Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Basham Bachani
  4. Sahi Leader Kon?

Sahi Leader Kon?

صحیح لیڈر کون؟

4 دسمبر 2022ء کو اسرائیل کے نو منتخب وزیر اعظم بینجیمن نیتھن یاہو کا انٹرویو "ہوور انسٹیٹیوشن "کے یوٹوب چینل پرشائع ہوا(پروگرام:"اَن کومن نولج"؛میزبان:پیٹر روبنسن)۔ نیتھن یاہو ابھی اسرائیل میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں سر خرو ہوئے ہیں اور کئی بار وزیر اعظم اسرائیل رہ چکے ہیں۔ پہلی بار وہ 1996ءمیں وزیر اعظم اسرائیل بنے تھے۔ انٹرویو کے دوران نیتھن یاہو بتانے لگے کہ جب پہلی بارانہوں نے وزیر اعظم بننے کا سوچا تو اپنے والد سے گفتگو کی۔ میں چاہتا ہوں آپ نیتھن یاہو نے کیا کہا اسے ملاحظہ کریں (انٹرویو کے آٹھویں منٹ کے ساتویں سیکنڈ پر یہ بات شروع ہوتی ہے)۔ نیتھن یاہو بولے:

"میں نے کہا:ابا جان!آپ کے نزدیک وہ کونسی سب سے زیادہ اہم خوبی ہے جو وزیر اعظم اسرائیل کے پاس ہونی چاہیے۔ انہوں نے پوچھا:تمہیں کیا لگتا ہے؟ اور میں نے جواب دیا:مجھے لگتا ہے کہ آپ کے پاس نظریہ ہونا چاہیے کہ کہاں آپ ملک کو لے کر جانا چاہتے ہیں۔ آپ کے پاس اس نظریے کو آگے بڑھانے کا عظم ہونا ضروری ہے۔ ساتھ ساتھ سیاسی زندگی کے نشیب و فراز کا سامنہ کرنے کی لچک بھی ہونی چاہیے۔ "

بیچ میں انٹرویو لینے والا کہتا ہے کہ بہت ہی عمدہ جواب لیکن پھر نیتھن یاہو بولے:

"انہوں نے کہا کہ یہ ان کے لیے اچھا (جواب)نہیں تھا۔ انہوں نے کہا:یہ تو کوئی بھی کہے گا جو کسی بھی تنظیم کی قیادت کرتا ہے۔ چاہے آپ یونیورسٹی کے ڈین ہوں یا کسی ادارے کے سربراہ یا حتی کہ ایک عسکری رہنما۔ یہ ایک ہی (گھسا پٹا)جواب ہے۔ تو میں نے ان سے پوچھا:ٹھیک ہے ابا جان!پھر آپ ہی بتائیں کیا جواب ہے؟ پھر وہ ایک منٹ کے لیے سوچ میں پڑ گئے اور پھر ایک لفظ انہوں نے کہا جس نے مجھے حیران کردیا۔ انہوں نے کہا:تعلیم۔ تمہیں بہت ہی وسیع اور گہری تعلیم کی ضرورت ہے۔ ورنہ تم اپنے کلرکز کے رحم و کرم پر ہوگے۔ یہ انہوں کہا۔ "

آپ سوچیں، ایک سینتالیس سال کے شخص سے کہا جارہا ہے کہ تعلیم حاصل کرو، ورنہ اپنے ماتحتوں کے رحم و کرم پر ہوجاؤ گے۔

اب اس بات پر ہمیں حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ کوئی اسرائیلی لوگوں کی خوش قسمتی نہیں کہ انہیں ایسے حکمران ملے ہیں، اور ہمیں ایسے جو کہتے ہیں کہ اقتصادیات کا پتہ ہی تب چلا جب حکومت سنبھالی۔ فلاں نے کہا الیکشن کمیشن کا چئیر مین فلاں کو لگا دو، میں نے لگا دیا۔ اور اب اسی چئیرمین کو گالیاں دی جارہی ہیں۔ معتدد وزیر خزانہ بدل دیے، چیف سیکرٹریز بدلے، آئی جی بدلے۔ حتی کہ یہاں تک کہہ دیا کہ حکومت تھی لیکن اختیارات نہیں تھے۔ بجٹ کو منظور کرانے کے لیے ایجنسیوں کے سامنے ہاتھ جوڑنے پڑتے تھے۔ کوئی بندے سے پوچھے کہ پھر تم اتنے سال حکومت کیوں کرتے رہے؟ اس وقت اقتدار کے مزے لیے اور اب کہتے ہو کچھ کر نہیں سکتا تھا، کچھ ہاتھ میں تھا ہی نہیں۔ بھئی واہ!

