Shadion Main Takeer Ka Riwaj
شادیوں میں تاخیر کا رواج
ہمارے سماج میں برادری کے رواج پر اتنی شدت سے عمل کیا جاتا ہے جیسے یہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کا حکم ہو جس کی سرتابی کرنا گناہ کبیرہ ہوگا۔ چاہے اس رواج پر عمل کرنے میں کئی لوگوں پر ظلم ہی کیوں نہ ہوتا ہو اور چاہے اُنکی زندگی برباد ہی کیوں نہ ہو جائے۔۔ لیکن ہماری جھوٹی انا کو کہیں سے نیچا نہ ہونا پڑے خواہ اس کے لیے انسان کی بھینٹ ہی چڑھانی پڑے۔
کئی برادریوں میں نوجوانوں کی شادی میں بلا مقصد ہی تاخیر کی جاتی ہے۔۔ اس تاخیر کےلیے کئی بہانے موجود ہیں۔۔ اگر کوئی لڑکا یا لڑکی ہمت کرکے گھر والوں کے ساتھ شادی کی بات کر بیٹھے تو اسے طعنے دیئے جاتے ہیں بے شرم بے حیا اور بہت کچھ کہا جاتا ہے۔
مادہ پرست سوچ کی وجہ سے ہم شادیوں میں تاخیر کرتے جاتے ہیں کہ لڑکا کچھ کما لے۔۔ جاب یا کاروبار سیٹ کر لے۔۔ پھر شادی کریں گے۔۔ اسی طرح لڑکی کو پڑھایا لکھایا ہے تو وہ کہیں جاب کرکے اپنی پڑھائی کا خرچہ واپس کرے اور ساتھ اپنا جہیز بنانے میں بھی سپورٹ کرے۔۔
شاید ایسے والدین (یا والدین کی وفات کے بعد بڑے بھائی اور سرپرست) ابھی تک ستر اور اسی کی دھائی سے آگے نہیں بڑھ سکے اور ٹیکنالوجی کے سیلاب کی تباہ کاریوں کا اندازہ نہیں لگا سکے۔ پیسے کمانے کی غرض سے اولاد کی باقی ضروریات سے آنکھیں بند کرنے سے وہ ضروریات ختم نہیں ہو جائیں گی۔ اگر جائز راہ میسر نہیں ہوگی تو پھر چوری چھپے غلط راستہ اپنانا آج کے دور میں کوئی مشکل نہیں رہا۔
اسی طرح بعض فیملیز میں رواج یہ ہے کہ بڑے کی شادی ہوگی تو چھوٹوں کی باری آئے گی۔۔ اب بڑے یا بڑی کی شادی میں کسی وجہ سے کوئی تاخیر یا رکاوٹ ہے تو اس کی سزا باقیوں کو کیوں دی جائے۔۔ یہ کس دین اور قانون میں لکھا ہے کہ پہلے بڑوں کی لازمی ہوگی تو چھوٹے کی بات چلے گی۔
بھئی جس کی ہونے کا امکان بن رہا ہے اسکی تو کرو اللہ بڑے کےلیے بھی کوئی سبب پیدا کر دے گا۔ لیکن نہ جی۔۔ ہماری برادری میں یہی رواج ہے۔۔ چاہے اس رواج پر عمل کرتے چھوٹے کسی غلط راستے پر چل نکلیں۔۔ وہ ہضم کر لیں گے۔۔ لیکن جو جائز طریقہ ہے وہ ہمیں اور ہماری برادری کو قبول نہیں۔۔
تف ہے ایسے فرسودہ رواجوں پر۔۔ جو فطرت اور دین کے خلاف جاتے ہوں۔۔
بندے کو اس دنیا میں ایک ہی زندگی ملنی ہے اور اس کا بھی بڑا حصہ ایسے ہی مجرد گزار دیا جائے تو انسان نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔۔ ہمارے سماج کے جو حالات ہیں یہاں خاص طور پر بڑی عمر کی لڑکی کو آسانی سے قبول نہیں کیا جاتا۔
پیسے اور اپنے رواجوں کے پیچھے بھاگنے کی بجائے بچوں کی جلد شادی کو فروغ دیں تاکہ معاشرے سے نفسیاتی مریضوں کی تعداد میں کمی ہو سکے۔