1.  Home/
  2. Blog/
  3. Basharat Hamid/
  4. Paltu Janwar

Paltu Janwar

پالتو جانور

بچپن میں مجھے مرغیاں، بطخیں، بکریاں پالنے کا بہت شوق تھا۔ ہمارے ایک ملازم نے قسطوں پر ٹی وی لیا ہوا تھا اس کے لئے قسطیں دینا مشکل ہوا تو مجھے کہا کہ قسطوں کے پیسے تم دے دو اور ان کے عوض میرے پاس بکری ہے وہ لے لو۔

یوں اس بکری کا سودا تب سات سو روپے میں طے پایا اور بکری میرے پاس آ گئی۔ قسطوں والے پیسے ابا جی سے لے کر دے دیئے۔ اس بکری نے ہمارے پاس کافی وقت گزارا اور کئی بچے دیئے۔

شروع میں اسے صبح کے وقت کھول دیتے وہ سارا دن ادھر اُدھر چر چُگ کر شام کو واپس گھر آ جاتی تھی۔ پھر ایک دو بار وہ گم ہوئی اور اسے تلاش کرنا پڑا تو اس کے بعد اسے یوں کھلا چھوڑنا بند کر دیا اور اس کے لئے چارے کا روزانہ انتظام اباجی نے خود کرنا شروع کر دیا۔

ہمارے ساتھ ایک صاحب بزنس کرتے تھے وہ بار بار ابا جی سے کہیں کہ یہ بکری مجھے دے دیں۔ اباجی نے اس کے اصرار پر اسے کہا ٹھیک ہے لے جاؤ۔ وہ صاحب بکری لے تو گئے لیکن دوسرے ہی روز واپس دے گئے۔ کہنے لگے بھئی یہ بکری آپ ہی کو مبارک ہو یہ نہ کچھ کھا رہی ہے نہ پی رہی ہے بس اونچا اونچا بولے جا رہی ہے۔ اسے میں نے بہت کہا کہ میری بھی اسی طرح داڑھی ہے اور میں نے عینک بھی لگائی ہوئی ہے (ابا جی کی داڑھی بھی تھی اور عینک بھی لگاتے تھے) لیکن یہ نہیں مان رہی۔ یوں وہ بکری پھر ہمارے پاس واپس آ گئی۔

کچھ عرصہ بعد اچانک بیمار ہوگئی تو پھر نا چاہتے ہوئے بھی اسے ذبح کرنا پڑا۔ اس کا گوشت کھانے کو ہمارا دل ہی نہ کیا کہ اس کے ساتھ بہت انسیت تھی۔

پالتو پرندے اور جانور رکھنے والے لوگ بھی دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو انہیں پال کر گوشت پیدا کرکے پیسہ کمانا چاہتے ہیں ایسے لوگ دل کے سخت ہو سکتے ہیں۔۔

دوسرے وہ لوگ ہیں جو شوقیہ پالتے ہیں اور انہیں اپنے گھروں میں رکھتے ہیں ان کے بارے میں میرا مشاہدہ تو یہی ہے کہ وہ رحم دل ہوتے ہیں۔ باقی ہر انسان کا اپنا مزاج اور ماحول بھی اس کی شخصیت پر اثرانداز ہوتا ہے۔

Check Also

Lums Ne Urdu Zuban Ke Liye Darwaze Khol Diye

By Mohsin Khalid Mohsin