Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Bilal Ahmed Batth
  4. Maholiyati Bohran Aur Pakistan Ka Mustaqbil

Maholiyati Bohran Aur Pakistan Ka Mustaqbil

ماحولیاتی بحران اور پاکستان کا مستقبل

دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی ایک ایسا سنگین مسئلہ بن چکی ہے جس نے انسانی زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ یہ تبدیلی محض درجہ حرارت میں اضافہ تک محدود نہیں بلکہ اس کے اثرات زراعت، پانی کی دستیابی، انسانی صحت، معیشت اور قومی سلامتی تک پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک ان اثرات کا سب سے زیادہ شکار ہیں حالانکہ ان کا عالمی کاربن کے اخراج میں حصہ بہت کم ہے۔ قدرتی وسائل پر انحصار کرنے والی معیشت اور کمزور انفراسٹرکچر پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے سامنے غیر محفوظ بنا رہا ہے۔

گزشتہ دس سالوں کے دوران پاکستان نے موسمیاتی تبدیلی کے جن اثرات کا سامنا کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ 2010 سے لے کر اب تک ملک نے درجنوں شدید نوعیت کے موسمی سانحات کا سامنا کیا ہے۔ 2010 کا تباہ کن سیلاب، جو تقریباً دو کروڑ افراد کو متاثر کر گیا، صرف ایک آغاز تھا۔ اس کے بعد تقریباً ہر سال ملک کے کسی نہ کسی حصے میں شدید بارشیں، گلیشیئر کے پگھلنے سے پیدا ہونے والے سیلاب، قحط سالی، شدید گرمی اور شدید سردی کی لہر دیکھی گئی۔ 2022 کا سیلاب تو گویا ایک قومی سانحہ تھا جس میں ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آ گیا، سینکڑوں جانیں ضائع ہوئیں، لاکھوں گھر اجڑ گئے اور اربوں ڈالر کا نقصان ہوا۔ سندھ اور بلوچستان جیسے صوبے خاص طور پر بری طرح متاثر ہوئے۔

حکومت پاکستان نے اگرچہ کچھ اقدامات کیے ہیں جیسے بلین ٹری سونامی، پروگرام، نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی اور عالمی سطح پر اقوام متحدہ کے پلیٹ فارمز پر ماحولیاتی انصاف کا مطالبہ، لیکن ان اقدامات میں تسلسل اور شفافیت کی کمی اکثر تنقید کی زد میں آتی ہے۔ پالیسی سازی اور اس پر عملدرآمد کے درمیان بڑا خلا موجود ہے۔ اکثر پالیسیز صرف دستاویزات کی حد تک محدود رہتی ہیں اور زمینی سطح پر ان کا کوئی خاطر خواہ اثر نظر نہیں آتا۔ مقامی حکومتوں کے پاس وسائل اور تربیت کی کمی کے باعث وہ موسمیاتی اثرات سے نمٹنے میں ناکام رہتی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کی کئی وجوہات ہیں جن میں سب سے نمایاں گرین ہاؤس گیسوں کا بڑھتا ہوا اخراج ہے۔ دنیا بھر میں کوئلہ، تیل اور گیس جیسے فوسل فیولز کا استعمال جاری ہے جو فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر مضر گیسیں چھوڑتے ہیں۔ جنگلات کی بے دریغ کٹائی، صنعتی فضلہ، گاڑیوں کی آلودگی، غیر منصوبہ بند شہری ترقی اور زرعی زمینوں میں کیمیکل کے استعمال نے ماحولیاتی توازن کو بگاڑ دیا ہے۔ پاکستان میں درختوں کی کٹائی، گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا اور پانی کی قلت جیسے عوامل اس تبدیلی کو مزید تیز کر رہے ہیں۔

