Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Basham Bachani
  4. Mughalitistan Aur Imran Khan, Taaruf (1)

Mughalitistan Aur Imran Khan, Taaruf (1)

مغالطستان اور عمران خان:تعارف (1)

میں معتدد مضامین عمران خان اور ان کے کرتوتوں پر لکھ چکا ہوں۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ عمران خان کی حیثیت ایک آلہ کار کی سی ہے۔ ان جیسے اشخاص پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں، لیکن مقبول صرف پاکستان جیسے ملکوں میں ہوپاتے ہیں۔

جس ملک کے اکثر شہری مطالعے سے دلچسپی نہیں رکھتے، جعلی خبروں کو واٹس ایپ گروپس میں پھیلا دیتے ہیں، جہاں نوجوانوں کی کثیر تعداد فحش فلمیں دیکھتی ہے، جہاں امیر خواتین گھر کے کام کرنے کو توہین سمجھتی ہیں، جہاں طلبا محض نوکری کے لیے پڑھتے ہیں۔ وہاں ہمیں تعجب کا شکار نہیں ہونا چاہیے یہ جان کر کہ عمران خان اس جیسی قوم کے مقبول رہنما ہیں۔

امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے ایک بڑی زبردست بات کہی تھی۔ 1963ء میں جب انہیں ایمہرسٹ کالج کی جانب سے اعزازی ڈگری دی گئی، تب انہوں نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "ایک قوم اپنے آپ کو صرف اپنے پیدا کردہ مردوں سے ظاہر نہیں کرتی، بلکہ اس سے بھی کرتی ہے کہ وہ کن لوگوں کی عزت کرتی ہے، کن لوگوں کو یاد کرتی ہے"۔

آج قوم کے نوجوانوں کا حال یہ ہے کہ انہیں یہ نہیں پتہ ہوگا کہ کن کن لوگوں نے ہمارے ملک کی بنیاد ڈالنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ انہیں سر سید اور علامہ اقبال کی سوچ کے بارے میں ذرہ برابر بھی دلچسپی نہیں ہوگی۔ انہوں نے شاید ہی اس ملک کے بانی کی کوئی تقریر پڑھی ہوگی یا ان کی سوانح کا مطالعہ کیا ہوگا۔ کتنے نوجوان شعیب سلطان خان کو جانتے ہیں؟ کتنے امجد ثاقب سے آشنا ہیں؟ کتنے حکیم سعید کی خدمات کے بارے میں آگاہ ہیں؟ جواب آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔

جہاں ہمارے نوجوان ان لوگوں کے اعمال اور خدمات کے بارے میں لاعلم ہیں جنہوں نے ملک کے لیے بے تحاشہ قربانیاں دیں، وہیں انہیں عمران خان کے بارے میں سب کچھ پتہ ہے۔ البتہ وہ "سب کچھ" کتنا سچ اور جھوٹ کا مجموعہ ہے اور کتنی حقیقتیں انہیں اس طرز پر سنائی گئی ہیں کہ عمران خان کی واہ واہ ہو، اس کا اندازہ آپ میرے ان سلسلہ وار مضامین کا مطالعہ کرکے جان لیں گے۔

"مغالطستان اور عمران خان"کے زیر عنوان میں آج سے ان سلسلہ وار مضامین کی ابتدا کر رہا ہوں۔ ان مضامین کا دوطرفہ مقصد ہے:

1۔ عمران خان کی اصلیت کو بذریعہ معتدد مضامین قلم بند کیا جائے۔ تاکہ پھر ان مضامین کو کتاب کی شکل دی جاسکے۔ جس سے وہ سارے حقائق جو سائبر، الیکٹرونک اور پرنٹ کی دنیا میں منتشر ہیں انہیں ایک کتاب کی شکل میں سمیٹ لیا جائے۔ ہماری اگلی اور آج کی نسل کے وہ عاقل لوگ جو حق کے متلاشی ہیں، ان کے لیے یہ کام کیا جارہا ہے۔ (یہ مضامین جب کتاب کے لیے یکجا کیے جائیں گے، تب تھوڑی تبدیلی یا اضافہ ان مضامین میں ضرور کیا جائے گا۔ کیونکہ تب تک کئی نئی چیزیں سامنے آچکی ہونگی)۔

