Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Basham Bachani
  4. Purana Pakistan (3)

Purana Pakistan (3)

پرانا پاکستان (3)

اسی طرح پہلے گورنر جنرل، بابائے قوم، قائداعظم بھی اسی قدر اصول پسند تھے۔ آخری دنوں میں وہ شدید علیل تھے۔ وہ کوئٹہ میں تھے اور ان کے طبیب نے انہیں تجویز دی کہ کراچی جانا چاہیے کیونکہ کوئٹہ کی آب و ہوا ان کی صحت کے لیے منفی ثابت ہو رہی تھی۔ اور کراچی میں بہاولپور کے نواب کی رہائش گاہ قائد کے طبیب کو مناسب لگی قائد کے آرام اور صحت یابی کے لیے۔ لہٰذا قائد کے طبیب نے انہیں کہا کہ آپ رہائش کے لیے نواب صاحب کو سفارش کر دیجیے، کیونکہ گھر تو ان کا ہے۔ جس پر قائد نے انہیں کہا:

"تمہیں پتہ ہے، پرانے دنوں میں جب کسی وکیل کو ہائی کورٹ کا جج بنایا جاتا تھا تو وہ نجی محفلوں اور کلبز میں جانا بند کر دیتا تھا، کئی تو مقامی اخبارات کا مطالعہ ترک کر دیتے تھے کہ کہیں وہ کسی فرد کے حوالے سے تعصب نہ پال لیں جس کا مقدمہ ان کے پاس پہنچ سکتا ہے عدالت میں۔ میں بطور گورنر جنرل نواب صاحب سے یہ گزارش ہرگز نہیں کر سکتا"۔

بعد ازاں محترمہ فاطمہ جناح نے یہ سفارش کی تھی۔ (ص35، وتھ دا قائداعظم ڈیورنگ ہز لاسٹ ڈیز، لیفٹینینٹ کرنل الٰہی بخش، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس پاکستان)۔

آج ہمارے سابق وزیراعظم کہتے ہیں کہ "میرا تحفہ میری مرضی"۔ وہ کہتے ہیں میں نے کونسا گناہ کیا تحائف بیچ کر۔ بے دریغ سرکاری وسائل استعمال کرتے ہیں اپنا مال سمجھ کر۔ لانگ مارچ، دھرنے اور جلسوں میں سرکاری وسائل پانی کی طرح بہائے جاتے ہیں۔ حتٰی کہ موصوف کے حالیہ راولپنڈی جلسے میں کرسی تک سرکاری تھی۔

کے پی کے سرکاری ہیلی کاپٹر کا استعمال اس قدر کرتے ہیں کہ موصوف کی صوبائی حکومت کو قانون بنانا پڑا۔ اب اس قانون کے تحت کوئی سوال نہیں ہو سکتا کہ کہاں کہاں کس کس کو ہیلی کوپٹر دیا گیا، کس مقصد کے لیے دیا گیا، باپ کا مال ہے جیسے چاہیں استعمال کریں، ہاں پیسے آپ کے اور میری جیب سے نکلیں گے۔ اور ان لوگوں کے گانے ذرا سنیں، "صاف چلی شفاف چلی، تحریک انصاف چلی"۔ غالباً منافق کی یہی نشانی ہے نہ؟ کہ وہ کہتا کچھ ہے اور کرتا کچھ ہے۔

لیکن پاکستان کے چوتھے وزیراعظم، جناب چوہدری محمد علی ایسے نہ تھے۔ قدرت اللہ شہاب (ص472 تا 473، شہاب نامہ، چھٹا شمارہ، 2015ء) لکھتے ہیں کہ:

"ایک بار انہیں (یعنی چوہدری محمد علی صاحب کو) علاج کے لیے بیرون ملک جانا ضروری ہوگیا، لیکن وسائل کی کمی ان کے راستے میں حائل تھی۔ جب صدر اسکندر مرزا کو اس صورتحال کا علم ہوا تو انہوں نے خود ان کے ہاں جا کر کوشش کی کہ ان کے اخراجات کے لیے وہ حکومت کی مالی امداد قبول کر لیں، لیکن چودھری صاحب نہ مانے۔ ان کا مؤقف یہ تھا کہ انہوں نے حکومت کے لیے جو خدمات سر انجام دی ہیں، ان کا انہیں پورا معاوضہ ملتا رہا ہے۔ اب وہ خوامخواہ پاکستان کے خزانے پر مزید بوجھ نہیں بننا چاہتے۔ لیکن صدر مرزا کے مسلسل اصرار پر انہوں نے بیس ہزار روپیہ قرض حسنہ کے طور پر قبول کر لیا۔ بعد ازاں یہ رقم انہوں نے چند قسطوں میں واپس ادا بھی کر دی"۔

