Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Basham Bachani
  4. Mughalitistan Aur Imran Khan, Uturn Khan Aur Zehreela Mughalta (7)

Mughalitistan Aur Imran Khan, Uturn Khan Aur Zehreela Mughalta (7)

مغالطستان اور عمران خان، یو ٹرن خان اور زہریلا مغالطہ (7)

پچھلی قسط میں میں نے "دا پائینیرز" کتاب کا حوالہ دیا تھا۔ امریکا کے ابتدائی ایام کا ذکر ہوا تھا۔ وہ وقت جب امریکا کے پاس آج کے طرز کی معیشت تھی اور نہ ہی آج کے طرز کی فوج۔ بلکہ کوئی تربیت یافتہ فوج تھی ہی نہیں۔ لوگ زیادہ تر اپنی مالی اور جانی تحفظ کے خود زمے دار تھے۔ لیکن غریبی اور پسماندگی کے باوجود، لوگوں نے اپنے ملک کو مکمل آباد بھی کیا اور اتنا طاقتور بنایا کہ آج امریکی ڈالر دنیا کی عالمی کرنسی ہے۔

دوستو! ہم مسلسل دوسری قسط سے مغالطہ عظیم پر بحث کر رہے ہیں۔ یہ منفی سوچ کہ حکومت کے ذریعے لوگوں کی حالت تبدیل ہوتی ہے۔ جبکہ ہم کہہ رہے ہیں کہ زیادہ تر مسائل حکومت کے بغیر بہت ہی احسن طریقے سے حل کیے جاسکتے ہیں۔ ہم نے مسلسل بہت سی دلیلیں اور مثالیں پیش کیں اپنی بات کو سمجھانے کے لیے(لہذا جن لوگوں نے پچھلی اقساط ملاحظہ نہیں کیں، وہ اب کرلیں)۔ اب ہم مغالطہ عظیم سے پیدا ہونے والے مغالطے کی نشاندہی کریں گے۔

مغالطہ عظیم پہلا ضرب ہے، اس کے ذریعے لوگوں کو ایک غلط بات پیش کی جاتی ہے اور لوگ پھر اس مفروضے اور مغالطے پر ایمان رکھ کر ایک امید پالتے ہیں۔ وہ امید ہے وہ مغالطہ جو مغالطہ عظیم کی گود سے جنم لیتا ہے۔ 1996ء میں ہمارے ملک کے ایک نامور شخص نے اس حوالے سے ایک بیان دیا تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ یہ بیان ملاحظہ کریں۔ یہ بیان کس کا ہے، اس پر بات بعد میں ہوگی۔ فی الحال یہ بیان ملاحظہ کیجیے:

"لوگ چاہتے ہیں جی کہ اس وقت کوئی وائبل الٹرنیٹ آئے جو کہ جو اس وقت حال ہے ملک میں وہ کسی طرح دور ہو۔ اب اس کے لیے اگر وہ سمجھتے ہیں کہ میں کوئی مسیحا آیا ہوں اور میں ان کے سارے پروبلمز دور کردوں گا۔۔ یہ بالکل غلط ہے۔ میں نے یہ کبھی بھی نہیں یہ سمجھا کہ میرے میں اتنی صلاحیتیں ہیں کہ میں آکے ملک کی اکانامکس بھی ٹھیک کردوں، ان کے پولیٹکل سسٹم اور یہ بیوروکریسی اور جو بھی کرپشن ہے دور کر دوں"۔

