Sipah Salar Ki Diary
سپہ سالار کی ڈائری
دوستو! دوستو! دوستو! آج میں ایک توڑ دینے والی خبر (بریککنگ نیوز) آپ کو سنانے جارہا ہوں۔ دل تھام کر بیٹھیے، کیونکہ آپ کے اس خادم کے پاس افواج پاکستان کے سپہ سالار کی ڈائری ہاتھ آگئی ہے۔ جی ہاں!دوستو!میں جھوٹ نہیں بول رہا۔ اللہ کی اور قرآن پاک کی قسم، میرے ہاتھ میں افواج پاکستان کے سپہ سالار کی ڈائری ہے۔
دوستو!ڈائری پیش کرنے سے پہلے میں یہ بتادوں کہ ان کی ڈائری میں پہلا اندراج 2 مئی کی تاریخ کا ہے۔ جی ہاں!9 مئی کے سانحے سے پہلے ہی فوج کے سپہ سالار کو یہ معلوم ہوگیا تھا کہ دشمن ان کے خلاف کیا چالیں چل رہا ہے۔
میں ہر اندراج کا ذکر تو اپنے اس مضمون میں نہیں کرسکتا۔ البتہ 21 اور 22 مئی کے اندراجات کا کچھ حصہ آپ کی خدمت میں پیش کرسکتا ہوں۔ سنیے کہ 21 مئی کو فوج کے سپہ سالار نے کیا لکھا۔ انہوں نے فرمایا:
"پنڈی میں کچھ اور افواہیں سننےکو ملیں۔ میں نے ان (افواہوں ) کا ذکر اپنی اہلیہ سے کیا تو انہوں نے کہا کہ وہ (بھی)ہر طرح کی باتیں سن رہی ہیں۔۔ میری اہلیہ نے مجھے ان افواہوں کا خلاصہ بتایا، جو یہ تھا کہ کئی (فوج کے)اعلی افسران پر ہندستانی ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا جارہا ہے۔ تب مجھے یہ خیال آیا کہ لوگ کس حد تک خود غرضی کے لیے یا سرا سر حسد کی وجہ سے دوسروں کو بدنام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ میں اپنی قوم کے کچھ لوگوں کی سریع الاعتقادی پر حیران ہوں۔ وہ کچھ بھی نگلنے کے لیے تیار ہیں، یہاں تک کہ اپنے انتہائی عقیدت مند بندوں کے خلاف بھی۔ یہ یقیناً نا پختگی یا کسی قسم کے زوال کی علامت ہے۔ میں فطرتاً ایک پر امید انسان ہوں، لیکن ان افواہوں نے مجھے مایوس اور ششدر کردیا ہے۔ اگر ہم حالت جنگ میں ہوں اور حالات اچھے نہ ہوں اور دشمن پیچھے سے فوج کے بارے میں ایسی افواہیں پھیلانے لگا تو کیا ہوگا؟ نتائج تباہ کن ہونگے۔ ہم گولی چلائے بغیر ہی جنگ ہار جائیں گے۔ ایک خوفناک بات!"
پھر افواج پاکستان کے سپہ سالار نے 22 مئی کو اپنی ڈائری میں اندراج کرتے ہوئے لکھا کہ انہوں نے اپنے ایک ساتھی سے ان افواہوں کے بارے میں پوچھا کہ کون اس قسم کی فضول افواہیں پھیلا رہا ہے؟ تو انہیں جواب ملا کہ۔۔ خیر آپ سپہ سالار کی ڈائری کے ذریعے ان ہی کی زبانی سن لیجیےساری بات۔ وہ لکھتے ہیں کہ:
"اس نے (یعنی ان کے ساتھی نے) بتایا کہ اس نے کچھ تفتیش کی ہے اور پتہ چلا کہ یہ افواہیں کچھ سیاستدانوں نے اڑائی ہیں۔۔ "
پھر مزید سپہ سالار نے لکھا کہ:
"بلاشبہ انتخابات قریب آرہے ہیں۔ لہذا سیاستدان کسی بھی طرح اقتدار میں واپس آنا چاہتے ہیں۔ اب یہاں پہنچ کر انہیں پتہ ہے کہ ان کے پاس دکھانے کے لیے کچھ ہے نہیں سوائے ملک کی مزید تباہی کے۔ اس صورت حال میں وہ اور فوج اور میں آمنے سامنے ہونگے۔ لہذا میں ان کا اول دشمن ہوں اپنے فرائض پورے کرنے کی وجہ سے۔ ان کا ضمیر اس قدر مر چکا ہے کہ کچھ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے وہ فوج کو تباہ کر نے سے باز نہیں آتے۔۔ جو ان کی واحد ڈھال ہے۔ "
آخر میں 22 مئی کے اندراج کا اختتام ان لفظوں میں افواج پاکستان کے سپہ سالار نے کیا:
"ایک سیاستدان کے لیے یہ ہی بڑی بات ہے اگر وہ اپنی کرسی بچا سکے، کجا اس کے کہ وہ کچھ اچھا کرے۔ اگر وہ کچھ اچھا کرنا بھی چاہے تو اس کے حامی خود غرض مطالبات کے ذریعے اس کو کامیاب نہیں ہونے دیتے۔
"دریں اثناء، ان افواہوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کچھ اقدامات لیے جارہے ہیں۔ "