یہ تھے وہ خاموش مجاہدین جنہوں نے نہ "حقیقی آزادی" کا ڈرامہ کیا، نہ دوسروں کو چور ڈاکو کہا، نہ ریاست مدینہ کی بات کی، بس خاموشی سے کام کر کے چلے گئے۔ آج میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں، آپ میں سے کسی نے بھی یہ باتیں پہلے کسی کے منہ سے نہ سنی ہونگی۔ (سوائے وہ لوگ جو اس دور کا مطالعہ گاہے بگاہے کرتے ہیں۔) اکثر لوگوں کو ان شخصیات کا نام تک نہیں پتہ ہوگا۔

یہ سارے واقعات جو ابھی میں نے بیان کیے، ان کو ذہن میں رکھیں اور دل پر ہاتھ رکھ کر پوچھیں اپنے آپ سے کہ کیا آج ملک کے حالات اس دور کے حالات جیسے ہیں؟ ہم نے پڑھا کس طرح اس دور میں وسائل کم تھے، لیکن لوگ پرامید بھی تھے اور محنتی بھی۔ آج ہمارے پاس ان لوگوں سے زیادہ وسائل ہیں، لیکن ہم کیا کر رہے ہیں؟ اس قدر ملک کو دے رہے ہیں جتنا ان لوگوں نے دیا؟ شکر کرتے ہیں؟ پرامید ہیں؟ نہیں۔ ہم ملک کی غلط تصویر پیش کرتے ہیں، ناشکری کرتے ہیں اور مایوسی ہی مایوسی پھیلاتے ہیں۔

ہمارے مقبول رہنما دن رات بھارت کی مثال پیش کرتے ہیں۔ دیکھو وہاں یہ اچھا ہے، دیکھو وہاں اس کام میں تیزی ہے۔ (نتیجتاً، وہاں کے ایک میجر صاحب کہتے ہیں کہ اسے 10 سال کے لیے وزیراعظم پاکستان بناؤ تاکہ ہمارا کام آسان ہو۔) لیکن کبھی بھارت میں کسی سیاستدان سے آپ نے سنا کہ ہمارے فوجی جہازوں کو "فلائنگ کوفنز" (یعنی اڑتے ہوئے تابوت) کہا جاتا ہے، سیکھو پاک فضائیہ سے؟

ابھی 30 اکتوبر کو، بھارت کے وزیراعظم کے ہی صوبے گجرات کے موربی ضلعے میں ایک پل گرا، بدعوانی عیاں ہوئی، ستر کے قریب لوگ مرے، لیکن آپ میں سے کسی کو اس بات کا علم ہے؟ کسی پاکستانی کو اس بات کا علم نہیں ہوگا لیکن ہماری بری خبریں یہاں سے سیدھا بھارت پہنچتی ہیں۔ ہمارے صحافی، ٹی وی چینلز اور یوٹوبرز چیخ چیخ کر اپنی برائیوں کا ڈھول پیٹتے ہیں۔ ہم اپنے ملک کے لوگوں کو نفسیاتی طور پر اپنے ملک سے دور لے جا رہے ہیں۔

ہمارے ملک میں بھی بہت کچھ اچھا ہے، لیکن ہم ڈھونڈتے نہیں۔ (انشاءاللہ اس پر بھی مضمون ضرور لکھو ں گا کسی دن) ہم صرف شکایت کرتے ہیں اور کچھ نہیں۔ دوسرے ملکوں کو دیکھ کر احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں اور جو اپنے پاس ہے اس کی قدر نہیں کرتے۔ مایوس ہیں۔ یاد رہے، ناشکری قومیں ترقی نہیں کرتیں، نہ ہی مایوس قومیں کبھی آگے بڑھتی ہیں کیونکہ مایوسی بھی کفر ہے اور ناشکری بھی۔ جن قوموں نے ترقی کی، انہوں نے جو ان کے پاس ہے اس کی حفاظت کی۔

