Aurat Ka Koi Ghar Nahi Hota
عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا

عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔ وہ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک، زندگی کے ہر موڑ پر، ہر لمحہ، ہر موسم میں صرف ایک ہی تمنا کے ساتھ جیتی ہے کہ کاش کبھی اس کا بھی کوئی گھر ہو۔ لیکن بدقسمتی سے، اس کی یہ خواہش محض ایک خواب بن کر رہ جاتی ہے۔ بچپن میں جب وہ ابھی کھیلنے کودنے کی عمر میں ہوتی ہے، تب ہی اس کے کانوں میں یہ بات ڈال دی جاتی ہے کہ "بیٹی پرائی امانت ہے"۔ یہ جملہ سادہ سا لگتا ہے، لیکن درحقیقت یہ اس کی شخصیت پر ایسا گہرا نقش چھوڑ جاتا ہے کہ وہ ساری عمر خود کو پرایا ہی سمجھتی ہے۔ اپنے ہی گھر میں اجنبی، اپنے ہی کمرے میں مسافر، اپنے ہی وجود میں بے چینی کی تصویر۔
جب وہ ذرا بڑی ہوتی ہے، تو والدین کے رویے میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے۔ اچانک اس کی ہر حرکت پر نظر رکھی جانے لگتی ہے، اسے محدود کیا جانے لگتا ہے اور زندگی کو ایک نئے سانچے میں ڈھالنے کی تیاری شروع ہو جاتی ہے۔ شادی کے خواب دکھائے جاتے ہیں، اس سے کہا جاتا ہے کہ اب تمہارا اصلی گھر وہ ہوگا جہاں تمہاری شادی ہوگی۔ اس نئے گھر کی امید دلائی جاتی ہے، لیکن اس امید کے پیچھے ایک تلخ حقیقت چھپی ہوتی ہے جس کا اسے اندازہ شادی کے بعد ہی ہوتا ہے۔
جب عورت کی شادی ہوتی ہے، تو وہ اپنے دل میں خوشی کے ساتھ ایک سکون کا خواب بھی لے کر جاتی ہے کہ اب یہ میرا گھر ہوگا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ شادی کے فوراً بعد ہی وہ ایک ایسی دنیا میں داخل ہو جاتی ہے جہاں ہر چیز پہلے سے طے شدہ ہوتی ہے، رسمیں، رشتے، روایات، اصول۔ جائینٹ فیملی سسٹم میں اسے اپنی مرضی سے سانس لینا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ اسے ہر وقت یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ یہاں کی مستقل مکین نہیں، بلکہ مہمان ہے اور اس کا اصل کام دوسروں کو خوش رکھنا ہے، چاہے وہ خود اندر سے ٹوٹتی چلی جائے۔
ایک عورت اپنی سسرال میں سالوں گزار دیتی ہے، بچوں کی پرورش کرتی ہے، ہر دکھ سہتی ہے، ہر قربانی دیتی ہے، مگر پھر بھی اسے یہ سننے کو ملتا ہے کہ "یہ گھر تمہارے شوہر کا ہے"، "یہ تمہارا نہیں ہے"، "ہم نے صرف تمہیں رکھا ہوا ہے"۔ وہ ساری زندگی اس احساس تلے دب کر گزار دیتی ہے کہ کاش یہ میرا بھی گھر ہوتا جہاں میں اپنی مرضی سے جیتے، ہنستی، سوتی، جاگتی، گاتی۔
اگر قسمت مہربان ہو اور شوہر اچھا ہو، تو وہ کسی حد تک زندگی گزار لیتی ہے، مگر اگر شوہر دنیا سے رخصت ہو جائے تو اس کا حال مزید ابتر ہو جاتا ہے۔ اب وہ نہ مکمل بیوہ مانی جاتی ہے اور نہ مکمل ساس یا ماں۔ سسرال والے اس پر بوجھ سمجھنے لگتے ہیں اور والدین کے گھر واپسی بھی ممکن نہیں ہوتی، کیونکہ وہاں بھی اس کا خیر مقدم کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ بعض اوقات تو یہ بھی سننے کو ملتا ہے کہ "اب ہمارے پاس تمہارے لیے جگہ نہیں"۔
پھر وہ اپنے بیٹے کی طرف دیکھتی ہے، خواب بنتی ہے کہ جب بیٹا بڑا ہوگا، تو وہ مجھے اپنے ساتھ رکھے گا، میرا خیال رکھے گا اور ہم اپنا الگ گھر بنائیں گے۔ لیکن وقت گزرتا ہے، بیٹا جوان ہوتا ہے، شادی کرتا ہے، اپنی زندگی میں مصروف ہو جاتا ہے اور عورت ایک بار پھر پیچھے رہ جاتی ہے، خوابوں، تمناؤں اور ایک گھر کی تلاش کے ساتھ۔ یوں وہ دائروں میں گھومتی رہتی ہے۔ ہر دائرہ اسے ایک نئے دروازے پر لے جاتا ہے، مگر وہ دروازہ کبھی مکمل طور پر اس کے لیے نہیں کھلتا۔