سب سے پہلے تو معذرت کہ ایسی اردو پڑھنی پڑی آپکو۔ بندے نے زبانی بیان دیا اور اس کی اردو کا اندازہ آپ نے لگا لیا ہوگا۔ خیر، دو منٹ کے لیے سوچیں یہ بیان کس کا ہوسکتا ہے؟ یہ عمران خان کا بیان تو نہیں ہوسکتا، نہیں؟ کیونکہ آج تو عمران خان کہتے ہیں کہ وہی ہیں جو ملک کو ٹھیک کر سکتے ہیں۔ اگر وہ نہیں تو ملک چور، ڈاکو اور لٹیروں کے ہاتھ چلا جائے گا۔ انہوں نے تو 2013ء اور 2018ء کے انتخابات میں وعدہ کیا تھا کہ وہ بدعنوانی کو 90 دنوں میں دفن کردیں گے (درحقیقت ان کی حکومت میں ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان کئی درجے بدتر بنا بدعنوانی کے حوالے سے۔۔ ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل بھی لفافہ ہوگا شاید)۔ اور آج وہ اپنے کارکنان کو کہتے ہیں کہ وہی ہیں جوپاکستان کو "حقیقی آزادی" دلائیں گے۔ اور عمران خان تو یہ کہہ ہی نہیں سکتے کہ ان کے اندر صلاحیت نہیں ملک میں تبدیلی لانے کے لیے، کیونکہ آج ان کے سارے بیانات سے اور ان کے چاہنے والوں کے جذبات سے یہ بات عیاں نہیں ہوتی۔ تو یہ بیان عمران خان کا تو بالکل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ یہ بیان جس نے بھی دیا وہ عمران خان کی سوچ سے علیحدہ ہے۔ آج عمران خان نے ساری جو جنگ شروع کی ہوئی ہے، اس کا دارومدار ہی اس بات پر ہے کہ عمران خان حق ہے اور اس کے مخالفین چور، لفافے اور درآمدی حکومت کی پیداوار۔

دوستو! در حقیقت یہ بیان عمران خان کا ہی ہے۔ جی ہاں! اور یہ 1996ء میں دیا گیا، عین اس سال جب انہوں نے سیاست میں قدم رکھا ور اپنی جماعت کی بنیاد رکھی۔ یہ یو ٹرن مارنے کی عادت نئی نہیں۔ 1996ء میں"آپ کی عدالت"۔۔ بڑا ہی مشہور بھارتی ٹی وی پروگرام، جس کی میزبانی بھارت کے جانے مانے مقبول صحافی رجت شرما کرتے ہیں۔۔ میں عمران خان نے یہ بیان دیا (یو ٹیوب پر یہ انٹرویو موجود ہے)۔ انٹرویو میں کئی بار ان سے پوچھا گیا کہ جی آپ سیاست میں داخل ہونا چاہتے ہیں؟ کیا آپ وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں؟ لیکن عمران خان، جو چند ماہ بعد اپنی جماعت بنانے والے تھے، اور 1997ء کے انتخابات میں حصہ بھی لینے جارہے تھے، کہتے ہیں بالکل نہیں۔ بار بار سوال کرنے پر بھی کہتے رہے کہ میں بالکل سیاست میں نہیں آؤں گا۔ بلکہ وزیر اعظم بننے کے حوالے سے تو وہ کہنے لگے:

"کئی لوگوں کو بڑی غلط فہمی ہوتی ہے کہ سب ہی پرائیم منسٹر بننا چاہتے ہیں۔ دیکھیں، پرائیم منسٹر بننا کیا ایمبشن ہے کہ تین سال کے لیے آپ کی گاڑی کے سامنے جھنڈے لگے ہوئے ہوں، ایک پرائم منسٹر پیلس میں بیٹھ جائے یا پریزیڈینشل پیلس میں اور اس کے بعد جہازوں میں پِھر پھِرا کے تین سال کے بعد پوچھے کوئی نہ آپ کو۔ میں اس کو بہت چھوٹی ایمبشن سمجھتا ہوں"۔ (اب سمجھ آیا کہ 2022ء میں عدم اعتماد کے بعد یہ پاگل کیوں ہوگئے اقتدار سے نکالے جانے کے بعد؟ کیونکہ موصوف کے لیے تین چار سال کی وزات عظمی ان کے نزیدک معمولی "ایمبشن" کی علامت ہے، یہ چاہتے ہیں کہ ساری زندگی کوئی انہیں پوچھتا رہے اور اقتدار دے)۔

پھر سے کہوں گا: اس تباہ حال اردو کے لیے معذرت۔ لیکن کیا کریں، مجھے موصوف کے ایک ایک لفظ کو مضمون میں محفوظ کرنا تھا۔ خیر، یہ واحد انٹرویو نہیں تھا جس میں عمران خان نے سیاست کو خارج ازامکان کہا۔ 1995ء میں"60 منٹس" کی دستاویزی فلم، جس میں جمائمہ اور ان کا انٹرویو لیا گیا، اس میں بھی وہ بار بار کہتے رہے کہ میں سیاست میں نہیں آنا چاہتا(یہ انٹرویو بھی یوٹیوب پر موجود ہے)۔ کہنے لگے:

"ویسے یہ پیشن گوئی کی گئی تھی کہ اب یہ (یعنی عمران خان) اپنی جماعت بنانے جارہا ہے یا ایسا ہی کچھ"۔

اب اس کے بعد عمران خان نے وہی بات کی جو ہم کئی مضامین سے آپ کو کہتے آرہے ہیں۔ وہ بولے:

"میرا مقصد یہ ہے کہ اگر میں اپنے ملک کی مدد کرنے کی پوزیشن میں ہوں تو میں کوشش کروں گا۔ اور میں محسوس کرتا ہوں کہ موجودہ حالات میں۔۔ جس طرح سے ہمارا سیاسی نظام اتنا کرپٹ ہے۔۔ میں سیاست سے باہر اپنے ملک کے لیے بہت کچھ کرسکتا ہوں۔ اور میں یہی کرنے کی کوشش کر رہا ہوں"۔

ان سارے بیانات کو پڑھیں اور پھر آج کے عمران خان کے بیانات کو ملاحظہ کریں۔ آپ کوایک جھوٹے اور منافق اور یو ٹرن کے ماہر کی نشاندہی ہوجائے گی۔ یہ سارے انٹرویوز دینے کے بعد، سب کو یقین دلانے کے بعد، بار بار کہنے کے بعد، کہ میں سیاست میں داخل نہیں ہورہا، اپنی جماعت نہیں بنا رہا، سیاست سے باہر ہی خدمت کرنا چاہتا ہوں، یہ شخص چند ماہ بعد اپنی جماعت بنا لیتا ہے۔ اور ساتھ ساتھ یہ کہتا ہے کہ چند ماہ کے اندر اب اس کے اندر اتنی صلاحیت بھی ہے کہ وہ ملک کے مسائل حل کرے گا، ملک کا نظام ٹھیک کرے گا، بلکہ آج تو کہتا ہے میں"حقیقی آزادی" دلاؤں گا۔

ہم اس پر بعد میں آئیں گے کہ ایسا کیا ہوا اچانک کہ عمران خان، جو کہ پہلے کہہ رہے تھے کہ لوگوں کی غلط فہمی ہے کہ وہ وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں، سیاسی جماعت بنانا چاہتے ہیں، اور اکیلے ملک کے تمام بڑے مسائل حل کردیں گے، وہ بعد میں اس سب کا الٹ کیوں کرتے ہیں۔ فی الحال ابتداً جو ہم نے آپ سے کہا کہ مغالطہ عظیم سے ایک مغالطہ جو جنم لیتا ہے اس کی نشاندہی کریں گے، تو وہ ہوگئی، خود عمران خان کے ہی لفظوں میں۔

مغالطہ عظیم کی گود سے جنم لیتا ہے یہ "زہریلا مغالطہ" کہ لوگ خود تبدیل نہ ہوں، اپنے مسائل خود حل نہ کریں، بلکہ ایک مسیحا کے انتظار میں رہیں۔ یا کسی ایسے شخص کو ڈھونڈیں جو ملک کے سارے مسائل حل کردے گا۔ بس کسی طرح ایک بندے کے پیچھے سب متحد ہوجائیں، اس کو اقتدار پیش کریں، پھر ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ جائیں گی۔ جیسے کہ ہم عرض کرچکے ہیں، یہ ایک زہریلا مغالطہ ہے۔

ہم نے اپنی تیسری قسط میں سر سید احمد خان کے ایک مضمون کا سہارا لیا تھا، آج ہم پھر سے ان کے ایک اہم مضمون کا حوالہ دیں گے۔ مضمون کا عوان ہے: "اپنی مدد آپ"۔ دوستو! مضمون کے صرف چند حصے میں آ پ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ میں چاہتا ہوں آپ مکمل مضمون بھی ضرور پڑھیں۔ میرا یہ ماننا ہے کہ یہ مضمون اگر ہم پڑھتے اور اپنی اگلی نسل کو پڑھانے میں کامیاب ہوتے تو آج ہمارا ملک مختلف ہوتا۔ آج ہم جس جگہ کھڑے ہیں، وہاں ہم نہ کھڑے ہوتے۔ لوگوں کی ذہنیت مختلف ہوتی۔