2۔ جس غلط ذہنیت کے تحت اور جن مفروضوں اور مغالطوں کے تحت "پروجیکٹ عمران خان" پروان چڑھایا گیا ان کی نشاندہی بھی کی جائے۔ لہذا عنوان میں"مغالطستان" کا نام بھی ہے۔ ہم جغرافیہ کی بنیاد پر تو پاکستان میں مقیم ہیں، لیکن عقلی طورپر ہم مغالطستان کے باسی ہیں۔ ان مضامین میں مختلف مغالطے جو ہمارے معاشرے میں رائج ہیں، ان کی بھی نشاندہی کی جائے گی۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں، عمران خان جیسے بندے ہر معاشرے میں بستے ہیں، لیکن جہاں مغالطے اور مفروضے زیادہ غالب ہوں صرف وہیں عمران خان جیسے لوگ مقبول بنتے ہیں اور وزیر اعظم بھی۔

میں نے ان مضامین کا مقصد واضح کردیا ہے۔ کتنے لوگ ان مضامین کو پڑھیں گے اور ان مضامین کا کیا فائدہ ہوگا، میں ان باتوں کی پروہ نہیں کرتا۔ ہمارے اوپر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب برائی سے واسطہ ہو تو اسے ہاتھ سے روکیں۔ اگر ہاتھ سے نہیں تو پھر منہ سے۔ اگر منہ سے بھی برائی کی نفی نہیں ہوپاتی تو پھر دل میں اس برائی کو برائی جانیں۔ یہ ہمارے پیغمبر ﷺ کی تعلیم ہے۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث4013) لہذا، مجھ پر لازم ہےکہ جتنا علم میرے پاس ہے، اس کی بنیاد پر آج کی جس بھی برائی کو میں دیکھوں، اس کی نفی کروں۔ ان مضامین کے ذریعے میں اپنے نبی ﷺکی تعلیم پر پورا اترنا چاہتا ہوں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میں یہ مضامین اس وقت کیوں لکھ رہا ہوں جب عمران خان قید خانے میں بند ہیں، ان کے کئی قریبی ساتھی بھی قید خانے میں ہیں یا جلاوطن ہیں یا چھپ کر بیٹھے ہیں؟ جواب انتہائی سادہ ہے۔ ہمارے ملک میں فحش فلموں پر بھی پابندی ہے، لیکن لوگ کیا فحش فلمیں نہیں دیکھ رہے؟ ہمارے ملک میں رشوت لینے اور دینے پر پابندی ہے۔ ہم نے "نیب"کے ادارے کو بنایا تاکہ بدعنوانی اور رشوت کے خلاف کاروائی کی جاسکے۔ لیکن اس کے باوجود لوگ دن رات رشوت لے بھی رہے ہیں اور دے بھی رہے ہیں (کچھ مجبوراً)۔ عمران خان بے شک قید خانے میں بند ہیں، لیکن ہیں مقبول اور ان کا زہر لوگوں کے ذہنوں کو ابھی بھی آلودہ کر رہا ہے(اور میں اس بات کا قصور وار لوگوں کو ہی ٹھہراتا ہوں، عمران خان کو نہیں)۔ اگر عمران خان نہیں بھی رہتے، تب بھی وہ مغالطے اور مفروضے جن کی بنا پر ان کی تحریک مقبول ہوئی ہے، وہ زندہ رہیں گے۔

ہم ان مغالطوں اور مفروضوں کو جڑ سے اکھاڑنا چاہتے ہیں۔ ورنہ آج عمران خان آیا ہے، کل کوئی دوسرا عمران خان پیدا ہوگا اور ہم تاریخ دہراتے رہیں گے۔ کیونکہ تاریخ کی حیثیت اس ظالم استاد کی سی ہے، جو آپ کو تکلیف دیگا، ایک ہی سبق بار بار پڑھائے گا، جب تک آپ اس سبق سے کچھ سیکھتے نہیں۔ ان مضامین کے ذریعے حقائق اور شواہد، جو مصنف کے سامنے ہیں، ان کا استعمال کرکے ان لوگوں تک پہنچنا مقصد ہے جو فی الحال قابل علاج ہیں۔

