Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Bilal Ahmed Batth
  4. Kya Sirf Jangen Jeetna Kafi Hai?

Kya Sirf Jangen Jeetna Kafi Hai?

کیا صرف جنگیں جیتنا کافی ہے؟

چند روز قبل پاکستانی قوم نے ایک بار پھر اپنی فوج کی جرأت و بہادری پر فخر کیا۔ ایک ایسا دشمن جس کی عسکری طاقت، معیشت اور عالمی پشت پناہی ہم سے کئی گنا زیادہ ہے، اسے منہ توڑ جواب دے کر پاکستانی افواج نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ یہ قوم نہ کمزور ہے، نہ بزدل اور نہ ہی کسی بیرونی جارحیت کو خاموشی سے برداشت کرے گی۔ یہ بلاشبہ ایک بڑی فتح تھی، عسکری لحاظ سے، جذبے کے لحاظ سے اور سفارتی سطح پر بھی۔

یہ لمحہ یقیناً قابلِ فخر ہے، لیکن کیا ہماری قوم کے لیے صرف یہی فتوحات کافی ہیں؟ کیا ہم نے ریاست کا فرض صرف سرحدوں کی حفاظت تک محدود کر دیا ہے؟ کیا ہم نے قومی ترقی اور فلاحِ عامہ کو مکمل طور پر نظرانداز کر دیا ہے؟

یہ سوالات آج ہر باشعور شہری کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔

کیونکہ سچ یہ ہے کہ ہم سرحد پر تو دشمن کو شکست دے چکے ہیں، لیکن اندرونِ ملک کئی ایسی جنگیں ہیں جو ابھی شروع ہی نہیں ہوئیں۔ غربت، بھوک، بے روزگاری، تعلیم کی کمی، صحت کی بدحالی، انصاف کی عدم دستیابی، قانون شکنی اور آئین سے بے وفائی۔ یہ وہ محاذ ہیں جہاں دشمن کوئی بیرونی طاقت نہیں، بلکہ ہمارا اپنا نظام، ہمارے اپنے رویے اور ہماری غفلت ہے۔

پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، ایک عظیم فوج رکھتا ہے، لیکن کیا ہماری معیشت بھی اتنی مضبوط ہے؟ کیا ہم اقوامِ عالم کی فہرست میں کسی باوقار مقام پر کھڑے ہیں؟ ہماری کرنسی دن بدن گرتی جا رہی ہے، افراطِ زر قابو سے باہر ہے اور عام آدمی کی زندگی ایک عذاب بن چکی ہے۔ بنیادی اشیاء ضروریہ جن میں آٹا، چینی، گھی، سبزیاں اور دوائیں شامل ہیں، عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔ پٹرول اور بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ غریب اور متوسط طبقے کی کمر توڑ چکا ہے۔

ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشی جنگ کون لڑے گا؟ کیا ہماری پارلیمنٹ، جو آئے دن سیاسی تماشوں کا اکھاڑہ بنی ہوتی ہے، کبھی عوام کی فلاح کے لیے کوئی مؤثر پالیسی وضع کرے گی؟ کیا ہمارے سیاستدان کبھی سنجیدگی سے سوچیں گے کہ ملک کے کروڑوں لوگ کس حال میں زندگی گزار رہے ہیں؟

جمہوریت کا حسن صرف انتخابات کا انعقاد نہیں ہوتا، بلکہ عوامی خدمت، احتساب، شفافیت اور ادارہ جاتی مضبوطی اس کا اصل جوہر ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں جمہوریت کا مطلب محض اقتدار کی منتقلی رہ گیا ہے، وہ بھی خاندانوں کے درمیان۔ آئین، جو کسی بھی ریاست کی بنیاد ہوتا ہے، آج سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ پارلیمنٹ کی بالا دستی، عدلیہ کی آزادی، میڈیا کی خودمختاری یہ سب محض کتابی باتیں رہ گئی ہیں۔