کبھی کبھی تو وہ پرائے گھر سے نکال دی جاتی ہے اور والدین کے گھر بھی اسے بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ بھائی کہتے ہیں کہ اب تمہارا یہاں کیا کام؟ شوہر کا گھر چھوڑ آئی ہو تو اب اپنے بچوں کے ساتھ رہو۔ بچوں کی اپنی زندگیاں ہوتی ہیں، اپنے مسائل اور وہ اپنی ماں کو ایک "ذمہ داری" سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ عورت ہر رشتے میں صرف دیتی ہے، مگر بدلے میں کچھ نہیں پاتی، نہ سکون، نہ اپنائیت، نہ تحفظ۔ بیٹی ہو تو گھر پر بوجھ، بیوی ہو تو خدمت گزار، ماں ہو تو قربانی کا پیکر، ساس ہو تو بے وقت کی مداخلت اور آخرکار ایک بوجھ جو ہر کوئی اتار پھینکنا چاہتا ہے۔
بچاری عورت ساری عمر "گھر" کی تلاش میں بے گھر رہتی ہے۔ اس کا کوئی کمرہ نہیں ہوتا جہاں وہ آنکھیں بند کرکے سکون سے سو سکے، کوئی کونہ نہیں جہاں وہ تنہائی میں اپنے آنسو بہا سکے، کوئی دیوار نہیں جہاں وہ اپنی تمنائیں چپکے سے لکھ سکے اور کوئی در نہیں جس پر "میرا گھر" لکھا جا سکے۔ زندگی بھر کی یہ تلاش تب ہی ختم ہوتی ہے جب اسے قبر میں اتارا جاتا ہے، وہ پہلی جگہ جہاں کوئی اس سے یہ نہیں کہتا کہ "یہ تمہارا گھر نہیں"۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف برصغیر کی عورت کا مقدر ہے؟ یا دنیا کے دیگر معاشرے بھی اسی ستم سے گزر رہے ہیں؟ شاید ہر جگہ حالات مختلف ہوں، لیکن برصغیر کی عورت کی کہانی خاص طور پر زیادہ دردناک ہے کیونکہ یہاں کے رسم و رواج عورت کو انسان سے زیادہ ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ یہاں بیٹی پیدا ہو تو والدین کو فکر ہونے لگتی ہے، لڑکی جوان ہو تو عزت کی پگڑی اس کے سر پر رکھ دی جاتی ہے اور شادی کے بعد وہ اس پگڑی کا بوجھ ساری عمر اٹھاتی ہے۔
معاشرے کے ٹھیکیداروں سے سوال ہے کہ اگر مرد کا گھر ہو سکتا ہے، تو عورت کا کیوں نہیں؟ کیا عورت کا کوئی حق نہیں کہ وہ بھی ایک ایسے گھر کی مالک ہو جہاں اس کی مرضی چلے، جہاں وہ عزت سے جی سکے، جہاں اس کے وجود کو تسلیم کیا جائے؟ اگر بیٹی کو پرایا کہہ کر پالنا ہے، تو پھر اسے پیدا کیوں کیا جاتا ہے؟ اگر شادی کے بعد بھی وہ اجنبی ہے، تو پھر رشتہ داری کی کیا اہمیت ہے؟ اگر ماں بننے کے بعد بھی اس کا کوئی مقام نہیں، تو پھر اس قربانی کا صلہ کیا ہے؟
خدارا، رحم کرو۔ عورت کو بھی جینے کا حق دو۔ اس کے اندر بھی دل ہے، جذبات ہیں، خواب ہیں۔ اسے صرف بیٹی، بیوی، ماں، بہو کے رشتوں میں نہ پرکھو، اسے انسان سمجھو۔ اسے اپنے گھر میں محبت دو، عزت دو، تحفظ دو۔ اسے کسی انسان کے حوالے کرو، محض ایک معاشرتی فریضہ ادا کرکے نہیں۔ یہ مت سوچو کہ آپ نے اپنا فرض پورا کر دیا، بلکہ یہ سوچو کہ کہیں آپ کی دی گئی ذمہ داری، وہ ساری عمر قرض سمجھ کر تو نہیں نبھاتی رہی۔
معاشرہ اگر واقعی ترقی یافتہ ہونا چاہتا ہے، تو سب سے پہلے عورت کو اس کا حق دینا ہوگا، ایک گھر کا حق، جو صرف اینٹ اور پتھر سے نہ بنا ہو، بلکہ محبت، اپنائیت اور تحفظ سے لبریز ہو۔ وہ گھر جہاں وہ ہنس سکے، جی سکے، رو سکے اور مرنے سے پہلے کہہ سکے کہ "یہ میرا گھر ہے"۔

