Ye Mere Rab Ka Fazal Hai
یہ میرے ربّ کا فضل ہے
سورۃ الضحیٰ کی آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ "اپنے ربّ کی نعمتوں کا ذکر کیجیے"۔ آج میں وہ کام کرنے جا رہا ہوں۔ امید ہے میری قلم میرا ساتھ دے گی، اور میرے پیارے، معزز قارئین کرام بھی۔
یہ کالج کے دنوں کی بات ہے۔ مجھے میرے ایک استاد نے میسج کیا کہ کسی ضرورت مند کو پیسوں کی ضرورت ہے، اگر آپ کے پاس ہیں تو تھوڑی مدد کیجیے۔ استاد محترم نے سب کو یہ پیغام بھیجا۔ کتنوں نے دیا، مجھے نہیں معلوم لیکن یہ وہ وقت ہے جب میرے اندر دینے کی عادت نہیں تھی۔ شاید یہ پہلی بار تھا کہ میں نے اپنے پیسے کسی خیر کے کام پر خرچ کیے۔ میں نے استاد محترم کو کچھ پیسے دے دیے۔ جتنا ہو سکتا تھا میں نے کیا۔ اس وقت میں کماتا نہیں تھا۔ جیب خرچ پر گزارا ہوتا تھا۔
میں نے یہ کام کیا، اور یہاں سے ربّ کی نعمتوں کا سلسلہ رواں ہو گیا۔ میں اس وقت اپنے ایک دوست کے ساتھ روزانہ گھوما کرتا تھا۔ ہم چائے پینے جاتے، کبھی کچھ خریدنے، لیکن اتفاق سے ایک دن میں اس کے ساتھ نہیں تھا اور اسی دن اس کا پھڈا ہو گیا۔ جھگڑا اتنا بڑا تھا کہ پولیس کو مداخلت کرنی پڑی۔ میرا دوست حق پر بھی نہیں تھا۔ اگر میں اس کے ساتھ ہوتا، تو مجھے خوامخواہ غلط جھگڑے میں شریک ہونا پڑتا لیکن شاید میرے دینے کے عمل سے ربّ تعالیٰ اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے مجھے بچا لیا۔
پھر یونیورسٹی گئے۔ وہاں بھی ایک بار نہیں دو بار ایسے واقعات پیش آئے۔ میں مہران یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ وہاں اچانک ایک دن چند کامریڈ آئے اور بھتہ مانگنے لگے۔ کہا، ہم کل آئیں گے اور آپ سے پیسے لیں گے۔ اساتذہ اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنے رہے۔ خیر، اگلے دن وہ نہ آئے۔ نہ ہی اس کے بعد کئی دنوں تک۔ اچانک ایک دن میری طبیعت خراب ہو گئی اور میں یونیورسٹی نہیں جا پایا۔ دوسرے دن مجھے پتہ چلا کہ بہت بڑا مسئلہ ہوا تھا۔ دوستوں نے بتایا کہ وہ کامریڈ بھتہ مانگنے آئے۔
دو تین لڑکوں کی جیب سے زبردستی پیسے نکالے پھر ایک بہادر لڑکے نے ان کو روکا، مزید پھڈا ہوا۔ میں اس سارے تماشے سے محفوظ رہا۔ دوست کہنے لگے، کمینے! تجھے لوفروں نے اطلاع دی تھی کیا؟ میں انہیں کیا بتاتا کہ دینے کی وجہ سے میرے ربّ نے مجھ پر کرم نوازی کی ہے۔ ہمارے ایک استاد نے ہمیں سکھایا کہ کوئی اچھا کام کرو اور دیکھو کیسے تمہارا ربّ تمہیں نوازتا ہے اور یقین مانیے میں جتنا دیتا، اتنا میرا ربّ میری حفاظت کرتا اور میرے عیبوں پر پردہ ڈالتا۔
