Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Basham Bachani
  4. Naujawan Nasal, Hamara Sarmaya?

Naujawan Nasal, Hamara Sarmaya?

نوجوان نسل: ہمارا سرمایہ؟

انٹرنیٹ کا دور ہے۔ آپ خود جاکر دیکھ لیں پاکستان کے کتنے ادارے دنیا کے دس یا پانچ بہترین اداروں میں شمار ہوتے ہیں؟ حقیقتاً، عدلیہ سے لے کر پولیس تک، تعلیم سے لے کر طب تک، ہر میدان میں ہم دس یا پانچ بدترین ملکوں میں شمار ہوتے ہیں۔

لیکن ایک ادارا ہے جو اس روایت کو اپنائے ہوئے نہیں ہے۔ وہ بھلا کونسا ادارا ہے؟ فوج۔ جی ہاں!کوئی بھی فہرست اٹھائیں کسی بھی عالمی تحقیقی ادارے کی۔ پاکستان کی فوج دنیا کی دس بڑی، بہترین فوجوں میں شمار ہے۔ پاکستانی فوج ساتویں نمبر پر ہے فہرست میں۔

لیکن حیرت یہ ہوتی ہے کہ یہی ادارہ ہے جو ہر بندے کی لعن طعن کا شکار ہے۔ کیوں؟ کیونکہ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ فوجی جرنیل بھاری تنخواہ اور مراعات سمیٹتے ہیں۔ فوج ملک کا اتنا بجٹ لے جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔

لیکن تنخواہ اور مراعات تو جج صاحبان بھی کم نہیں حاصل کرتے۔ بلکہ چند دن پہلے تنخواہوں کی فرہست منظر عام پر آئی۔ جس کے مطابق چیف جسٹس صاحب کی تنخواہ سب سے زیادہ ہے۔ نہ صد ر کی اتنی تنخواہ ہے نہ وزیر اعظم کی، نہ وفاقی وزیر کی۔ لیکن ہمارا عدالتی نظام تو دنیا کے دس بہترین عدالتی نظاموں میں شمار نہیں۔

میں سندھ کی ایک سرکاری انجینیرنگ یونورسٹی میں جاچکا ہوں۔ وہاں اساتذہ اور انتظامیہ کے لوگوں کی تنخواہ اور مراعات کا اگر میں آپ کو بتانے لگا تو آپ کی رال ٹپک جائے گی۔

چند سالوں پہلے وہاں لیکچرر حضرات کو رہائشی پلاٹ عنایت کیے گئے۔ ابتدائی تنخواہ بھی 2 یا 3 لاکھ سے زائد ہوتی ہے۔ اگر موضی مرض کا شکار ہیں تو مفت علاج کی بھی سہولت ہے۔ یونیورسٹی آنے اور جانے کا انتظام بھی ہے اور ساتھ ساتھ ایک ائیر کنڈیشن دفتر بھی۔ پھر طالب علموں پر بھی آپ کی گرفت مضبوط ہے۔ وہ آپ سے بدتمیزی نہیں کرسکتے۔ حاضری درج کرنے سے لے کر امتحانی پرچے بنانے اور اس پر نمبر دینے تک مکمل اختیارات ہیں لیکچرر حضرات کے پاس۔ کئی لیکچررز کو باہر اعلی تعلیم دلانے کے لیے وظیفہ بھی مل جاتا ہے۔ لیکن ان سارے فوائد کے باوجود وہ یونیورسٹی دنیا کی دس بہترین یونیورسیٹیوں میں شمار نہیں۔

اور آپ کو عالمی اداروں کے درجہ بندی کی ضرورت نہیں پاکستانی فوج کی اہمیت اور خصوصیت جاننے کے لیے۔ بھارت نے ہمیں پہلے دن سے تسلیم نہیں کیا۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ جب اسے 1971ء میں موقع ملا، اس نے ہمارے ملک کے دو ٹکڑے کرنے میں بنگالیوں کی مدد کی۔ باقی ماندہ پاکستان کے شمالی علاقوں پر آج بھی اس کی نظر ہے۔ کس ادارے نے اسے روکے رکھا ہے؟ پاکستان کے ڈاک کا محکمہ؟ پاکستان کے سیاستدان؟ پاکستان کی ریل گاڑیاں؟ جواب آپ اچھی طرح جانتےہیں۔ بھارت مالی طور پر، عالمی سطح پر، قوت افراد کے حوالے سے، ہر ممکن طور پر ہم سے زیادہ طاقت رکھتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود وہ کس سے ڈر رہا ہے کہ پاکستان کو بخشے ہوئے ہے؟ عالمی قوانین؟ وہی عالمی قوانین بھار ت کو کشمیر میں زیادتیاں کرنے سے نہیں روکتے۔ وہاں بھارتی فوج اور حکمران جو کچھ کر رہے ہیں، پوری دنیا کے سامنے ہے۔ بھارت کے اندر اقلیتوں، نچلے ذات کے لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے وہ بھی عالمی قوانین کے ہوتے ہوئے ہورہا ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے بھارت اب تک پاکستان کو مٹا نہیں پارہا؟

عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔

پچھلے سال قطر میں ورلڈ کپ منعقد کیا گیا۔ وہاں حفاظت کے لیے پاک فوج بلائی گئی تھی۔ اسی طرح 2015ء میں"اسلامک ملٹری کاؤنٹر ٹیررزم کولیشن" بنی۔ اس اتحاد میں بہت سے مسلم ملک شامل ہیں۔ اس کی کمان کس جرنیل کے ہاتھ میں ہے؟ جنرل راحیل شریف—ہمارے سابق فوجی سپہ سالار۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ پاک فوج میں صلاحیت ہے یا اس لیے کہ پاک فوج نے کوئی سفارش کروائی؟ آپ کو لگتا ہے یہ سارے ممالک ہماری فو ج کی رشوت کے متقاضی ہیں؟ بالکل نہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ فوج ہی ہمارا وہ واحد ادارہ ہے جو عالمی سطح پر ہماری مثبت شناخت کر وا رہا ہے۔ جتنے بھی عالمی فوجی آپریشنز ہوتے ہیں، پاک فوج کو ان میں شامل کیا جاتا ہے۔

اس کے برعکس کوئی جج بتائیں، کوئی پولیس افسر بتائیں، کوئی اور سرکاری محکمہ بتائیں جس کے لوگ ان ممالک کو درکار ہوئے ہوں۔ کوئی دوسرا ادارہ جو یہی کرچکا ہو۔

بےشک جرنیلوں میں، فوج میں، بے شمار برائیاں ہونگی۔ لیکن انسان چاہے تو برائیاں تلاش کرے۔ اس مکھی کی مانند ہوجائے جو گند پر بیٹھتی ہے اور بیماریوں کا سبب ہے یا پھر وہ شہد کی مکھی بنے جو پھولوں پر بیٹھتی ہے اور دنیا کو شہد کے ذریعےشفا اور مٹھاس فراہم کرتی ہے۔

فوج کی نفرت میں سب لوگ متحد ہیں۔

کچھ کہہ رہے ہیں فوج نے پی ٹی آئی بنائی اور آج اپنے کرموں کا پھل بھگت رہی ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ فوج پی ٹی آئی کو کچل رہی ہے۔

عمران خان تو ویسے ہی فوج کے خلاف 9 مئی سے پہلے زہر اگل رہے تھے، جب سے وہ اقتدار سے ہٹائے گئے ہیں فوج کو کبھی میر جعفر تو کبھی میر صاد ق تو کبھی چوکیدار تو کبھی جانور کہہ رہے ہیں۔ ان کی نفرت آمیز تقاریر پچھلے سال سے اس سال کے مہینے مئی کی 9 تاریخ تک بتدریج بد سے بدتر ہوتی گئیں۔ حتی کہ ان کے کارکنان، جو نہ اخلاق کی پروا کرتے ہیں نہ روایات کی، جو نہ دین کے ہیں نہ دنیا کے، جن کے لیے سب کچھ عمران خان کی ذات ہے، وہ 9 مئی کو ملک کے واحد اس ادارے کی تنصیبات پرحملہ آور ہوئے جو اب تک ملک کو قائم کیے ہوئے ہے۔

چن چن کر ان محسنین کی یادگاروں کو جلایا گیا، توڑا گیا، بیحرمتی کی گئی، جنہوں نےبھاری جوانی میں یا تو شہادت کا جام نوش کیا یا بہادری سے لڑ کر اپنے سےکافی زیادہ زمین، آبادی، مال اور عالمی اثر و رسوخ رکھنے والے دشمن کے عزائم پاش پاش کیے۔ خبروں کے ذریعے جب پتہ چلا کہ ایم ایم عالم کی یاد گار کو بھی نشانہ بنا یا گیا تو یقین مانیے میرا دل تو رو ہی رہا تھا، ساتھ ساتھ میں نے شکر کیا خدا کا کہ ایم ایم عالم دس سال پہلے ہی اپنے رب سے جا ملے۔ وہ زندہ ہوتے تو کیا دیکھتے؟ یہ الفاظ لکھتے ہوئے مجھےخود رونا آرہا ہے۔