دوستو!ایک اہم بات تو میں آپ کو بتانا ہی بھول گیا۔ یہ آج کے موجودہ سپہ سالار افواج پاکستان کی ڈائری نہیں، یہ پاکستان کے سب سے پہلے پاکستانی سپہ سالار کی ڈائری ہے جو میں نے آپ کے سامنے رکھی ہے۔ جی ہاں!فیلڈ مارشل ایوب خان کی یہ ڈائری ہے۔ یہ ڈائری اسی سال کی ہے جب پاکستان میں پہلا مارشل لا لگا۔
اور حسین اتفاق دیکھیے، اس سال بھی مئی کے مہینے میں فوج کے خلاف ایسی باتیں کی جارہی تھیں، اس وقت بھی انتخابات قریب تھے، لیکن ہوئے نہیں۔ اکتوبر میں ہی مارشل لا لگ گیا تھا۔ اس سال بھی کہا جارہا ہے، کئی افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ انتخابات نہیں ہونگے۔ نگران حکومت کے لیے ایسی قانون سازی کی جارہی ہے کہ ملک میں آئیندہ انتخابات مشکل نظر آتے ہیں۔
لیکن مجھے جو بات حیران کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت بھی سیاستدانوں کا یہی حال تھا۔ کام دکھانے کے لیے کچھ ہے نہیں، محض فوج کو گالیاں دے کر عوام کو مشتعل کرنا ہی ہمارے سیاستدانوں کا ایسا کام ہے جس میں وہ سرخ رو ہوتے ہیں۔ اس وقت ایوب خان کی کتاب "فرینڈز نوٹ ماشٹرز " پڑھتے ہوئے (جس کتاب میں یہ بیان کیے گئے اندراجات موجود ہیں)بہت سے لوگوں نے سوچا ہوگا کہ ایوب خان صاحب مبالغے سے کام لے رہے ہیں۔ وہ تو یہ کہیں گے کیونکہ انہیں مارشل لا لگا کر سیاستدانوں کو حکمرانی سے ہٹانا مقصود تھا۔ لیکن آج تو ایوب خان موجود نہیں۔
آج انتخابات کا سال ہے۔ موجودہ حکمران کہتے ہیں کہ پچھلی اسٹیبلشمنٹ نے ہمارے ساتھ زیادتی کی۔ عمران خان کہتے ہیں، اور بڑے زور و شور سے کہتے ہیں، کہ مجھے فوج سےخطرہ ہے—فوجی نہیں چاہتے کہ میں اقتدار واپس حاصل کروں۔ عمران خان اور ان کے حواری تو فوج کی نفرت میں اتنے آگےگئے کہ 9 مئی جیسا سانحہ پیش آگیا۔ اور ابھی بھی وہ فو ج کے خلاف تنقید کرنے میں مصروف ہیں۔
لہذا، آج بھی، بقول ایوب خان، سیاستدان کے پاس کارکردگی نہیں ہے۔ بس فوج کو گالیاں دے کر، اس پر تنقید کرکے، سیاسی دکان چمک رہی ہے۔ جس طرح اس دور میں فوج کے اعلی افسروں پر بھارتی ایجنٹ ہونے کا فتوی لگایا جاتا تھا، آج عمران خان اور ان کے حواری اس قسم کے فضول الزامات لگا رہے ہیں۔
ایوب خان صاحب نے صحیح کہا تھا، ہماری قوم کانوں کی کچی ہے۔ (یقین نہیں ہوتا تو حقائق سے روشناس ہوکر کسی یوتھیے یا عمرانڈو کے ساتھ ساتھ بیٹھے، لگ پتہ جائے گا۔)اور یہ دشمن کے حملے سے بھی زیادہ خطرناک بات ہے۔ کیونکہ جب آپ ملک کے واحد ادارے، جو دنیا کے 10 بہترین فوجوں میں شمار ہوتا ہے، اسے گالی دیتے ہیں، اس کی تنصیبات پر چڑھ دوڑتے ہیں، اس کے خلاف دوسرے ملکوں میں بیٹھ کر وی لاگز کے ذریعے زہر اگلتے ہیں، تو آپ دشمن کا کام کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہی ایک ادارہ ہے، جو آپ کی مثبت شناخت کرا رہا ہے عالمی سطح پر۔ عالمی فوجی آپریشنز ہوں، مشرق وسطی میں کہیں تحفظ فراہم کرنا ہو، ہماری فوج ہماری نمائندگی بہترین طریقے سے کرتی ہے۔ بھارت اپنے طیارے بھیجتا ہے تو یہی ادارہ اسے مار گراتا ہے۔
ایک طرف یہ ادارہ ہے، دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو چند دنوں کی جیل برداشت نہیں کرسکتے۔ گرفتاری سے دور بھاگ رہے ہیں۔ سر پر بالٹی ڈال کر عدالت میں پیش ہورہے ہیں۔ چاروں طرف بلٹ پروف تختیاں سجا کر، یہ آج کے "حقیقی آزادی "اور نام نہاد جہاد کے مجاہدین ہمیں کہتے ہیں کہ وہ ٹھیک ہیں، جبکہ ملک کا دفاع کرنے والا ادارہ میر جعفروں اور میر صادقوں کے زیر قیادت ہے۔
اللہ ہی خیر کرے بس۔ کیونکہ اس دھرتی پر بسنے والے انسانوں کی لاعلمی اور کم عقلی مجھے روزانہ رونے پر مجبور کرتی ہے۔