اسی طرح تین سالوں بعد پھر سے ایک دن مسئلہ ہو گیا بہت بڑا۔ وہی لڑکا جس نے لوفروں کو سبق سکھایا، وہ استاد سے الجھ پڑا۔ استاد نے اسے جماعت سے باہر نکلنے کا کہا، وہ نہ نکلا۔ پھر مزید بد نظمی ہوئی۔ میں اس دن بھی یونیورسٹی نہیں تھا۔ اسی طرح میری شادی 2018ء میں ہوئی۔ میں نے گھر والوں کو راضی کیا کیونکہ میں اس سال 25 سال کا ہونے والا تھا لہٰذا میں نے سوچا اس سال شادی کرتا ہوں۔
کیونکہ ہمارے محبوب، ہمارے آقا، محمد مصطفیﷺ کی بھی شادی 25 سال کے عمر میں ہوئی۔ لہٰذا میں نے گھر والوں سے ضد کی، پہلے تو نہ میرے گھر والے راضی تھے نہ لڑکی والے۔ خود میری اہلیہ ایک سال کا وقفہ چاہتی تھیں لیکن آخر میں میرے ربّ نے مری سن لی، سب مان گئے۔ 2019ء میں کچھ ایسا ہوا جس کا ذکر یہاں میں نہیں کر سکتا لیکن اگر 2018ء میں میری شادی نہ ہوتی، تو کبھی نہ ہوتی کیونکہ اس کے بعد معاملات ایسے ہوئے کہ شادی ناممکن ہو جاتی۔
مالی حوالے سے بھی وہ سال گھر کے لیے برا تھا لہٰذا شادی کیسے ہوتی؟ لیکن صحیح وقت پر ضد کر کے میں نے اپنی بات منوالی اور یہ سب اس لیے ہوا کہ میرے ربّ نے میرے اوپر فضل کیا۔ اس نے میرے اندر یہ ضد داخل کی کیونکہ 2018ء سے پہلے مجھے اتنی جلدی نہیں تھی۔ اچانک 2017ء کے آخر میں یہ بات میرے ذہن میں آئی اور پھر ضد میں تبدیل ہو گئی۔ اسی طرح پہلی بار میں نے اور میری اہلیہ نے 2020ء میں اپنی الگ رہائش گاہ حاصل کی۔ اس سے پہلے میں اپنے والدین کے گھر رہتا تھا۔
جنوری کے مہینے میں میں نے مالکِ فلیٹ سے معائدہ کیا کرائے کا۔ فیبروری میں منتقلی ہوئی اور اگلے ہی مہینے لاک ڈاؤن شروع ہوا اور کئی مہینوں تک ملک بند رہا، کاروبار، ٹرانسپورٹ وغیرہ سب کچھ۔ میں سوچتا ہوں اگر تھوڑی دیر ہو جاتی ہمیں تو ہمیں کتنا نقصان ہوتا۔ ہم نے سامان خریدا، اسے فلیٹ منتقل کیا، پھر بہت سارا کام کرایا۔ اگر بیچ میں لاک ڈاؤن آ جاتا تو ہمارا کیا بنتا؟ الٹا مالک فلیٹ کو کرایہ دینا پڑتا۔ اوپر سے میرا ایڈوانس بھی پھنسا رہتا۔
ابھی پچھلے سال کی بات ہے میں نے اپنی گاڑی بیچی کیونکہ پیسوں کی ضرورت تھی۔ پھر دو تین مہینے رکشوں میں سفر کرتا رہا۔ شہر سے باہر جانے کے لیے کرائے پر گاڑی لیتا لیکن پھر میرے ایک دوست نے کہا، "فلاں گاڑی پر اون کم ہے۔ جلدی بینک سے تمہیں قرض لے دوں گاڑی کے لیے؟" وہ بینک میں کام کرتا ہے لیکن میرے پاس گاڑی کی ڈاؤن پیمنٹ کے لیے بھی پیسے نہیں تھے۔ لیکن اسی وقت میرے دادا سسر نے مدد کی۔ انہوں نے مجھے رقم قرض حسنہ کے طور پر دی اور پھر میں نے وہ رقم ڈاؤن پیمنٹ میں دے دی۔
گاڑی 29 لاکھ کی تھی جب بینک نے قرض دیا۔ جونہی میں نے گاڑی خریدی قرض پر، اس کی قیمت میں ایک سال میں 11 لاکھ کا اضافہ ہو گیا۔ دوسرا یہ کہ میں نے بینک کو 15٪ رقم ادا کی ڈاؤن پیمنٹ کی مد میں۔ لیکن پھر حکومت نے پالیسی تبدیل کر دی۔ آج کم از کم 30٪ دینا پڑتا ہے۔ میں نے حکومت کے فیصلے سے چند دنوں پہلے ہی گاڑی لیز کروائی تھی۔ اور الحمد اللہ 15٪ دے کر میرا کام ہو گیا اور جب میں نے گاڑی حاصل کی تب گاڑی پر اون چند ہزار روپے تھا۔ اب لاکھوں تک بات پہنچ گئی ہے۔
ھٰذا من فضل ربّی۔ (یہ سب میرے ربّ کا فضل ہے۔)
سب سے اہم بات: مجھے اللہ نے ایسی اہلیہ دی، جو میرے ساتھ ہر وقت کھڑی رہیں۔ جب میری تنخواہ 30، 000 روپے تھی تب بھی اور آج بھی جب میں ایک سیڈان گاڑی چلاتا ہوں۔ جب میں نے گاڑی بیچی اور رکشوں کے ذریعے سفر کرنا پڑا، تب میری اہلیہ نے شکایت نہیں کی۔ جب بھی قربّانی کا وقت آیا، انہوں نے میرا ساتھ دیا۔ پیسے آنے کے بعد بھی میری اہلیہ نے کبھی پیسے بے جا نہیں اڑائے۔ کبھی تکبر نہیں کیا بلکہ جہاں کسی کو دکھ درد میں دیکھتی ہیں، اس کی مالی مدد کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔
آج تک میں نے کبھی اپنی اہلیہ کو زیور نہیں لے کر دیا، منہ دکھائی پر کچھ اچھے کپڑے دیے۔ (ان کپڑوں کے لیے بھی میں نے اپنے ایک دوست سے قرض لیا تھا۔) روایت تو یہ ہوتی ہے کہ اس وقت کچھ زیور دیا جاتا ہے لیکن اس سب کے باوجود وہ خوش رہیں۔ کبھی شکایت نہیں کی۔ الٹا کئی بار جب مجھے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اپنے ذاتی مال سے میری مدد کرتی ہیں۔ اس سال مہنگائی، بڑھتے گھر کے کرائے اور گاڑی کی قسطوں کی وجہ سے ہم نے اپنے بہت ہی پرانے ملازم کو نوکری سے نکال دیا۔
یہ ہمارے لیے بہت مشکل تھا لیکن ہم بھی کیا کرتے۔ میری اہلیہ نے اس وقت بھی میرا ساتھ دیا۔ جب ہم سوچ رہے تھے کہ ملازم کو نکالیں یا نہیں تو ایک دن انہیں فجر کی نماز کے بعد تسبیح پڑھتے ہوئے یاد آیا کہ یہ تسبیح تو حضور اکرم ﷺ نے اپنی بیٹی بی بی فاطمہؓ کو بطور تحفہ دی، جب بی بی فاطمہؓ نے انہیں نوکر یا ملازم کی سفارش کی۔ رسول اللہ ﷺنے کسی نوکر کے بجائے انہیں یہ تسبیح عنایت کی، اور اس دن کے بعد بی بی فاطمہؓ نے کبھی پھر یہ سفارش پیش نہ کی۔
میری اہلیہ نے کہا: اس سے ثابت ہوا کہ ہمیں خود گھر کے کام کرنے چاہییں۔ یا اللہ! تیرا لاکھ لاکھ شکریہ کہ تو نے اپنے اس حقیر بندے پر اتنا کرم کیا۔ میرے دوستو! میری خوش قسمتی کے واقعات بہت سارے ہیں۔ لیکن وقت کی قلت کے باعث صرف چند یادوں کو یہاں شمار کر سکا۔ مجھے امید ہے میری اس گفتگو میں پوشیدہ سبق آپ نے حاصل کر لیا ہو گا۔ مجھے اجازت دیجیے۔ اگلی بار ملاقات ہو گی۔ اللہ حافظ۔