1.  Home/
  2. Blog/
  3. Basham Bachani/
  4. Mughalitistan Aur Imran Khan, Quaid e Azam Ki Tambeeh (9)

Mughalitistan Aur Imran Khan, Quaid e Azam Ki Tambeeh (9)

مغالطستان اور عمران خان: قائد اعظم کی تنبیہ (9)

دوستو! پچھلی قسط میں ہم سر سید احمد خان کے ایک عمدہ مضمون، "اپنی مدد آپ"، پرگفتگو کر رہےتھے۔ ہم نے بہت سے اقتباسات اس مضمون سے آپ کی خدمت میں پیش کیے، اور ساتھ ساتھ ہم نے اپنا تبصرہ بھی پیش کیا تھا۔ وقت کی قلت نے ہمیں مضمون کا مطالعہ مکمل کرنے کا موقع نہ دیا۔ لہذا، آج اس قسط کے ذریعے ہم اُس مضمون کے مطالعے کو مکمل کر لیتے ہیں۔

مضمون کے آخری حصے میں سر سید فرماتے ہیں کہ جہاں ہمیں بڑے بڑے لوگوں کی داستانیں اور ان کی کامیابیاں سنائی جاتی ہیں وہیں ہمیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ ان کے نیچے کتنے لوگوں نے یہ ممکن بنایا۔ سر سید لکھتے ہیں:

"گو کسی لڑائی اور میدان کارزار کی فہرستوں اور تاریخوں میں صرف بڑے بڑے جنرلوں اور سپہ سالاروں کے نام لکھے گئے ہوں، لیکن وہ فتوحات ان کو زیادہ تر انھیں محنتی لوگوں کی شجاعت اور بہادری کے سبب ہوئی ہے۔ عام لوگ ہی تمام زمانوں میں سب سے زیادہ کام کرنے والے ہوئے ہیں۔ بہت سے ایسے شخص ہیں جن کی زندگی کا حال کسی نے نہیں لکھا، لیکن تہذیب و شائستگی اور ترقی پر ان کا بھی ایسا ہی قوی اثر ہوا ہے جیسا کہ ان خوش نصیب مشہور نامور آدمیوں کا ہوا ہے، جن کی زندگی کے حالات مورخوں نے اپنی تاریخوں میں لکھے ہیں۔ "(ص185)

سر سید یہ کیوں لکھتے ہیں؟ کیونکہ، جن لوگوں نے پچھلی قسط ملاحظہ کی ہے انہیں معلوم ہوگا، سر سید ہمارا ایک المیہ بیان کرتے ہیں۔ اور وہ المیہ یہ ہے کہ ہم کسی مسیحا کی تلاش میں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم جیسے ہیں ویسے ہی رہیں، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ کوئی حکومت بڑی زبردست آئے اور دودھ اور شہد کی نہریں بہا دے۔ ہم چاہتے ہیں حکومت بے تہاشہ سہولیات لوگوں کو دے۔

اور یہ ہے وہ چیز جو کئی سیاستدان اور مختلف سماجی تنظیموں کے سربراہان استعمال کرکے لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں۔ وہ لوگوں کو بنیادی حقیقت سے آشنا نہیں کریں گے کہ ان کی حالت اگر ویسی ہی رہتی ہے جیسی آج ہے، تو کسی بھی صاف اور قابل بندے کے حکمرانی کے منصب پر فائز ہوجانے سے کچھ نہیں بدلے گا۔

اور اس کی مثال قرآن پاک میں ملتی ہے۔ اگر حکمران یا سربراہ ہی اہم ہوتا اور اس کے قابل اور ایمان دار ہونے سے قوم قابل اور ایمان دار بنتی، تو آپ کو یہ ماننا پڑے گا کہ (نعوذ باللہ) حضرت موسیؑ خطا کار تھے، ناشکرے تھے، شرارتی تھے۔ کیونکہ یہ ساری عادات قرآن پاک میں بنی اسرائیل (حضرت موسیؑ کی قوم) سے منسوب کی گئی ہیں۔ لیکن ایسا کہنا گناہ کے برابر ہوگا اور عذاب الہی کو دعوت دینے کے مانند ہوگا۔ بنی اسرائیل کے اعمال کو حضرت موسیؑ سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ کیونکہ حضرت موسیؑ پاک فطرت اور اعمال کے مالک تھے۔ وہ اللہ کے پیغمبر تھے۔ اب ذرا سوچیے کہ حضرت موسیؑ اور حضرت ہارونؑ جیسے پاک نیت اور اعمال کے مالک پیغمبروں کے ہوتے ہوئے اگر لوگ ناشکری کرسکتے ہیں، اللہ کی نافرمانی کرسکتے ہیں، تو اس سے ہمیں کیا پیغام ملتا ہے؟