لیکن سر سید احمد خان کے مضمون کو پڑھنا تو دور، ہمارے معاشرے کا حال تحقیق اور مطالعے کے حوالے سے یہ ہے: 7 فروری 2024ء کو منصور علی خان، مشہور وی لاگر اور صحافی، اپنے ایک وی لاگ میں کہتے ہیں (یہ وہی لاگ ہے جس کے تھمب نیل میں عمران خان کے دو صاحبزادے پی ٹی آئی کا جھنڈا پکڑ کےکھڑے ہیں): "قائد اعظم محمد علی جناح بھی ایک پولیٹشن تھے، علامہ اقبال بھی ایک پولیٹشن تھے، سر سید احمد خان بھی ایک پولیٹشن تھے"۔

سر سید احمد خان کو سیاست دان کہنے والے کی لاعلمی پر ماتم کیا جائے یا محض رویا جائے؟ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے مشہور صحافی کتنا تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں، کتنا برصغیر کی تاریخ سے آشنا ہیں۔ یہ معمولی جملہ نہیں، یہ بتاتا ہے کہ منصور بھائی نے کبھی سنجیدگی سے اپنے ملک کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہی نہیں۔ خیر، آج کل یہ عمران خان کے حق میں بول رہے ہیں، اور یقین مانیے، جو عمران خان کا شیدائی بنتا ہے یا ان کے حق میں بولتا ہے میں نے دیکھا ہے اس کے آئے کیو (ذہانت) کی سطح میں تیزی سے گراوٹ شروع ہو جاتی ہے۔

سر سید احمد خان کے جس مضمون کا ذکر آج ہوگا اس سے آپ خود اندازہ لگائے گا کہ وہ کتنے سیاست دان تھے۔ دوسری اہم بات یہ کہ سیاست، جس وقت سر سید احمد خان زندہ تھے، برصغیر میں ابھی داخل نہیں ہوئی تھی۔ برطانوی راج تھا اور پہلی سیاسی جماعت (کانگریس) کی بنیاد ہی ایک انگریز نے رکھی تھی، جس کا نام تھا ایلن اوکٹیوئین ہیوم۔ آل انڈیا مسلم لیگ جب وجود میں آئی تب تک سر سید احمد خان کو دنیا سے گئے 7 سال ہوچکے تھے۔ سیاست جس طرح آج کی جاتی ہے اس کا برصغیر میں وجود ہی نہیں تھا سر سید کے دور میں۔ جیسے کہ میں نے بتایا کانگرس جماعت کی بنیاد ہی ایک انگریز نے رکھی تھی اور سر سید کا کانگریس سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی ذہن میں رہے کہ سر سید ایک مفکر تھے، مضمون نگار تھے، مصنف تھے، ایک مصلح تھے، سیاست دان نہیں۔ وہ مسلمانوں کے ہمدرد تھے اور ان کے خیر خواہ۔ انہوں نے دو قومی نظریہ متعارف کیا اور علی گڑھ ادارہ قائم کیا تاکہ مسلمان تعلیم کے میدان میں داخل ہوں۔

اب سمجھ آیا میں نے ان سلسلہ وار مضامین کا عنوان "مغالطستان اور عمران خان" کیوں رکھا؟ ہمارے اکثر لوگ مغالطستان میں رہتے ہیں، ایک مفروضوں اور مغالطوں کی دنیا، جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

دوستو! وقت کی قلت کے باعث سر سید کے مضمون کے مختلف حصے اگلی قسط میں قلم بند کیے جائیں گے۔ فی الحال مجھے اجازت دیجیے اور ساتھ ساتھ معزرت چاہوں گا۔ کچھ ذاتی مصروفیات نے اور کچھ میری سستی نے ان سلسلہ وار مضامین کی اقساط کی رفتار کو کم کیے رکھا، لیکن اب انشاء اللہ ہفتے میں ایک سے دو قسطیں ضرور فراہم کی جائیں گی۔ لہذا انشاء اللہ اگلی قسط میں ملاقات ہوگی۔ اللہ حافظ!

Check Also

Sulag Raha Hai Mera Shehar, Jal Rahi Hai Hawa

By Muhammad Salahuddin