Mazhabi Ham Ahangi Aur Taj Islamic Research Centre Gujranwala
مذہبی ہم آہنگی اور تاج اسلامک ریسرچ سنٹر گوجرانوالا

ہم جس معاشرے میں جی رہے ہیں، وہاں اختلاف رائے کو دشمنی، سوال کو گستاخی اور مکالمے کو کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ بات بات پر فتویٰ، معمولی بات پر لیبلنگ اور خبر کے بجائے افواہ کو فروغ دینا ہماری روزمرہ زندگی کا معمول بنتا جا رہا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی ادارہ شعور، تحقیق، سوال اور دلیل کی بات کرے تو وہ اس مردہ فضا میں تازہ ہوا کا جھونکا ہوتا ہے۔ کل بروز اتوار آرگنائزیشن آف ریسرچ اینڈ ایجوکیشن (ORE) کی جانب سے منعقدہ ورکشاپ نے یہی تازگی فراہم کی، جو تاج اسلامک ریسرچ سنٹر میں منعقد ہوئی۔
یہ کوئی عام پروگرام نہیں تھا۔ یہ ایک بصیرت افروز، علمی اور فکری نشست تھی جس کا مقصد صرف مذہبی یا معاشرتی شعور کو اجاگر کرنا نہیں بلکہ صحافت اور ابلاغِ عامہ سے وابستہ افراد کی تربیت اور رہنمائی کرنا بھی تھا کہ وہ اپنے قلم، کیمرے اور مائیک کو معاشرتی ہم آہنگی کے فروغ کا ذریعہ بنائیں، نہ کہ انتشار اور نفرت کا ہتھیار۔ اس ورکشاپ میں نوجوان صحافی، لکھاری، کالم نگار اور مذہبی اسکالرز شریک تھے اور یہ اجتماع بلاشبہ ایک فکری تحریک کی مانند تھا۔
تاج اسلامک ریسرچ سنٹر، جو کہ گوجرانوالہ کے معروف بزنس مین اور سابق صدر چیمبر آف کامرس سعید احمد تاج کی علمی بصیرت کا مظہر ہے، اب تحقیق، مکالمہ اور تعلیم کا ایک مضبوط قلعہ بن چکا ہے۔ اس ادارے کی انفرادیت یہ ہے کہ یہاں نہ صرف مذہبی علوم کی تدریس ہوتی ہے بلکہ معاشرتی علوم، تنقیدی فکر اور جدید فکری موضوعات کو بھی زیر بحث لایا جاتا ہے۔ سعید احمد تاج نے اس ادارے کی بنیاد اخلاص، علم، برداشت اور شراکت داری پر رکھی، جس کی جھلک ہر پروگرام، ہر نشست اور ہر مکالمے میں نظر آتی ہے۔
اس نشست کا مقصد مذہبی اور معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا۔ اس پر زور دیا گیا کہ مذہب ایک امن، برداشت اور محبت کا پیغام ہے، جسے ہم نے اپنی تنگ نظری اور تعصبات کے باعث نفرت کا آلہ بنا لیا ہے۔ مختلف مکاتب فکرکے درمیان اختلافات کو خندقیں بنانے کے بجائے پل بنایا جائے۔ یہ بات واضح کی گئی کہ مسالک اور مذاہب کے تنوع کو ختم کرنا ممکن نہیں، مگر ان میں رواداری، باہمی عزت اور مکالمے کے ذریعے ہم آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر محمد اکرم اعوان کی گفتگو نے اس ورکشاپ میں فکری گہرائی بھر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ علم کا آغاز سوال سے ہوتا ہے اور سوال علم کی روح ہے۔ اگر ہم سوال سے ڈرتے رہے تو تعصب ہمارا مقدر بن جائے گا۔ انھوں نے زور دیا کہ ہمیں ایسے سوالات کرنے چاہئیں جو سچ کی طرف رہنمائی کریں اور ایسی تحقیق کو فروغ دینا چاہیے جو معاشرے میں مثبت تبدیلی لائے۔ انھوں نے خبروں کے ذرائع پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جو معاشرہ خبر کی تصدیق کے بجائے اس کے اثرات پر یقین کرے، وہ بہت جلد اپنے ہی تعصبات کا شکار ہو جاتا ہے۔
