Zuban Aur
زبان اور۔۔
سب سے پہلے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ عمران خان صاحب سے اختلاف کے باوجود، حالیہ آڈیو لیکس کے آنے سے پہلے، میں یہ سمجھتا تھا کہ وہ حقیقتاً اپنے پلے بوئے والے دنوں سے باہر آچکے ہیں۔ جب وہ کہتے تھے کہ میں نے دین سے قربت اختیار کرکے ماضی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے تو میں یقین کرتا تھا کہ یہ شخص صحیح کہہ رہا ہے۔ اور دیکھا جائے تو جمائمہ سے شادی کے بعد انہوں نے بڑی کامیابی سے اس بات کو چھپائے رکھا کہ وہ پلے بوئے جو پوری دنیا میں مشہور تھا وہ اب یہ سارے کام ڈھکے چھپے انداز میں کر رہا ہے۔ لیکن حالیہ فحش آڈیو لیکس نے ان کا پورا مکروہ چہرہ میرے اور پوری قوم کے سامنے عیاں کردیا۔
وہ لوگ جو ابھی بھی عمران خان کی حمایت میں سر گرم عمل ہیں، میں انہیں رسول اللہ ﷺکی ایک حدیث سنانا چاہوں گا۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: "لوگوں میں سب سے بدترین مقام اللہ کے نزدیک اس بندے کا ہے جو اپنی آخرت دوسرے کی دنیا کی خاطر برباد کرے۔ "(ابن ماجہ، حدیث3966) اللہ کا واسطہ ہے، اس بندے کی اصلیت کو جانیں اب۔ یہ شخص ملک کی بہتری کو اپنی نگاہ میں رکھتا ہے اور نہ ہی آپ کے مفاد کو۔ یہ شخص نرگسیت کی عمدہ مثال ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ شخص فتنہ ہے اور فحش حرکتوں کا مرتکب، آپ کیسے اس کے حق میں بات کرسکتے ہیں؟
پھر عجیب و غریب حیلے بہانے پیش کیے جارہے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ نجی معاملہ ہے، اس کو زیر بحث نہ لائیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ آڈیوز جعلی ہیں۔
با خدا اگر ہم لوگوں کی ایسی آڈیوز آتیں جب کہ ہم مشہور ہوتے تو ہم نے سب سے پہلے اپنی بے گناہی کو ثابت کرنے کے پیچھے بھاگنا تھا۔ لیکن نہیں۔ کسی ایک آڈیو لیک کی بھی فورینزک نہیں کروائی گئی اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے۔ کیونکہ معلوم ہے کہ اگر اس راستے پر گئے تو اخلاقی جواز ہم کھو بیٹھیں گے۔ بچے بچے کو پتہ ہے نقلی اور اصلی آڈیو اور وڈیو میں کیا فرق ہوتا ہے۔ جب کوئی فلم بھی دیکھ رہے ہوں آپ تو پتہ چل جاتا ہے، حالانکہ بڑے ماہر ایڈیٹرز نے ایڈٹنگ کی ہوتی ہے، کہ فلم کاکونسا منظر حقیقتاً کیمرہ سے لیا گیا ہے اور کونسا ایڈٹنگ کا پیدا کردہ ہے۔ یہ کہنا کہ جی یہ سب جعلی آڈیوز ہیں، صرف آپ کی چوری اور بداخلاقی کو مزید ثابت کرتی ہے۔ پھر تو آپ کے مخالفین بھی کہتے ہیں کہ ہم صاف ہیں۔ آپ نہیں مانتے نا؟ کیوں؟ کیونکہ محض کہہ دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ثبوت چاہیے ہوتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ "نجی معاملہ ہے" والی بات نہیں چلے گی۔ دوسرے ممالک، جن کی مثال خود عمران خان، ان کی جماعت اور حامی ہمیں دیتے ہیں، وہاں بھی یہ نجی معاملہ نہیں ہوتا جب آپ سیاست میں داخل ہوتے ہیں یا اقتدار کے خواہشمند ہوتے ہیں۔