لہذا، سر سید کی بات درست ہے کہ جب بھی کوئی قوم یا کوئی فوج یا کوئی ادارہ کامیاب ہوتا ہے تو اس کے پیچھے قیادت، جس کی تعریف کی جاتی ہے، سے زیادہ ان لوگوں کی محنت ہوتی ہے جو قیادت کے نیچے ہوتے ہیں۔ کیونکہ، حضرت موسیؑ اور حضرت ہارونؑ کی مثال سے پتہ چلتا ہے کہ اگر قوم ناشکری ہو، جاہل ہو، تو پیغمبر وں کی قیادت بھی بے معنی ہوجاتی ہے۔

دوستو! اب ہم سر سید کے مضمون کا مطالعہ ترک کرتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں۔ (البتہ مضمون کے دو حصے ایسے ہیں جنہیں بعد میں مناسب جگہ/قسط میں بیان کیا جائے گا۔) لیکن آگے بڑھنے سے پہلے ایک منٹ کے لیے سوچیں کہ آج پورا معاشرہ اس حقیقت سے لاعلم کیوں ہے جو سر سید نے بیان کی؟ آج کتنی توجہ اس بات پر ہوتی ہے کہ لوگ خود مل کر"اپنی مدد آپ" مسائل کا حل نکالیں اور اپنی کردار سازی پر توجہ دیں بجائے حکومت پر لعن طعن کرنے کے؟

کردار سازی تو دور کی بات ہے، ہمارے صحافی اور دانشور حضرات تو اس بات پر تالیاں بجاتے ہیں کہ نوجوان سیاست میں دلچسپی رکھ رہے ہیں، وہ ووٹ دینا چاہتے ہیں، وہ جلسوں اور دھرنوں میں شریک ہوتے ہیں۔ اس سے بھی ایک ہاتھ آگے جاکر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ جی! نوجوانوں کو اقتدار ملنا چاہیے اور انہیں سیاسی جماعتوں کا تگڑا حصہ ہونا چاہیے۔ یہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گویا نوجوان ہونا کوئی بہت بڑی بات ہے۔ محض کسی شخص کا نوجوان ہونا کوئی قابل فخر خصوصیت نہیں۔ بالکل اسی طرح کہ کسی کا کالا یا گورا ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔

فرض کرلیں اگر (اللہ نہ کرے) آپ کو یا آپ کے کسی عزیز کو سرجری کی ضرورت پڑتی ہے، تو کیا آپ کسی تجربہ کار سرجن کے پاس جانا پسند کریں گے، جس نے کئی لوگوں کو شفایاب کیا ہو، جس نے کئی لوگوں کو موت سے بچایا ہو، یا آپ کسی نوجوان کو پسند کریں گے اس کام کے لیے؟ جواب سب کو اچھی طرح پتہ ہے۔ سب چاہیں گے کہ کسی تجربہ کار کے پاس جائیں جو اس حوالے سے کافی تجربہ رکھتا ہو۔ اسی لیے نئے نئے معالجین وہی معاوضہ نہیں طلب کرسکتے جو جانے مانے مشہور اور تجربہ کار طبیب طلب کرتے ہیں۔ اور یہی معاملہ ہر حوالے سے۔ آپ گھر میں بجلی یا پانی یا گیس کا کوئی کام کروانا چاہیں گے تو آپ کا انتخاب کا طریقہ واضح ہوگا۔ آپ یہ نہیں کہیں گے کہ کسی نوجوان کو پکڑ لاؤ۔ آپ کہیں گے کہ ایسے بندے کو لاؤ جو یہ کام بخوبی جانتا ہو، جس نےکئی لوگوں کے پاس یہ کام کیا ہو اور لوگ اس کی تعریف بھی کرتے ہوں۔ کوئی نوجوان آکر محض یہ کہے کہ میں نوجوان ہوں لہذا مجھ سے کام کراؤ، یہ اس کی حماقت کی علامت ہے۔

لیکن جہاں معاملہ ملک کا ہو، ہم کہتے ہیں نوجوان سیاست میں داخل ہوں، وہ سیاسی بنیں۔ بلکہ ہمارے لیے یہ بات باعث فخر ہے کہ ذولفقار علی بھٹو اور عمران خان نے نوجوانوں کو سیاسی شعور دیا۔ انہیں سیاست کے میدان میں داخل کیا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے ان لوگوں کی عقل پر۔