مکالمے کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے کالمسٹ ایسوسی ایشن کے صدر عتیق انور راجہ نے کہا کہ معاشرتی ہم آہنگی کی بنیاد مکالمہ ہے۔ مکالمہ صرف بات چیت نہیں بلکہ شعور، عزت، فہم اور برداشت کا نام ہے۔ انھوں نے میڈیا سے وابستہ افراد کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی تحریروں اور خبروں میں وہ مواد شامل نہ کریں جو معاشرے میں نفرت کو ہوا دے یا مختلف طبقات کو آپس میں لڑائے۔ انھوں نے کہا کہ صحافی محض خبر دینے والا نہیں، بلکہ وہ معاشرتی مزاج کا معمار ہوتا ہے۔
اس ورکشاپ کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں میڈیا نمائندوں اور صحافیوں کی صلاحیت سازی پر بھی خاص توجہ دی گئی۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ صحافی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو تعصب سے پاک رکھیں۔ خبر کی تصدیق، تنقیدی تجزیہ اور غیر جانب داری صحافت کے بنیادی اصول ہیں جن کی پامالی نے معاشرے میں بے چینی اور انتشار کو فروغ دیا ہے۔ یہ ورکشاپ اس پہلو پر بھی روشنی ڈالتی رہی کہ کس طرح میڈیا کبھی کبھی دانستہ یا نادانستہ طور پر نفرت انگیز تقاریر کا آلہ کار بن جاتا ہے اور اس کی روک تھام کے لیے ادارہ جاتی اور انفرادی سطح پر شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔
سعید احمد تاج نے اپنے خطاب میں خاص طور پر نوجوان نسل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تنقیدی شعور کی ضرورت ہے۔ صرف معلومات حاصل کرنا کافی نہیں، بلکہ ان معلومات کو جانچنے، پرکھنے اور سچ کو جھوٹ سے الگ کرنے کی صلاحیت ہی اصل علم ہے۔ انھوں نے اسلام کی اصل روح کو سمجھنے پر زور دیا اور کہا کہ اگر ہم صرف نماز، روزے اور رسومات تک محدود رہیں گے اور ان کے پیچھے موجود فلسفے کو نہ سمجھیں گے تو ہم صرف رسم پرست مسلمان بنیں گے، باعمل مسلمان نہیں۔
اس ورکشاپ میں بتایا گیا کہ مذہبی تنوع کو ختم کرنا ممکن نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو مختلف رنگ، زبان، قوم اور مذہب میں پیدا کیا ہے، تاکہ وہ ایک دوسرے کو پہچانیں، نہ کہ ایک دوسرے سے نفرت کریں۔ یہی پیغام قرآن کا ہے، یہی تعلیمات رسول اکرم ﷺ کی سنت کا حصہ ہیں اور یہی وہ پیغام ہے جو ہمیں اپنے قلم، کیمرے اور الفاظ کے ذریعے عام کرنا ہے۔ اگر میڈیا اس تنوع کو خوبصورتی، طاقت اور ثقافتی ورثے کے طور پر پیش کرے تو بہت سے تعصبات اور فتنوں کا خاتمہ ممکن ہے۔
آرگنائزیشن آف ریسرچ اینڈ ایجوکیشن کی یہ کاوش اس لیے بھی قابلِ تعریف ہے کہ اس نے صرف نظریاتی باتیں نہیں کیں بلکہ ایک عملی، منظم اور نتیجہ خیز نشست کا انعقاد کیا، جس کے نتائج آنے والے وقت میں دیکھنے کو ملیں گے۔ یہ ادارہ اپنی پالیسیوں، تحقیقاتی سرگرمیوں اور فکری رہنمائی سے معاشرے کے ہر طبقے کو شامل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ ہم ایک ایسا ماحول قائم کر سکیں جہاں سوال کرنے والا گستاخ نہ ہو، اختلاف رکھنے والا دشمن نہ ہو اور دلیل دینے والا بے وقوف نہ سمجھا جائے۔
ہمیں ایسے مزید اداروں اور شخصیات کی ضرورت ہے جو معاشرے میں فکری اور اخلاقی شعور بیدار کریں۔ صحافیوں کی تربیت ہو، کالم نگاروں کی ذمہ داری کا تعین ہو، تعلیمی اداروں میں تنقیدی شعور کی تربیت ہو اور میڈیا کو بطور سماجی معمار تسلیم کیا جائے۔ یہ ورکشاپ اس سمت ایک روشن قدم ہے۔ اگر ہم اس روش کو اپنالیں، اس سوچ کو پھیلائیں اور اس جذبے کو جاری رکھیں تو وہ دن دور نہیں جب ہمارا معاشرہ انتہا پسندی، عدم برداشت اور تعصب کے بجائے علم، تحقیق، ہم آہنگی اور برداشت کی تصویر بن جائے گا۔