دوسری جانب ہماری تعلیمی حالت بھی کسی المیے سے کم نہیں۔ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ تو موجود ہیں، مگر تعلیم نہیں۔ پرائیویٹ ادارے تعلیم کو کاروبار بنا چکے ہیں۔ ایک متوسط گھرانے کے لیے اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دینا ایک خواب بن چکا ہے۔ ہسپتالوں کا حال بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں ادویات نہیں ملتیں، ڈاکٹر وقت پر نہیں آتے اور پرائیویٹ اسپتال عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔

ہمارے ہاں انصاف صرف طاقتور کے لیے دستیاب ہے۔ غریب کی فریاد تھانے، کچہری اور عدالتوں میں سنی ہی نہیں جاتی۔ مقدمات سالوں لٹکتے رہتے ہیں اور انصاف وہی پاتا ہے جس کے پاس وسائل ہوں۔ یہ کیسی ریاست ہے جہاں مظلوم کو انصاف کے لیے صدائیں دینا پڑتی ہیں اور ظالم دندناتا پھرتا ہے؟

اگر ہم بین الاقوامی منظرنامے پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم تنہائی کا شکار ہو چکے ہیں۔ ہمارا پاسپورٹ دنیا کے کمزور ترین پاسپورٹس میں شمار ہوتا ہے۔ ہمارے شہریوں کو دنیا کے بیشتر ممالک ویزا دینے سے بھی ہچکچاتے ہیں۔ یہ صرف خارجہ پالیسی کی ناکامی نہیں، بلکہ قومی عزت و وقار کی سطح کا پیمانہ بھی ہے۔ عزت جنگیں جیتنے سے نہیں، عوام کو باعزت زندگی دینے سے حاصل ہوتی ہے۔

ہمیں اپنے قومی بیانیے پر نظرِ ثانی کرنا ہوگی۔ ہم کب تک دشمن کے خوف میں جیتے رہیں گے؟ کب تک ہر ناکامی کو بیرونی سازش قرار دیتے رہیں گے؟ کب تک قومی وسائل کا بڑا حصہ دفاع پر خرچ ہوتا رہے گا، جب کہ تعلیم، صحت اور معیشت پسِ پشت چلے جائیں گے؟

وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اب داخلی محاذ پر توجہ دیں۔ ہمیں چاہیے کہ ایک قومی ایجنڈا ترتیب دیں جس کا مرکز صرف اور صرف عوامی فلاح ہو۔ ہمیں پالیسیوں میں تسلسل، اداروں میں اصلاحات، کرپشن کے خاتمے، تعلیم کے فروغ اور انصاف کی فراہمی کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔

اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارا سیاسی طبقہ مخلص ہو، صرف اقتدار نہیں، خدمت کا جذبہ رکھتا ہو۔ بیوروکریسی میرٹ پر کام کرے، عدلیہ آزاد ہو اور میڈیا سچ بولنے کی ہمت رکھتا ہو۔ نوجوانوں کو مواقع دیے جائیں، چھوٹے کاروباروں کی حوصلہ افزائی ہو اور زراعت و صنعت کو بیک وقت ترقی دی جائے۔

یہ سب کچھ نا ممکن نہیں۔ اگر ہم جنگ میں ایک متحد قوم بن سکتے ہیں تو تعمیرِ وطن کے لیے بھی ایک ہو سکتے ہیں۔ مگر اس کے لیے عزم، دیانت، نیت اور قربانی درکار ہے۔

یاد رکھیں، جو قومیں اپنی عوام کو بھوکا، بیمار اور ناخواندہ چھوڑ کر صرف توپ و تفنگ پر فخر کرتی ہیں، وہ وقتی طور پر تو دنیا کی توجہ حاصل کر لیتی ہیں، مگر تاریخ میں انہیں کبھی عزت نہیں ملتی۔

اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہمیں صرف جنگیں جیتنی ہیں یا قوم بھی بننا ہے؟

Check Also

Pablo Picasso, Rangon Ka Jadugar

By Asif Masood