سابق امریکی صدر جمی کارٹر اپنی کتاب"دا ورچیوز آف ایجنگ" (ص80) میں لکھتے ہیں کہ 1976ء کی اپنی صدارتی انتخابی مہم کے وقت ایک اعتراف کیا جس کی وجہ سے وہ تقریباً انتخابات میں ہارنے والے تھے اور ان کی مقبولیت میں بھی کمی ہوئی۔ وہ اعتراف کیا تھا؟ نہیں نہیں ان کی کوئی بے ہودہ آڈیو یا وڈیو سامنے نہیں آئی۔ نہ ہی انہوں نے کسی خاتون کے ساتھ کوئی فحش گفتگو کی۔ بس اتنا انہوں نے مانا کہ اپنی اہلیہ سے شادی کرنے سے پہلے، وہ دوسری عورتوں کو لذت بھری نگاہ سے دیکھتے تھے، بس۔ لیکن اس کے باوجود بھی بہت سے لوگوں نے ان کی اس بات کا برا منایا۔ ان کی مقبولیت گری۔ اور بقول جمی کارٹر، وہ انتخابات میں ہارتے ہارتے بچے۔
بل کلنٹن کا مونیکا لووینسکی کے ساتھ جو معاملہ تھا اس پر بھی سوال کیا گیا۔ کسی نے نہیں کہا یہ نجی مسئلہ ہے۔
ابھی موجودہ صدر جو بائڈن کے بیٹے کی کئی فحش تصاویر اور وڈیوز منظر عام پر آئیں (انہوں نے اپنا لیپ ٹاپ کسی کو ٹھیک کرنے کے لیے دیا اور ٹھیک کرنے والے نے وہ لیپ ٹاپ ایف بی آئی کو دے دیا کیونکہ کئی بدعنوانی کے قصے اس میں درج تھے اور فحش مواد بھی)۔ جب صدارتی انتخابات ہورہے تھے اور اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیموکریٹک جماعت کے امیدوار جو بائیڈن کے ساتھ بحث کے دوران مکالمہ کیا تو اس بات کو بار بار دہرایا۔ حتی کہ جو بائیڈن کے بیٹے کے منشیات کے عادی ہونے پر بھی آج کے صدر بائڈن کو آڑے ہاتھوں لیا۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ نجی معاملہ ہے۔ کیونکہ جب آپ ملک کو چلانے کے اور اس کی نمائندگی کے اور اس کے خزانوں کے محافظ بنتے ہیں تولوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کے اندر کتنا صبر ہے، کس قدر آپ کو اپنے آپ پر قابو ہے۔ کوئی وجہ ہے کہ ان حرکات سے سارے دنیا کے مذاہب نے انسان کو اجتناب کرنے کے لیے کہا ہے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان چیزوں کو باہر نہیں آنا چاہیے، یا یہ کہ باہر آگئی ہیں یہ چیزیں تو پھیلائیں مت، وہ ڈھکے چھپے لفظوں میں کہہ رہے ہیں کہ جب تک آپ بند کمرے میں کچھ بھی کر رہے ہیں، سب چلتا ہے۔ باہر آکر بے شک دودھ سے دھلے ہوئے ہوجائیں۔ منافقت کریں، لوگوں کو بھاشن دیں۔ بھئی یہ مانتے ہیں ہم کہ کوئی بھی فرشتہ نہیں۔ لیکن یہ کام عام گناہ کے زمرے میں نہیں آتا۔ بغیر نکاہ کے بچی پیدا کرنا، اور پھر کہنا میں کوئی فرشتہ تو نہیں کہ کوئی غلطی نہ کی ہو۔ اللہ اکبر! اب یہ بھی سننا تھا۔ بھئی میں بہت سے حسین و جمیل لوگوں کو جانتا ہوں، وہ بھی گناہ گار ہیں، لیکن کسی کی ایسی گفتگو اپنے قریبی لوگوں سے ہم نے نہ سنی، نہ ہی ان کی بغیر شادی کے اولادیں ہم نے دنیا کے مختلف کونوں سے دریافت کیں۔ چھوٹا گناہ ہر کوئی معاف کردیتا ہے۔ لیکن جن گناہوں پر سخت سزائیں دینے کا حکم ہے تو کوئی وجہ ہوگی۔ ورنہ اللہ سے زیادہ انسان سے کوئی محبت نہیں کرتا۔ لیکن رب نے سزا کاحکم دیا ہے کیونکہ یہ گناہ عام گناہوں کے اندر نہیں آتے۔