یہ سب باتیں تعجب کا شکار نہیں بناتی ان لوگوں کو جو ہمارے حکمرانوں کے طرز عمل سے آشنا ہیں۔

اقتدار سے باہر ہمارے لیڈران کا وقت کنٹینر پر گزرتا ہے، حکومت پر لعن طعن کی جاتی ہے، بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں کہ ہم آگئے تو یہ ہوجائے گا۔ ملک بدل جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اقتدار ملنے کے بعد لوگوں کو حقیقتوں کا ادراک کرنے کا درس دیا جاتا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے کہ جی میں اکیلے ملک سے بد عنوانی نہیں ختم کرسکتا۔ حکمرانی حاصل کرنے سے پہلے دعوے یہ ہوتے ہیں کہ اوپر سے نیچے بدعنوانی پہنچتی ہے۔ نوے دن کا وقت دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جی نوے دن میں بدعنوانی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ لیکن اقتدار پاتے ہی کہا جاتا ہے کہ ایک دن میں تو مدینہ کی ریاست نہیں بن سکتی۔

اقتدار میں آنے سے پہلے اصولاً اتنے بڑے دعوے کرنے کے بجائے، لیڈران کو ریٹائرڈ لوگوں سے ملنا چاہیے، جو زندہ نہیں ان کی سوانح کا مطالعہ کرنا چاہیے، معاشی اور سیاسی حقائق کے بارے میں پڑھنا چاہیے۔ ریٹائرڈ لوگوں سے مشورہ لینا چاہیے کہ کہاں کہاں معاملات بگڑتے ہیں، کیسے افسر شاہی آپ کو گمراہ کرسکتا ہے۔ وزیر اعظم یا وزیر اعلی کا دفتر کیسے چلتا ہے، کتنے ملازمین ہوتے ہیں دفتر میں، کیسے کام ہوتا ہے۔ لیکن نہیں۔ اس وقت تیاری کی نہیں جاتی۔ بس دھرنے، جلسے جلوس اور بڑے بڑے دعوے کرتے کرتے وقت گزر جاتا ہے۔ پھر جب اقتدار ملتا ہے توکچھ بھی انہیں معلوم ہوتا نہیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ پھر افسران بھی ان لوگوں کو خوب گمراہ کرتے ہیں، کچھ یہ ویسے ہی گمراہ ہوتے ہیں۔

جیسا کہ میں نے پہلے کہا، یہ اسرائیلی لوگوں کی خوش قسمتی نہیں کہ ان کے حکمران ایسے ہیں۔ وہاں اگر نیتھن یاہو کے جلسوں میں گانے چلتے کہ جب آئے گا نیتنیاہو تو بنے گا نیا اسرائیل، یا وہاں کنٹینر پر چڑھ کر وفاقی دارلحکومت کو مفلوج کیا جاتا اور بار بار کہا جاتا کہ ہمیں اقتدار دو ورنہ گیا ملک، دیوالیہ ہوگیا، ملک چلنے نہیں دیں گے، راستوں پر ہونگے، تو اسرائیلی عوام نےایسے جعلسازوں کے ساتھ وہ حشر کرنا تھا کہ آپ کی سوچ ہے۔ خاص طور پر یہ تو بالکل نہیں ہوسکتا تھا کہ چارصوبوں کی حکومت ہوتے ہوئے بھی یہ دعوی کیا جاتا کہ ہم تبدیلی لائیں گے، لیکن وفاقی حکومت ملنے کے بعد۔ ورنہ جو صوبائی حکومتیں ہیں انہیں بھی تحلیل کردیں گے۔

قرآن پاک کی دو آیات (سورۃ البقرۃ، آیت 204 تا 205)آج کے ہمارے ایک سیاسی رہنما کی بالکل ٹھیک نشاندہی کرتی ہیں۔ اللہ پاک نے فرمایا:"اور لوگوں میں کوئی تو ایسا ہے کہ آپ کو اس کی بات دنیا کی زندگی میں بہت بھلی لگتی ہے اور جو کچھ اس کے دل میں ہے اس پر وہ اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہے، حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے۔ اور جب وہ پلٹتا ہےتو کوشش کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے کھیتوں اور نسل کو تباہ کرے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ "

کون ہے جو "سخت جھگڑالو ہے"؟ جو فسا د برپا کرنا چاہتا ہے؟ کون ہے جو نئی نسل کے ذہنوں کو آلودہ کر رہا ہے؟ انہیں گالیاں دینا اور ہر کسی کو بلا تصدیق اور تحقیق چور، ڈاکو کہنا سکھا رہا ہے؟ دو مہینے پہلے کس جماعت کے لوگوں نے موٹروے کی سڑک کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ یاد ہیں وہ مناظر؟ چند بے شرم موٹروے پر بڑی کیل کو بڑے ہتھوڑے سے ٹھوک رہے تھے۔ یاد ہے جب پنجاب میں سڑکیں بند کی جارہی تھیں اور لوگ دوہائی دے رہے تھے کہ بھئی ہماری زندگی برباد ہوگئی ہے۔ لیکن جیسے کہ اوپر درج آیت میں کہا گیا ہے۔ ایسے بندے کی بات ہمیں صحیح بھی لگتی ہے۔

ایسے لوگ جب ہمارے مقبول رہنما ہونگے، تو ملک میں برکت کہاں سے آئے گی؟ سوچنے کی بات ہے۔ سوچیے گا ضرور۔

Check Also

Khawaja Saraon Par Tashadud Ke Barhte Waqiat

By Munir Ahmed Khokhar