باقی میں اچھی طرح ان لوگوں کو جانتا ہوں جو نہ حقائق کی پرواہ کرتے ہیں اور نہ ہی اخلاق کی۔ وہ تو اندھے ہو چکے ہیں۔ وہ صرف عمران خان کے عشق میں گالیاں دے سکتے ہیں، نعرے مار سکتے ہیں، آپ کا گھیراؤ کرسکتے ہیں، آپ کے گھر کے باہر کھڑے ہوکر آپ کی اور آپ کے پڑوسیوں کی زندگی نعرے بازی کے ذریعے برباد کرسکتے ہیں۔ ان کے مخالفین باہر ہوں، کسی ہوٹل میں ہوں، چاہے ان کے بیوی بچے ان کے ساتھ ہوں، یہ لوگ گندی گندی گالیاں دیتے ہوئے نہیں شرماتے۔

ان لوگوں نے مسجد نبوی کی عزت تک کا مان نہ رکھا۔ پچھلے سال اپریل کے مہینے میں کیا ہوا مسجد نبوی میں۔ آپ خود جانتے ہیں۔ پتہ نہیں عاشقان رسول ﷺاس وقت کہاں ہوتے ہیں جب یہ لوگ اس قسم کی بےحرمتی کرکے بھی دندناتے پھرتے ہیں؟ یہ گندے انڈے کچلنے کے قابل ہیں۔

انجیل (متی، ساتویں کتاب، آیت 15 تا 18) میں فرمایا گیا ہے کہ غلط پیغمبروں سے آگاہ رہیں، یہ لوگ بھیڑیے ہیں جو گائے بکری کے بھیس میں آپ کے سامنے آئیں گے۔ لیکن پھر زبردست بات کی گئی ہے ان جعلی لوگوں کی نشاندہی کے لیے۔ کہا گیا ہے کہ ان لوگوں کے پھلوں (یعنی وہ پیدا کیا کرتے ہیں) سے آپ ان کی نشاندہی کر لیں گے۔ کیونکہ اچھا درخت گندے پھل نہیں دیتا اور اسی طرح برا درخت اچھے پھل نہیں دیتا۔ اب عمران خان، جو نوجوانوں کی آواز ہیں کچھ لوگوں کے بقول، ان کے پھل ہمارے سامنے ہیں۔

مخالفین کے خلاف ٹرینڈز چلانا، انہیں گالیاں دینا، جعلی خبریں پھیلانا، یہ سب کس پھل کی نشاندہی کرتے ہیں؟

میں پھر سے کہوں گا، عمران خان تو اول حیثیت کے مجرم نہیں۔ حقیقی مجرم وہ لوگ ہیں جو اندھے بن کے بیٹھے ہیں۔ رسول پاک ﷺکی حدیث ہے، انہوں نے فرمایا کہ "لوگوں میں سب سے بدترین مقام اللہ کے نزدیک اس بندے کا ہے جو اپنی آخرت دوسرے کی دنیا کی خاطر برباد کرے"۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث3966)

جیسا کہ میں نے پہلے کہا، عمران خان جیسے لوگ ہر جگہ موجود ہیں، لیکن کوئی کامیاب معاشرہ ایسے لوگوں کو سنجیدہ نہیں لیتا، نہ ہی انہیں نجات دہندہ سمجھتا ہے۔ یہ کہنا کہ جی خان نے ہمیں بیوقوف بنایا، اس نے بچوں کی ایسی ذہن سازی کی کہ وہ شر برپا کرنے پر مجبور ہوگئے، یہ سب بکواس ہے۔