آنے والے وقت میں پاکستان کو کئی سنگین چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔ سب سے بڑا خطرہ پانی کی قلت ہے۔ رپورٹوں کے مطابق پاکستان 2030 تک پانی کی شدید قلت والے ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکتا ہے۔ گلیشیئرز کے پگھلنے سے پہلے تو پانی کی فراوانی اور بعد میں شدید قلت کا سامنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ زراعت پر بھی شدید اثر پڑے گا کیونکہ بارشوں کا نظام غیر متوقع ہو جائے گا، فصلیں متاثر ہوں گی، خوراک کی قلت پیدا ہو سکتی ہے اور دیہی آبادی کو شہروں کی طرف ہجرت پر مجبور ہونا پڑے گا۔ یہ ہجرت شہری انفراسٹرکچر پر مزید دباؤ ڈالے گی اور غربت، بے روزگاری اور سماجی مسائل کو جنم دے گی۔ صحت کے مسائل، خاص طور پر ہیٹ ویوز، ڈینگی اور پانی سے پھیلنے والی بیماریاں بھی بڑھیں گی۔

موسمیاتی تبدیلی کے ان اثرات سے بچاؤ اب محض ایک انتخاب نہیں بلکہ ناگزیر ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہمیں بطور قوم اپنے طرز زندگی میں تبدیلی لانی ہوگی۔ انفرادی سطح پر درخت لگانا، پلاسٹک کا کم استعمال، توانائی کی بچت اور صاف توانائی کے ذرائع کی طرف رجوع کرنے جیسے اقدامات اپنانا ہوں گے۔ تعلیمی اداروں میں ماحولیاتی تعلیم کو فروغ دینا ہوگا تاکہ نئی نسل کو اس مسئلے کی سنجیدگی کا شعور ہو۔ زرعی شعبے میں جدید طریقے اپنانے ہوں گے تاکہ کم پانی میں زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکے۔ شہروں کی منصوبہ بندی ازسرنو کرنی ہوگی تاکہ گرین بیلٹس، نکاسی آب کے نظام اور پبلک ٹرانسپورٹ پر توجہ دی جا سکے۔

حکومتی سطح پر ضروری ہے کہ ماحولیاتی تحفظ کو قومی سلامتی کے برابر اہمیت دی جائے۔ کلائمیٹ چینج کے لیے بجٹ میں واضح حصہ رکھا جائے، مقامی حکومتوں کو مالی اور تکنیکی طور پر مضبوط بنایا جائے اور ماحولیاتی پالیسیوں کو نافذ کرنے کے لیے آزاد اور بااختیار ادارے قائم کیے جائیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر موسمیاتی انصاف کے لیے آواز بلند کرتے رہنا ہوگا تاکہ ترقی یافتہ ممالک اپنی ذمہ داری تسلیم کرتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کو مالی امداد فراہم کریں۔

عالمی برادری کو بھی اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اگر موسمیاتی تبدیلی پر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مہاجرین کے بحران، تنازعات اور معیشتوں کے انہدام جیسے مسائل جنم لیں گے۔ کاربن کے اخراج میں کمی، ماحولیاتی منصوبوں میں سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کی منتقلی جیسے اقدامات فوری طور پر درکار ہیں۔

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ زمین ایک مشترکہ اثاثہ ہے۔ اس کا تحفظ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے۔ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرات ہمیں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وقت کم ہے اور کام بہت۔ اگر ہم نے ابھی سے اپنی پالیسیاں اور رویے نہ بدلے تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ ہم تاریخ کا حصہ بنیں گے یا اس کے تماشائی۔ موسمیاتی جنگ میں غیر جانبداری کی کوئی گنجائش نہیں۔

موسمیاتی تبدیلی ایک ایسا مسئلہ ہے جو آنے والی نسلوں کی بقا سے جڑا ہوا ہے۔ یہ صرف ماحولیاتی نہیں، بلکہ ایک سماجی، معاشی اور اخلاقی بحران ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ اس مسئلے کو صرف قدرتی آفت نہیں، بلکہ انسانی پیدا کردہ بحران سمجھے اور اس کے حل کے لیے سنجیدہ، جامع اور طویل المدتی اقدامات کرے۔ کیونکہ اگر آج ہم نے قدرت کی زبان نہ سمجھی، تو کل شاید قدرت ہمیں سننے کے قابل بھی نہ چھوڑے۔

Check Also

Youtube Automation, Be Rozgar Nojawano Ka Badalta Mustaqbil

By Syed Badar Saeed