یہ ایم ایم عالم کون تھا؟ یہ عمران خان نیازی کی طرح امیر خاندان میں پیدا ہوا تھا؟ یہ پلے بوئے تھا؟ یہ نا جائز اولاد رکھتا تھا؟ کیا وہ منافق تھا، کہتا کچھ تھا کرتا کچھ تھا۔ کیا اس نے نوجوانوں کو گالیاں دینا سکھایا؟ کیا اس نے کبھی اپنے مقاصد کے لیے سڑکیں بند کیں، حکومت پر دباؤ ڈالا؟ کبھی کسی حکومت کو گرانے کی کوشش کی؟ اس نے غیر قانونی پلاٹ لے کر اسے حکومت میں آکر قانونی کروایا؟ اس نے ملک ریاض کو 60 ارب روپے کا فائدہ دیا جو کہ ریاست پاکستان کی ملکیت تھے؟ نہیں!نہیں !نہیں!

او ظالمو!یہ وہ بندہ تھا جس نے کلکتہ سے حجرت کرکے مشرقی پاکستان میں حجرت کی۔ جب مشرقی پاکستان پاکستان سے علیحدہ ہوا وہ حجرت کرکے باقی ماندہ پاکستان آیا۔ اس شخص نے اپنی دھرتی کو دو بار چھوڑا اس وطن کی خاطر۔ وہ دلیر جوانی میں ایسے کارنامے سرانجام دے گیا جس کا اعتراف پوری دنیا کرتی ہے۔

اور ہم نے اس کی یاد گار کو کس بزدل کے لیے جلایا؟ وہ جس کی تقریر شروع اس جملے سے ہوتی ہے کہ مجھے مار دیا جائے گا یا مجھے گرفتار کرلیا جائے گا۔ جو دن رات اپنی بزدلی دکھاتا ہے۔ جو عورتوں، بچوں اور معصوم لوگوں کو ڈھال بناتا ہے ریاست سے بچنے کے لیے۔ جو تصدیق شدہ زانی ہے، ایک ناجائز اولاد رکھتا ہے۔ جو ایک دن لمبا سفر بغیر اے سی والی گاڑی کے نہیں کرسکتا۔ جو زندگی کے سارے مزے لے چکا ہے، حسن، اقتدار، دولت، شہرت، سب کچھ۔ جس کے بچے باہر ہیں۔ جس کے اوپر کسی کی زمے داری نہیں۔ لیکن اپنی حفاظت کے لیے وہ بچوں، نوجوانوں اور عام عوام کا استعمال کرتا ہے، جو اپنی جہالت میں اس کے لیے اپنی جان دینے کے لیے تیار ہیں۔

اللہ تعالی نے ایک دہائی پہلے ہی ایم ایم عالم کو اپنے پاس بلا لیا۔ ورنہ آج وہ زندہ ہوتے، اس نوجوان نسل کو دیکھتے، جن کے لیے انہوں نے جوانی میں بہادری کے جوہر دکھائے، تو وہ شاید ٹوٹ جاتے۔ وہ سوچتے کہ ان نوجوانو ں کے لیے میں نے اپنی دھرتی دو بار چھوڑی؟ ان کے لیے میں بہت بڑی فوج سے لڑا اور اس ملک کی حفاظت کی؟

جب ایک لیڈر، ملک کی نئی نسل کے ذہنوں میں ملک کے واحد ایسے ادارے کے خلاف جو ملک کی شان ہے نفرت بھرتا ہے، اور وہ بھی اس قدر کہ وہ اپنے محسنوں کی یادوں کو جلا دینے کے لیے تیار ہیں، تو آپ کو راکٹ سائنسدان ہونے کی ضرورت نہیں اس بندے کے عزائم جاننے کے لیے۔

دو منٹ کے لیے سوچیں یہ محسنین پاکستان، جن کی یادوں کو ہم ایک بزدل، زانی اور منافق کے لیے جلا رہے ہیں، وہ نہ ہوتے تو ہمارا کیا بنتا؟ ہندوؤں سے آج بھی ہم تعلیم، معیشت اور آبادی میں پیچھے ہیں۔ تو زیادہ ذہین ہونے کی ضرورت نہیں یہ جاننے کے لیے کہ ہمارا کیا حال ہوتا۔ برمہ، چین، پلسطین، اور مقبوضہ کشمیر میں ٹریلر ہمیں دکھائے جارہے ہیں۔ وہاں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟ دیکھ لیں اور پھر سوچیں کیا ہوتا ہمارے ساتھ۔