غیر تجربہ کار، محض سیاسی لوگ کچھ نہیں کرسکتے، سوائے پھڈے اور احتجاجوں کے۔ ملک کے مسائل بہت پیچیدہ ہوتے ہیں، ان کو حل نعروں اور خالی وعدوں سے نہیں کیا جاسکتا۔ قابل، تجربہ کار، حقائق اور تحقیق سے روشناس اور ایمان دار لوگ ہی ملک کے مسائل حل کرسکتے ہیں۔ اور ایسے لوگ یک دم نہیں پیدا ہوتے۔ کئی سالوں کی تحقیق، محنت اور تجربے کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ محض کسی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوجانے سے، اس کے جھنڈے کو پکڑ کر اس کے نعرے مارنے سے اور اس جماعت کے سربراہ کو اقتدارتک پہنچانے سے ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

پاکستان کے قیام کے وقت قائد اعظم اچھی طرح جان گئے تھے کہ نوجوانوں کو سیاسی طور پر سرگرم کیا جارہا ہے۔۔ اور وہ بھی منفی انداز میں۔ لہذا انہوں نے اپنی کئی تقاریر میں اس بات کی نشاندہی کی اور نوجوانوں کو متنبہ بھی کیا۔ وہ چاہتے تھے، جیسے کہ سر سید نے کہا، کہ نوجوان اپنی کردار سازی اور اپنی تعلیم پر توجہ دیں۔ وہ پہلے اس قابل بنیں، اس قدر تجربہ کار بنیں کہ بعد میں وہ ملک کی خدمت کرسکیں۔ اپنی 21 مارچ، 1948ء کی تقریر میں قائد اعظم محمد علی جناح نے کہا:

"لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے درمیان بیرونی ایجنسیوں کی مالی معاونت حاصل کرنے والے لوگ ہیں جو (ہمارے ملک میں) خلل پیدا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اِن (لوگوں) کا مقصد پاکستان کو تباہ و برباد کرنا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ محتاط رہیں، میں چاہتا ہوں کہ آپ چوکس رہیں اور پر کشش اور توجہ حاصل کرنے والوں نعروں سے متاثر نہ ہوں"۔ (ص101، قائد اعظم محمد علی جناح سپیچز ایز گورنر جنرل اوف پاکستان، 1947-1948، سنگِ میل پبلیکیشنز، لاہور، 2013ء)

نوجوانوں سے بالخصوص مخاطب ہوکر انہوں نے کہا:

"میرے نوجوان دوست اور طلبا جو یہاں موجود ہیں میں آپ کو بتاتا چلوں۔۔ آپ (اپنی زندگی کی) سب سے بڑی غلطی کریں گے اگر آپ کسی بھی سیاسی جماعت کے ہاتھوں استعمال ہونگے۔۔ میرے نوجوان دوستو! میں آپ کو پاکستان کے معمار کے طور پر دیکھ رہا ہوں، (لہذا)کسی کے ہاتھوں غلط استعمال نہ ہوں اور گمراہ نہ ہوں"۔ (ص103)

پھر قائد اعظم نے نوجوانوں کو ان کا اصل مقصد بتایا۔ انہوں نے کہا:

"آپ کا بنیادی مشغلہ یہ ہونا چاہیے، اپنے آپ کے ساتھ انصاف کرنا، اپنے والدین کے ساتھ انصاف کرنا، ریاست کے ساتھ انصاف کرنا، اپنی توجہ اپنی تعلیم پر مرکوز کرنا۔ اگر آپ ابھی اپنی (مطالعے اور پڑھائی سے وابستہ) توانائیاں (سیاسی سرگرمیوں میں ) ضائع کردیتے ہیں تو آپ کو ہمیشہ (مستقبل میں) پچھتانا پڑے گا"۔ (ص103)

انہوں نے اپنی تقریر میں بار بار دشمنان پاکستان کے عزائم بیان کیے۔ کہا:

"قیام پاکستان کو روکنے میں ناکام، ناکام اور اپنی ناکامی سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان کے دشمنوں نے اب پاکستان کے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرکے ریاست کو تباہ کرنے پر توجہ مرکوز کر لی ہے"۔ (ص103)

اور اس بات کو انہوں نے ایک بار پھر دہرایا۔ بولے:

"میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ جو لوگ پاکستان کے دشمن ہیں ان کے جال میں نہ آئیں۔ بدقسمتی سے، آپ کے (درمیان) ففتھ کالمنسٹز (دشمنوں کے جاسوس) موجود ہیں۔ اور مجھے یہ کہتے ہوئے افسوس ہورہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ جنہیں باہر کے لوگ مالی امداد دیتے ہیں"۔

اسی طرح 24 مارچ، 1948ء کی ان کی تقریر بھی ملاحظہ کیجیے، جو بالخصوص انہوں نے نوجوانوں کی جانب کی۔ انہوں نے اس تقریر میں آزادی کے بارے میں کچھ فرمایا۔ انہوں نے مغرب کے طرز کی مادر پدر آزادی کو مسترد کیا۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ کے پاس سند ہے کہ آپ جو چاہیں کریں۔ وہ بولے:

"(آزادی) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ریاست اور لوگوں کے مفادات سے قطع نظر ہو کرآپ جیسا چاہیں برتاؤ کرسکتے ہیں اور جو چاہیں کرسکتے ہیں"۔ (ص110)

انہوں نے اس وقت بالکل نئے نئے پاکستان کی ضرورت بتائی۔ انہوں نے کہا:

"اب جس چیز کی ہم کو ضرورت ہے وہ ہے تعمیر ی جذبہ نہ کی عسکری۔۔ تعمیر کرنا بہت مشکل ہے بہ نسبت عسکری جذبے سے آزادی حاصل کرنے کے"۔ (ص110)

اس تقریر میں بھی انہوں نے دشمنان پاکستان کا ذکر کیا اور اس بار انہوں نے فرمایا کہ۔۔ خیر، آپ خود سن لیجیے قائد اعظم نے کیا کہا۔ وہ بولے:

"اس ریاست کے مسلمانوں کی یکجہتی کو مجروح کرنے اور لوگوں کو لاقانونیت کے کاموں پراکسانے کے مقصد سے روزانہ جھوٹے پروپیگنڈے کا ایک سیلاب کھڑا کیا جارہا ہے"۔ (ص111)

اس تقریر میں بھی وہ ففتھ کالمنسٹز کا ذکر کرتے ہیں اور پہلے کی طرح نوجوانوں کو متنبہ کرتےہیں کہ وہ ان لوگوں کے عزائم کو سمجھیں۔

دوستو! وقت کی قلت کے باعث قائد اعظم کی اس تقریر پر ہم گفتگو اگلے مضمون میں کریں گے۔ لیکن جاتے جاتے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دو منٹ کے لیے سوچیں قائد اعظم جن حرکتوں سے باز آنے کو کہہ رہے ہیں، وہ کس سیاسی جماعت نے آج اپنائی ہیں؟ کس جماعت کے اوپر "فارن فنڈگ"(بیرونی ممالک کی مالی معاونت) کا فیصلہ عدالت نے سنایا ہے؟ نوجوان آج، اپنی لاعلمی اور جہالت اور کم عقلی میں، کس سیاسی رہنما کے ہاتھوں غلط استعمال ہورےہیں؟ کون آج نوجوانوں کو پڑھائی اور والدین اور ریاست سے دور کر رہا ہے؟ کون جھوٹے پروپگنڈے کا استعمال کرکے لوگوں کو ریاست کے خلاف غیر قانونی اور شر انگیز حرکتیں کرنے پر اکسا رہا ہے؟ کون آج ریاست تباہ کرنا چاہ رہا ہے؟ کون آج پر کشش نعروں سے بیوقوف لوگوں کو مزید بیوقوف بنا رہا ہے؟ کس نے معاشرے کو تقسیم کیا ہے؟ کون آج تعمیری جذبے کے بجائے عسکری جذبے کو فروغ دے رہا ہے؟ جو ہر بات پر ریاست کے خلاف جانے اور "آزادی"حاصل کرنے کی بات کرتا ہے؟ کو ن آج آزادی کا غلط استعمال کر رہا ہے؟ جواب سب کو معلوم ہے۔

خیر، دوستو! اگلی قسط میں ملاقات ہوگی۔ فی الحال مجھے اجازت دیجیے۔ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔ اور ہاں! اگر یہ اقساط آپ کو متاثر کر ہی ہیں تو انہیں اپنے دوستوں اور عزیزوں میں ضرور تقسیم کیجیے۔ اللہ حافظ!

Check Also

Israel Ka Doobta Hua Bera

By Azam Ali