنی نسلوں کو ایک صاف اور محفوظ پاکستان دیں۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan