Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Basham Bachani
  4. Waqt Hai, Sudhar Jaain

Waqt Hai, Sudhar Jaain

وقت ہے، سدھر جائیں

2019ء میں میں نے ایک مضمون لکھا تھا(عنوان:یہ بور نہیں ہوتی) جو "سخن کدا"ویب سائیٹ پر شائع ہوا تھا۔ اس میں میں نے لکھا تھا کہ "انسان جب شکر کرنا بھول جائے، جب وہ اپنے پاس رکھی ہوئی چیز کی قدر نہ کرے، تو اللہ اس سے وہ بھی چھین لیتا ہے جو اس کے پاس ہے۔ "پچھلے سال، 2022ء میں، میں نے اسی ویب سائیٹ پر ایک مضمون لکھا تھا (عنوان: کل اور آج اور ہمارا رویہ)، جس میں میں نے اخیر میں لکھا تھا کہ "وسائل کم نہیں ہمارے پاس۔ سب کچھ ہے، سوائے شکر کے۔ "

یہ جب میں نے لکھا تھا تب ملک میں سیلاب آیا تھا نہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران۔ آج کے ملک کے حالات سے کئی درجے بہتر حالات تھے۔ لیکن لوگوں کے دل اور زبان صرف شکایت کرنے پر ہی معمور تھے اور دوسرے ممالک کی ترقی دیکھ کر احساس کمتری کا شکار ہونے پر۔

اور یہ میں نے قرآنی تعلیمات کے پیش نظر لکھا تھا۔ قرآن میں بڑے واضح طور پر اللہ نے ناشکری کو کفر قرار دیا ہے۔ جہاں لفظ "شکر"قرآن میں آپ پائیں گے، وہیں اس کی ضد "کفر"کے لفظ کو پائیں گے۔

اللہ پاک فرماتے ہیں کہ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِى لَشَدِيدٌۭ"اگر تم شکر کروگے، تو میں تمہیں ضرور بڑھاؤں گا، لیکن اگر کفر(ناشکری)کروگے تو (یاد رکھو!)میرا عذاب شدید ہے۔ "(سورۃ ابراہیم، آیت7)اسی طرح فرمایا:فَٱذْكُرُونِىٓ أَذْكُرْكُمْ وَٱشْكُرُوا۟ لِى وَلَا تَكْفُرُونِ کہ "تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا۔ اور میرا شکر ادا کرو، اور کفر(ناشکری)نہ کرو۔ "(سورۃ البقرۃ، آیت152)یہاں تک فرما دیا کہ وَٱشْكُرُوا۟ لِلَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ۔ یعنی:شکر ادا کرو اللہ کا، اگر اکیلے اسی کی تم عبادت کرتے ہو۔ (سورۃ البقرۃ، آیت 172)

اب اس کے بعد مجھے نہیں لگتا کہ مجھے مزید کچھ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ شکر کتنی بڑی نعمت ہے اور ناشکری کتنی بڑی لعنت۔

اب ہم آتے ہیں آج کے حالات پر۔ ہمارے ملک کی معاشی صورت حال اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ کئی جگہوں پر پیڑول نہیں مل رہا۔ لوگ بہت زیادہ ہیں اور آٹے کے تھیلے بہت کم۔ کئی بیچارے واپس لوٹ جاتے ہیں۔ صنعتیں بند ہوتی جارہی ہیں اور کئی جو کام کر رہی ہیں وہ کئی لوگوں کو نوکری سے نکال رہی ہیں —تاکہ اس مشکل معاشی وقت کے گھاٹے کا ازالہ ہوسکے۔ کئی کارخانے اپنی پیداوار کو نصف یا اس سے بھی کم کر چکے ہیں۔ کئی کارخانے اور صنعتیں تو اب جب بند ہونگی تو واپس نہیں لوٹیں گی۔ ایک تہائی ملک ہمارا ڈوبا ہوا ہے۔ کئی زمینیں ابھی بھی زیر آب ہیں۔

اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ ابھی بھی ہم اسی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ہم ایک شکوے شکایت کرنے والی قوم بن چکے ہیں۔

بھئی!یہ ساری چیزیں جو اب ہاتھوں سے جارہی ہیں، وہ کل تک تھیں تب بھی ہم شکایت کرتے تھے، اور اب بھی کر رہے ہیں۔ کل بھی دوسرے ملکوں کی مثالیں دیتے تھے، اور آج بھی۔ کل بھی ملک پر لعن طعن کر تے تھے اور اب بھی۔ جب تک کوئی چیز ہمارے پاس ہوتی ہے اس کی قدر ہم کرتے نہیں۔ اور خدا کا قانون، جس کا ذکر ابھی میں کر چکا ہوں، کہ جتنی ناشکری ہوگی اتنی نعمت سے محرومی ہوگی، اس کا بھر پور مظاہر ہ ہم دیکھ رہے ہیں۔ لیکن پھر بھی نہیں سدھرتے۔ ہمیں نظر ہی نہیں آرہا کہ جتنی ہم شکایت کرتے ہیں، اتنا رب ہم سے نعمتیں چھینتا جارہا ہے۔

کسی بھی سیلاب متاثرین سے ملیں، وہ اپنی پچھلی زندگی کو یاد کرتا ہے۔ حالانکہ جب وہ پچھلی زندگی تھی، تب اس کی اتنی قدر نہیں تھی۔ کوئی میڈیا کا نمائندہ اگر قبل از سیلاب کے ان سے پوچھتا کہ "جی بتائیے آپ کے حالات کیسے ہیں؟"تو انہوں نے دہائی ہی دینی تھی۔ اور یہی چیز اہم ہے۔ کامیاب لوگ وہ ہیں جو نعمت کے چھن جانے کا انتظار نہیں کرتے اسے یاد کرنے کے لیے۔ نتیجہ یہ کہ اللہ انہیں مزید دیتا رہتا ہے۔ لیکن جن لوگوں کی گفتگو شروع شکایات سے ہوتی ہے اور اختتام بھی شکایات پر، وہ کبھی سکون میں نہیں رہتے۔ بے شک کتنی ہی دولت، تعلیم، شہرت اور طاقت وہ حاصل کرلیں۔

ایسے وقتوں میں ہمارے لوگ کس قسم کے نعرے مارتے ہیں، آپ اس سے اندازہ لگائیں ہم شعور کی کس نہج کو پہنچ چکے ہیں۔ "پاکستان زندہ باد نہیں پاکستان سے زندہ بھاگ!"یہ سوچ لے کر آپ جب کسی بھی قوم میں جائیں گے تو وہ آپ کی عزت کرے گی؟ یہی وجہ ہے کہ پاکستانیوں کے بارے میں دوسرے ملکوں میں بھی کچھ اچھے تاثرات نہیں ملتے۔ جب ہم خود اپنی عزت نہیں کرتے تو دوسرے ہماری کیا عزت کریں گے؟ دوسری قومیں آپ کے لیے مر نہیں رہیں۔ آپ وہاں بھی یہی گندی سوچ لے جائیں گے کہ جب تک حالات ٹھیک ہیں تو سب ٹھیک ہے، جونہی مشکل وقت آیا ہم بھاگ جائیں گے۔

مشکل وقت کس قوم پر نہیں آیا مجھے بتائیں؟ کیا ادھر کے لوگ یہ نعرے مارتے ہیں اور اپنے ملک کو ان لفظوں سے پکارنے لگتے ہیں؟ ہم نے تو کچھ دیکھا ہی نہیں۔ جاپان جیسے ملک کی ترقی ہم دیکھتے ہیں، کبھی پڑھیں کوموڈور پیری کے آنے سے پہلے ان کے حالات کیا تھے، کتنی غربت اور پسماندگی تھی وہاں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ان کے دو شہر جوہری دھماکوں کی نذر ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد فرنگستان(یورپ)کے کئی شہر ملبے کا ڈھیر بن گئے تھے، کچھ نہیں بچا تھا، لیکن کیا انہوں نے اپنے ملک کو یوں گالیاں دی تھیں؟ کہا تھا یہاں سے زندہ بھاگ؟

ابھی پچھلے سال کی بات ہے کہ امریکا سے نومولود بچوں کا ملک پاؤڈر ناپید ہوگیا۔ اب سوچیں یہ کتنا بڑا مسئلہ تھا۔ چھوٹے بچے کی تو واحد خوراک دودھ ہے، جب وہ ناپید ہوگیا تو ماؤں کے لیے کتنی مشکلات پیدا ہوئی ہونگی۔ لیکن آپ نیٹ پر جاکر دیکھیں کہ کیا وہاں لوگوں نے ایسے چیخیں ماریں جیسے ہمارے لوگ کسی مشکل آنے پر مارتے ہیں؟ وہاں کی میڈیا نے سنسنی پھیلائی؟ میں معتدد امریکی چینلز ملاحظہ کر رہا تھا اور حیران ہورہا تھا کہ سوپر پاور جیسے ملک میں یہ مسئلے ہوجاتے ہیں، لیکن وہاں کے لوگوں اور میڈیا اور دانشوروں کا رویہ ہمارے لوگوں سے مختلف تھا۔

یہی مشکل وقت ہوتا ہے جس میں کھرے اور کھوٹے کی تمیز معلوم ہوجاتی ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ کون کتنا صحیح ہے اور کون کتنا غلط۔

لیکن عام بندوں سے کیا شکوہ، جب پڑھے لکھے خوشحال لوگ بھی اس وقت بجائے ملک کے حالات کو سدھارنے کے لیے اپنا کچھ حصہ ڈالیں، وہ مزید ناشکری اور مایوسی پھیلا رہے ہیں۔ بلکہ میں نے دیکھا ہے، جتنا پڑھا لکھا اورمالی طور پر کامیاب کوئی پاکستانی ہوجائے، وہ اتنی مایوسی پھیلاتا ہے، اتنا ہی ناشکرہ ہوجاتا ہے۔

گاڑی میں وی لاگ بن رہا ہوگا، اے سی چالو ہوگا، اور کہیں گے کہ دیکھیں جی کتنے برے حالات ہیں ملک کے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ عام بندہ شکوہ کرے تو سمجھ بھی آتا ہے، لیکن آپ لوگوں کو تو اس ملک میں عزت ملی، دولت اور شہرت بھی۔ آپ کو تو شکر کا مظاہر ہ کرنا چاہیے۔ لیکن نہیں۔

جب تک گوروں کی خوشحالی نہیں ملے گی، چین اور جاپان جیسی فیکٹریاں اور گاڑیاں یہاں نہیں بنیں گی، ہم پاکستان کو، پاکستان میں موجود چیزوں کو گالیاں دیتے رہیں گے۔ اور پھر حیران بھی ہونگے کہ رحمت الہی کا ظہور کیوں نہیں ہوتا، اور ہمارے حالات کیوں نہیں بدلتے؟ بھئی!ایسے بدلیں گے حالات؟

چند ہفتوں پہلے ہمارے ایک نام نہاد دانشور، پرویز ہودبھئی کا کالم ڈان اخبار میں چھپا(مورخہ 28 جنوری، 2023ء)۔ ہود بھئی وہی کچھ لکھتے ہیں جو ہمارے اکثر دانشور لکھتے ہیں۔ کوئی نئی بات نہیں۔ بس دن رات احساس دلاؤ کہ کتنے پیچھے ہیں ہم، دوسرے کتنے آگے۔ لیکن کالم کی ایک عبارت پڑھ کر مجھے بہت افسوس ہوا۔ کالم کے چھٹویں پیراگراف میں موصوف نے لکھا کہ کیسے ٹاٹا نے انڈیا میں ایک سائنس کے ادارے کی بنیاد رکھی، اور لکھنے لگے کہ کیسے دوسرے معاشروں میں اشرافیہ تعلیمی اور سائنسی اداروں کی بنیاد رکھتی ہیں۔ پھر فرمانے لگے کہ "آپ بے سود پاکستان میں مارے مارے پھریں گے لیکن کوئی آپ کو سائنس اور آرٹس کے لیے چندہ دینے والا نہیں ملے گا۔ "

اس سے بڑی کوئی جہالت آپ کو نہیں ملے گی۔ بھارت کی مثال موصوف نے دے دی۔ لیکن ہمارے ملک کی" جی آئے کے"یونورسٹی کا ذکر کرتے ہوئے انہیں موت آگئی۔ یہ "جے آئے کے "یونیورسٹی پاکستان کے ساتویں صدر غلام اسحاق خان نے بنائی۔ لیکن مجال ہے کہ ہود بھئی جیسے لوگ اپنے ملک کی کوئی اچھی مثال پیش کرسکیں۔ اسی طرح نسٹ یونیورسٹی کی مثال لے لیجیے۔ نسٹ یونیورسٹی پاکستان کی افواج کے زیر نگرانی ہے۔ اسی طرح حبیب اور حمدرد یونیورسٹی کی مثال لے لیجیے۔ حبیب یونیورسٹی کی بنیاد حبیب گھرانے نے رکھی ہے۔ حبیب گھرانے کی دولت کے بارے میں کون نہیں جانتا۔ انہوں نے اپنی دولت کا استعمال کرکے یونیورسٹی تعمیر کی۔ لیکن بقول ہود بھئی، ہمیں یہاں کوئی بھی صاحب ثروت سائنس اور تعلیم کے لیے پیسے دینے والا نہیں ملے گا۔ ساتھ ساتھ حمدرد یونیورسٹی بھی شہیدحکیم محمد سعید نے بنائی۔ ایک پورا تعلیمی شہر تعمیر کیا۔ لیکن ہود بھئی کو دوسرے ملکوں کی مثالیں مل جاتی ہیں، اپنے ہی ملک کی مثالیں نہیں ملتیں۔ ان کو ٹاٹا کے کارنامے معلو م ہیں، لیکن اپنے محسنوں کا پتہ نہیں۔

پھر ہم حیران ہوتے ہیں کہ یہاں دولت مند اپنی دولت کا صحیح استعمال کیوں نہیں کرتے؟ اگر وہ کرتے ہیں تو آپ ان کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے، ان کی خدمات کو جانتے نہیں، حتی کہ دوسرے ملکوں کی مثالیں پیش کرتے ہوئے آپ ذرا نہیں شرماتے، لیکن اپنے نیک کام کرنے والوں کے کارناموں پر پردہ ڈالتے ہیں۔

قدرت کا اور منڈی کا ایک اٹل اصول ہے، جس چیز کی قدرو قیمت نہیں ہوگی وہ بازار سے غائب ہوجائے گی۔ آپ دکان دار ہوکر وہ چیز رکھیں گے جو کوئی نہ خریدنا چاہتا ہو؟ نہیں نا!تو جب اپنے محسنوں کو ہم یاد نہیں کرتے، جب یہاں اچھائی کرنے والوں کی ہم قدر نہیں کرتے، جب یہاں موجود نعمتوں کا ذکر نہیں کرتے، تو حیران کیوں ہوتے ہیں کہ ملک سے خوشحالی کیوں دور بھاگ رہی ہے؟

ابھی بھی وقت ہے۔ ہمیں مجموعی طور پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ ان مشکل حالات میں جو کچھ موجود ہے، چاہے وہ کاروبار ہوں جو چل رہے ہیں، نوکریاں اور ٹیکس فراہم کر رہے ہیں، چاہے وہ سرکاری افسران ہوں جو ایمانداری سے کام کر رہے ہیں، چاہے وہ ادارے ہوں جو پیداوار مثالی دے رہے ہیں، چاہے وہ ہسپتالیں ہوں اور تعلیمی ادارے، جو لوگوں کو ان مشکل حالات میں صحت اور تعلیم مہیا کر رہی ہیں، چاہے وہ شاہراہیں ہوں جو ہماری آمد و رفت کو آسان بنا تی ہیں۔۔ ہم ان ساری باتوں پر رب کا شکر کریں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ جو کامیاب ادارے اور افراد ہیں ان کی نشاندہی ہم کریں۔ دوسرے ملکوں کی مثالیں یہاں دینا فضول ہے۔ وہ لوگ آپ کے ملک کو نہیں چلائیں گے یا سدھاریں گے۔ یہاں بے شمار کامیاب کہانیاں موجود ہیں۔ ان کی طرف توجہ دیں۔ اچھائی کی قدر کریں گے تو وہ بڑھے گی۔ ورنہ جیسے کہ میں نے فرمایا، جس چیز کی قدرو قیمت نہیں ہوگی، وہ ناپید ہوجائے گی۔

کسی بھی پاکستانی سے ملیں۔ ملک کی برائیوں کا اسے علم ہوگا۔ وہ انگلیوں پر گن گن کر ملک کی ناکامیاں گنوائے گا۔ لیکن اس سے پوچھیں شعیب سلطان خان کون ہے؟ پوچھیں امجد ثاقب کون ہے؟ پوچھیں شہید حکیم محمد سعید کون تھا اور اس نے کیا کیا؟ پوچھیں کاروان علم فاؤنڈیشن کیا ہے؟ پوچھیں کہ ان مشکل حالات میں جو کاروبار موجود ہیں، جو لوگوں کو روزگار دے رہے ہیں، ان کے بارے میں کچھ فرماؤ، تو وہ خاموش ہوجائے گا۔

ہمارے پڑوسی ملک کی مثال لے لیجیے۔ وہا ں بھی بے شمار مسائل ہیں۔ وہاں بھی بدعنوانی ملے گی آپ کو، گندگی بھی، غربت بھی۔ لیکن دنیا کے سامنے انہوں نے اپنی برائیوں پر پردہ ڈالا ہے، اپنی اچھائیوں کو نمایاں کیا ہے۔ نتیجہ دیکھیں۔ وہاں سرمایہ کار بھاگ بھاگ کر جارہے ہیں۔ لیکن ہم چوپیس گھنٹے ملک کی گندی شکل دکھا کر حیران ہوتے ہیں کہ یہاں سرمایہ کیوں نہیں آتا؟ بھئی!کہاں سے آئے گا؟ اس بندے کے گھر کون جائے گا جو خود اپنے گھر کی گندگی اور برائی لوگوں پر عیاں کرتا ہے؟

ابھی بھی وقت ہے۔ شکایت اور شکوے کے بجائے شکر کو موقع دیں۔ ملک پر لعن طعن اور اس کی برائی کی نشر و اشاعت ہم شروع دن سے کر رہے ہیں۔ اب ادھر کی کامیابیوں اور اچھائیوں کو بھی توجہ دیں۔ ورنہ لگے رہیں ملک کی برائیاں پھیلانے میں۔ کام وہی کرتے رہیں گے تو نتائج بھی وہی ملتے رہیں گے۔

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (2)

By Wusat Ullah Khan