Khubsurti Tarteeb Ka Doosra Naam
خوبصورتی، ترتیب کا دوسرا نام

خوبصورتی ہمیشہ سے انسان کو لبھاتی رہی ہے۔ قدرتی مناظر، آرٹ، خوش الحانی، خوش پوشی، یہ سب خوبصورتی کی نمائندہ علامتیں ہیں، لیکن جب ہم کسی ملک، شہر، یا معاشرے کو "خوبصورت" کہتے ہیں تو یہ صرف اس کی ظاہری دلکشی کی بات نہیں ہوتی۔ اصل میں خوبصورتی نظم و ضبط، صفائی، ترتیب اور قانون کی حکمرانی کا دوسرا نام ہے۔ وہ سڑکیں جو سیدھی اور محفوظ ہوں، وہ بازار جہاں شور شرابہ نہ ہو، وہ رہائشی علاقے جہاں سکون اور سہولت ہو، یہی خوبصورتی کے وہ گوشے ہیں جن کی اصل پہچان ترقی یافتہ اقوام سے ملتی ہے۔
دنیا کے تمام مہذب ممالک میں کمرشل اور رہائشی زونز کا باقاعدہ تعین ہوتا ہے۔ شہر کے ماسٹر پلان بنائے جاتے ہیں، جن کی روشنی میں ترقیاتی کام، تعمیرات اور تجارتی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ وہاں پر کوئی بھی شخص کسی بھی جگہ محض اپنی مرضی سے دکان کھول کر کھانے پینے کا سامان نہیں بیچ سکتا۔ نہ ہی کوئی مکان خرید کر اسے ہال یا ہاسٹل میں تبدیل کر سکتا ہے۔ ان کے ہاں قانون صرف کاغذی حکم نامہ نہیں بلکہ ایک زندہ، فعال اور ناقابلِ نظرانداز حقیقت ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر آپ امریکہ، کینیڈا یا یورپ کے کسی بھی ملک میں جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ ہر محلے میں مخصوص مقاصد کے لیے مخصوص سہولیات رکھی گئی ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء کے لیے الگ مارکیٹس، الیکٹرانکس کی الگ مارکیٹس، میڈیکل اسٹورز کے لیے الگ علاقوں کا تعین، حتیٰ کہ دوکان کے سائز، سائن بورڈ، صفائی کے معیار اور کسٹمر سروس تک سب کچھ ریگولیٹڈ ہوتا ہے۔ ان تمام شعبوں کے پیچھے ایک مکمل انفراسٹرکچر، ایک فعال نگرانی کا نظام اور ایک باشعور عوامی رویہ ہوتا ہے۔
اب اگر ہم اپنے پیارے ملک پاکستان کی بات کریں، تو صورتحال بالکل اس کے برعکس ہے۔ یہاں کا کوئی شہری اگر مکان خریدتا ہے تو وہ اس کی چھت پر ایک اور منزل تعمیر کر لیتا ہے، یا نیچے دوکانیں بنا دیتا ہے۔ اسے کوئی پوچھنے والا نہیں، نہ کوئی پوچھنے کی جرات کرتا ہے۔ رہائشی علاقوں میں دھڑا دھڑ موبائل شاپس، کیبل آفس، بیوٹی پارلر اور سبزی کی ریڑھیاں کھل گئی ہیں۔ نالیوں میں گندگی، فٹ پاتھ پر قبضے اور پارکنگ کی جگہ پر چھابڑی والوں کا راج ہے۔ ایک طرف مکان ہے تو ساتھ ہی ایک شور مچاتا جنریٹر، ایک چکن سینٹر اور دوسری طرف کوڑا دان۔
میڈیکل اسٹور کے اندر موبائل فون کی دوکان اور مچھلی فروش کے پاس گنے کا جوس، یہ سب کچھ اس معاشرے کی اس بدنظمی کی عکاسی کرتے ہیں جسے ہم نے "روٹین" کا نام دے کر قبول کر لیا ہے۔ ہم نے قانون کو تالا لگا دیا ہے اور خود کو آزادی کا نعرہ دے کر مادر پدر آزاد کر لیا ہے۔
شاہراہوں کی بات کریں تو جی ٹی روڈ جیسے قومی اہمیت کے راستے کے دونوں طرف بے شمار ریڑھیاں کھڑی ہوتی ہیں۔ بعض اوقات گاڑیوں کو اتنی کم جگہ ملتی ہے کہ حادثہ یقینی ہو جاتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ہلاکتیں ہو رہی ہیں، مگر ان ریڑھی والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی کیونکہ "روزگار" کا نعرہ انسانی جانوں سے مقدم ہو چکا ہے۔ حالانکہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ روزگار دے، مگر قانون کے دائرے میں رہ کر، نظم و ضبط کے ساتھ۔