یہ بات تب مانی جاتی جب اللہ ان لوگوں کو آدھا دماغ دیتا، ایک کان دیتا اور ایک آنکھ یا اس سے بھی بدتر حالت میں پیدا کرتا۔ یا آپ یہ کہتے کہ جی یہ تو ہیں ہی نچلی ذات یا نسل کے لوگ۔ انہیں کہاں حقائق سمجھ آنے ہیں۔ یہ لوگ نفسیاتی ہوتے تب بھی سمجھ آتا۔ ہم کہتے کہ بیچارے پاگل ہیں، انہیں پاگل خانے داخل کریں۔ یہ لوگ اپنے ذہن پر قابو نہیں رکھتے۔

لیکن ہم نہ کسی کو نیچ کہیں گے اور نہ ہی اس کے عقل اور شعور کو آدھا مانیں گے۔ اللہ نے انہیں بھی ویسے ہی انسان بنایا ہے جیسے ہمیں بنایا۔ بلکہ کئی 9 مئی کے فتنے اور فساد کے بعد سامنے آنے والے چہرے تو ملک کی اشرافیہ میں شمار ہوتےہیں۔ ان کے پاس جو وسائل ہیں حقائق حاصل کرنے کے لیے، ان کو جو تعلیم ملی ہے، ان کے پاس جو ذرائع ہیں، اس حوالے سے انہیں معصوم اور مظلوم پیش نہیں کیا جاسکتا۔

جو حقائق موجود ہیں عمران خان کی اصلیت کے حوالے سے، ان کو حاصل کرنے کے لیے آپ کو کسی خفیہ دفتر جانے کی ضرورت نہیں۔ انٹرنیٹ کے اس دور میں وہ سارے حقائق سب کے سامنے ہیں۔ میں ان مضامین میں جو حوالہ جات پیش کروں گا، ان تک رسائی آپ کی بھی اسی طرح ممکن ہے جیسے میری رسائی ممکن ہے۔ کوئی امتیاز نہیں پایا جاتا۔ آج کل عام سے عام بندہ بھی سمارٹ فون رکھتا ہے اور انٹرنیٹ استعمال کرتا ہے۔

جن لوگوں کو حقائق معلوم کرنے ہوتے ہیں وہ کسی بھی دور میں حاصل کرلیتے ہیں۔ وہ مطالعہ کرتے ہیں اور تحقیق کرتے ہیں۔ جس کے لیے بہت زیادہ سرمائے کی ضرورت نہیں۔

یہ کہنا کہ جی فلاں کی ذہن سازی کی گئی اور پھر وہ پی ٹی وی، پارلیمان، دارالخلافہ، پی ایم ہاؤس، فوجی تنصیبات اور یاد گار شہدا پر چڑھ دوڑا، بالکل بے معنی ہے۔ ہمیں کیا دن رات تمباکونوشی کے خلاف (انٹرنیٹ، ٹی وی اور ریڈیو سے) اشتہارات اور پیغامات موصول نہیں ہوتے؟ علماء فحش فلموں اور فحش لوگوں کی مذمت نہیں کرتے؟ جتنے بھی اسکول جاتے ہیں، کیا وہ اسلامیات میں نہیں پڑھتے کہ رشوت لینا اور دینا حرام ہے؟ لیکن اس حوالے سے ہماری ذہن سازی نہیں ہوپاتی۔ کیوں؟

کیونکہ ہم مغالطستان کے باسی ہیں۔ ہر نام نہاد "سینئیر صحافی" اور "سنیئیر تجزیہ نگار" ایسے ایسے مفروضے اور مغالطے بیچتا ہے، جن کا حقیقت سے دور دورت تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

لہذا، امید ہے، اللہ سے دعا ہے، اللہ ان مضامین میں برکت ڈالے اور ہماری اس کاوش کو سرخ رو کرے۔ آمین۔

اگلی قسط میں ملاقات ہوگی اور پھر گفتگو کا رخ تعارف سے مضامین کے اصل مواد کی جانب رواں دواں ہوگا۔ انشاءاللہ۔

فی الحال آپ کی اجازت چاہیے۔ اللہ حافظ!

Check Also

Riyasat Ke Daimi Idaron Ko Shayad Ab Kuch Naya Karna Pare

By Nusrat Javed