دیکھیں وہ کیسے اپنی پرانی عمارتوں کو قائم رکھنے پر محنت کرتی ہیں۔ کیسے اپنے پرانے لوگوں کے گھر، دستاویزات اور خطوط کو محفوظ رکھتی ہیں وہ قومیں۔ ہم نے عجیب سے دانشور پیدا کیے ہیں۔ باہر جا کر ادھر کی عمارت، کاروبار وغیرہ کے سامنے کھڑے ہو کر کہیں گے، دیکھیں یہ ہے ترقی یافتہ ملک اور دیکھو ہمارا حال۔ یہ بالکل ایسے ہے کہ ہم کسی امیر کے گھر جائیں، جو غربت سے امیری تک پہنچا ہو محنت کر کے، پیسے بچا کر اور لگا کر، اور ہم اس کے گھر اور گاڑیوں پر توجہ دیں۔

کبھی ہمارے دانشوروں نے یہ دیکھایا ہے کہ کیسے وہاں کے لوگ خود اپنی گلیاں، دفتر، کوچے اور چوراہے صاف کرتے ہیں۔ کبھی یہ دیکھایا کہ وہ کتنا مطالعہ کرتے ہیں۔ (ہم مطالعہ صرف امتحان میں کامیاب ہونے کے لیے کرتے ہیں، اے سی والی دکانوں میں کپڑے اور جوتے ہیں جبکہ کتابوں کی دکانیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں) کس قدر ورزش کرتے ہیں۔ بڑے بڑے لوگ وہاں نوکر نہیں رکھتے، خود کام کرتے ہیں۔ نہیں، بس ان کی خوشحالی دیکھانی ہے، نہ کہ اس خوشحالی کے پیچھے کام اور صرف مایوسی پھیلانی ہے۔

ہماری مثال اس شخص کی ہے جو اندھیرے میں اندھیرے کو تلاش کر رہا ہے۔ بھئی، روشنی تلاش کریں۔ میں نے ہماری تاریخ کے ایک باب، پاکستان کے ابتدائی دنوں کا تذکرہ کیا، کیوں؟ کیونکہ میں آپ لوگوں کو باور کراناچاہتا ہوں کہ کتنے لوگوں نے کس قدر محنت سے اس ملک کو بنایا اور اس کو آگے بڑھایا۔ ہمیں یہ پاکستان معجزے کے طور پر ملا۔ 27 رمضان کی شب یہ پاکستان معرض وجود میں آیا۔ ہم ہندوؤں سے ہر میدان میں پیچھے تھے (اور ابھی بھی ہیں)، آبادی میں، تعلیم میں، کاروبار میں لیکن یہ ملک بنا اور قائم رہا۔ الحمد اللہ آج تک قائم ہے۔

اشفاق احمد صاحب نے اپنے پروگرام "زاویہ" میں ایک بزرگ بابے کا ذکر کیا تھا۔ اس بزرگ نے اشفاق صاحب کو کہا، "پاکستان کا وجود میں آنا ایک معجزہ تھا، اتنا بڑا معجزہ ہے جتنا بڑا قوم ثمود کے لیے اونٹنی کے پیدا ہونے کا تھا۔ " (ص197، زاویہ، جلد اول، 2016ء، سنگ میل پبلیکیشنز) اس بزرگ نے مزید کہا کہ اگر ہم لوگوں نے اس اونٹنی کے ساتھ وہی کیا جو قوم ثمود نے کیا، تو ہمارا انجام بھی وہی ہوگا (قرآن کا مطالعہ کریں، سنیں عالم کرام سے کہ قوم ثمود کا انجام کیا ہوا)۔

وہ لوگ جو پاکستان کو اپنی میلی اور گندی سیاست اور اقتدار کی خاطر ایٹم بم کا شکار بنانا چاہتے ہیں، جو یہاں نفرت کی سیاست اور ہر بات پر چور، ڈاکو اور غدا ر کے فتوے دینے کی روش قائم کرنا چاہتے ہیں، وہ ڈریں اس دن سے جب اللہ کی لاٹھی (جو بے آواز ہوتی ہے) ان پر ایسے گرے گی کہ ان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

اللہ ہمیں اس ملک کو قائم رکھنے کی، اس کے نظریے اور سرحدوں کے حفاظت کی، اور اس کے حوشحالی کے تحفظ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ آخر میں میں شہید حکیم محمد سعید کا ایک جملہ بیان کروں گا۔

".Love Pakistan, Build Pakistan"

Check Also

Dimagh To War Gaya

By Basham Bachani