ہم مغربی دنیا کی تعریف کرتے ہیں، ان کی صفائی، ان کی ٹریفک، ان کے بازار، ان کی عمارات، ان کی گلیاں، سب کچھ ہمارے لیے مثال بن چکا ہے۔ مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس خوبصورتی کے پیچھے دہائیوں کی جدوجہد، سخت قوانین اور ہر شہری کا شعور شامل ہے۔ وہاں کوئی دوکان بغیر اجازت کے نہیں کھل سکتی، کوئی سائن بورڈ ضابطے کے بغیر نہیں لگ سکتا، کوئی کاروبار بغیر رجسٹریشن کے شروع نہیں ہو سکتا۔
ہمارے ہاں اس کے برعکس، آپ کسی بھی شہر میں چلے جائیں، آپ کو ہر طرف بدنظمی کا راج ملے گا۔ رہائشی پلاٹ پر شادی ہال، مدرسے کے اندر دکانیں، مساجد کے ساتھ مارکیٹیں اور پارکوں میں کار شو روم۔ یہ بدنظمی صرف نظر کو گدلا نہیں کرتی بلکہ ایک ذہنی اذیت بھی پیدا کرتی ہے۔ معاشرے کے اندر بے چینی، بے ہنگامی اور شورش کا بڑا سبب یہی بے ترتیبی ہے۔
ہم کہتے ہیں پاکستان جنت نظیر ملک ہے۔ واقعی، قدرت نے ہمیں ہر نعمت دی ہے، لیکن اس نعمت کو ہم نے بدنظمی کے زہر سے آلودہ کر دیا ہے۔ خوبصورتی بکھری ہوئی ہے مگر ترتیب ندارد۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ترقی سڑکیں بنانے سے نہیں آتی، نہ ہی اونچی عمارتیں کسی قوم کو عظیم بناتی ہیں۔ ترقی نظم و ضبط، شہری شعور، قانون کی حکمرانی اور اجتماعی ذمہ داری سے آتی ہے۔ آج اگر بنگلہ دیش، ویتنام، روانڈا جیسے ممالک ہم سے آگے نکل رہے ہیں، تو اس کی وجہ صرف ان کا معاشی ماڈل نہیں بلکہ ان کا اجتماعی نظم ہے، ان کی سادگی اور سنجیدگی ہے۔
ہمیں اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کب تک اس بے ترتیبی کو برداشت کریں گے؟ کب تک ہم اپنے گھروں کو دوکانیں، پارکوں کو گیراج اور فٹ پاتھ کو بازار بننے دیں گے؟ کب ہم شہری منصوبہ بندی کو سنجیدگی سے لیں گے؟ کب ہم لائسنس کے بغیر کاروبار کرنے پر روک لگائیں گے؟ کب ہم اس خاموش بدنظمی کے خلاف آواز بلند کریں گے؟
آج بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں۔ حکومت، مقامی ادارے، سول سوسائٹی اور ہر شہری کو مل کر اس بے ترتیبی کے خلاف عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ شہری نقشہ جات کو نافذ کیا جائے، رہائشی اور کمرشل زونز میں فرق برقرار رکھا جائے اور قانون کی عملداری ہر صورت ممکن بنائی جائے۔
ورنہ وہ وقت دور نہیں جب ہم ترقی کی بجائے تنزلی کے اندھیروں میں مکمل طور پر گم ہو جائیں گے۔ خوبصورتی صرف سجاوٹ سے نہیں آتی، خوبصورتی ترتیب سے آتی ہے۔ ایک منظم معاشرہ ہی وہ معاشرہ ہوتا ہے جہاں ہر شخص کو سکون، تحفظ اور فخر محسوس ہوتا ہے۔
آئیں، آج سے یہ عہد کریں کہ ہم نہ صرف اپنے اطراف کو خوبصورت بنائیں گے، بلکہ اپنے رویوں، اپنی سوچ اور اپنے سماجی ڈھانچے کو بھی ترتیب دیں گے، کیونکہ جناب۔
خوبصورتی، درحقیقت، ترتیب کا دوسرا نام ہے۔