سوچیں ہماری آج کی تاریخ کیسے لکھی جائے گی: ایک جیل سے اور موت سے ڈرنے والے شخص کی خاطر، ایک ایسے شخص کی خاطر جو اے سی والی گاڑی کے بغیر سفر نہیں کرتا، اس کے لیے قوم کے نوجوانوں نے اپنے ان بہادروں کی یادگاروں کو مٹایا، جنہوں نے جنگ کے دوران اپنی بھری جوانی میں یا تو جان کی قربانی دی یا زندہ بچ کر دشمن کو مار گرایا اور اپنے وطن کا دفاع کیا۔

یہ ہماری نوجوان نسل ہے۔ جو بزدل کی خاطر بہادروں اور محسنین ملک کی یادگاروں کو تیغ تیغ کرتی ہے۔ پھر ہم حیران ہوتے ہیں کہ ملک کے اوپر شفقت خداوندی نازل کیوں نہیں ہوتی۔ اللہ ایسی قوم کو نوازے گا؟ جو اپنے بہادروں اور محسنوں کی یادیں ایک بزدل زانی کے لیے مٹاتی ہے؟ نہیں!میرا اللہ انصاف کرنے والا ہے۔ اور ااس انصاف کا تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں۔

جہاں بات ملک کے بہادروں اور محسنوں اور شہیدوں کی ہورہی ہے، وہاں شہید حکیم محمد سعید کو کیسے ہم بھول سکتے ہیں۔ جنہوں نے کئی سال پہلے اس مسئلے سے ہمیں آگاہ کردیا تھا۔ جنہوں نے اپنے بڑے بھائی، اپنی ماں، جن دو لوگوں نے ان کی تربیت کی، پرورش کی، انہیں چھوڑنا گوارا کیا پاکستان کے لیے۔ جنہوں نے اپنی بیوی اور بچی کے ساتھ تنہا حجرت کی پاکستان کی خاطر۔ منافع بخش حمدرد صنعت کو پاکستان میں قائم کرکے وقف کردیا۔ دو سفید شیروانی پر زندگی گزاری۔ ساری زندگی طب کے میدان میں خدمت کرتے رہے۔ کہیں کام کے واسطے سفر کرتے تو بچوں کے لیے سفرنامہ تحریر کرتے۔ بالآخر، جب ان کو شہید کرنے کا منصوبہ بنا، تو انہوں نےکہیں آکر شکایت نہیں کی کہ مجھے مارنے جارہےہیں، بلکہ ایک بہادر مرد کی طرح بغیر محافظین کے جتھے کے، بغیر کیسی پروٹوکول کے، بغیر نوجوانوں اور خواتین کی ڈھال کے، انہوں نے دشمنوں کی گولیوں کا سامنہ کیا۔ شہید ہوگئے۔ جاتے جاتے اس ملک کے لیے کئی کتب چھوڑ گئے، کئی شفایاب مریض چھوڑ گئے۔ تعلیمی شہر چھوڑ گئے۔ کئی دوائیں چھوڑ گئے۔۔ ان کی خدمات گننے لگا تو مضمون کتاب کی شکل اختیار کرلے گا۔

انہوں نے اپنے بہت سے سفرناموں میں (مثلاً، جاپان کہانی، ص14 اور داستان حج، ص126)عمران خان کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ بیرونی طاقتوں کی مدد کے ذریعے پاکستان میں ایک اچھے شخص کے طور پر پیش کیے جارہے ہیں۔ وہ بیرونی طاقتیں ظاہر ہے پاکستان کے لیے نیک تمنائیں نہیں رکھ سکتیں۔

عبدالستار ایدھی نے بھی عمران خان کے بارے میں جو کچھ کہا، وہ یوٹوب پر آج بھی موجود ہے۔

لیکن ظاہر ہے، یہ محسنین پاکستا ن ہیں۔ ان کا قصور یہ ہے کہ یہ بھی لفافہ ہیں۔ ورنہ گورے چٹے، قد آور اور خوبصورت عمران خان کیسے کچھ غلط کرسکتےہیں؟

Check Also

Aik Ustad Ki Mushkilat

By Khateeb Ahmad