پھر جب آپ ریاست مدینہ کی بات کرتےہو، اپنے مخالف کو محض اس لیے نا اہل کرواتے ہو کہ اس نے جو تنخواہ اپنے بیٹے سے نہ لی اس کو ظاہر نہ کیا، جب آپ حضرت عمرؓ کی مثال دیتے ہو، جب آپ کہتے ہو میں عاشق رسول ﷺ ہوں، تو یہ معاملہ نجی نہیں رہتا۔ رسول اللہ ﷺسےجب سوال کیا گیا کہ "اکثر (لوگ)کس چیز کی وجہ سے دوزخ میں جائیں گے؟" تو انہوں نے جواب دیا: "منہ اور شرم گاہ کی وجہ سے۔ منہ سے بری باتیں نکالیں گے اور شرم گاہ سے حرام کریں گے۔ "(ابن ماجہ، حدیث 4246)
یہ بات تو پہلے سے واضح تھی کہ عمران خان کی زبان بے لگام ہے۔ وہ جو منہ میں آئے بول دیتے ہیں۔ خاتون جج کو دھمکی دیتے ہیں پھر اسی کے دفتر جاکر معافی مانگتے ہیں۔ 35 پنکچر والی بات بھی ایسے ہی کہہ دی بغیر کسی ثبوت کے، اور بعد میں کہا سیاسی بیان ہے۔ جس بندے کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا اسی کو وزیر اعلی بھی لگا دیا صوبے کا۔ جب منصور علی خان نے دوران انٹرویو ان سے پوچھا اس حوالے سے تو بولے کوئی اور بات کریں۔ اگر ہم ایسا بیان دے کر یہ کرتے تو ہزاروں دلیلیں پیش کرتے کہ کیسے ہم پہلے غلط تھے اور اب صحیح۔ لیکن عمران خان صاحب جو منہ میں آئے پہلے کہہ دیتے ہیں اور بعد میں شرم سے جھکنے کے بجائے مزید ڈھیٹ ہوجاتے ہیں۔ حتی کہ کوئی معقول وجہ یا بات بھی پیش نہیں کرتے۔ جو مخالف ہو اسے ڈاکو، چور، میر جعفر اور میر صادق کہہ دیتے ہیں۔ غداری اور شرک کے فتوے بھی بانٹتے ہیں۔
یہاں تک کہ انہوں نے خواتین کو بھی اپنی زہریلی زبان کا نشانہ بنایا۔ اسی سال مئی کے مہینے میں 20 تاریخ کو انہوں نے ملتان جلسے میں یہ الفاظ کہے۔ (میں چاہتا ہوں آپ ان کے ایک ایک لفظ کو غور سے سنیں اور پڑھیں۔)بولے: "اس (مریم نواز)نے اتنی دفع اور اس جذبے سے اور اس جنون سے میرا نام لیا کہ میں اس کو یہ کہنا چاہتا ہوں: مریم دیکھو، تھوڑا دھیان کرو، تمہارا خاوند ہی ناراض نہ ہوجائے جس طرح تم بار بار میرا نام لیتی ہو"۔ تو موصوف کی زبان کے بارے میں اس کے بعد کچھ کہنا فضول ہے۔ ان کی زبان بے لگام بھی ہے اور بے حیا بھی۔
لیکن اب شرمگاہ کا معاملہ بھی عیاں ہوگیا۔ لہذا، جو شخص اپنی زبان اور شرم گاہ کو قابو میں نہیں رکھ سکتا، وہ کیا مدینہ کی ریاست بنائے گا یا ملک کو نجات دے گا۔ پہلے تو اسے چاہیے کہ اپنی اصلاح کرے۔ جو اپنی اصلاح نہیں کرسکتے، وہ 22 کروڑ لوگوں کی کیا اصلاح کریں گے۔
آخر میں میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرکے اپنی گفتگو اور مضمون کو اختتام پزیر کروں گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:"جب تو شرم نہ کرے تو جو جی چاہے کر"۔ (ابن ماجہ، حدیث 4183)