Mughalitistan Aur Imran Khan, Inqilab Ki Haqeeqat (14)
مغالطستان اور عمران خان: انقلاب کی حقیقت (14)
دوستو! پچھلی قسط میں ہم نے رسول اللہﷺکی ایک تعلیم کا ذکر کیا تھا۔ رسول اللہﷺکا کہنا تھا کہ حاکم کی اطاعت مسلمان پر لازم ہے۔۔ چاہے وہ حاکم ہمیں پسند ہو یا نہ ہو۔ البتہ حاکم کی غلط بات کی پیروی کرنے سے بھی رسول اللہﷺنے منع فرمایا۔ انہوں نے کہا کہ اُس صورت میں حاکم کی بات ماننا ہمارے اوپر لازم نہیں۔ یعنی اسلام نے بغاوت کے راستے کو بند کردیا۔ ہر صورت ہم نے صبر سے حاکم کو برداشت کرنا ہے، چاہے وہ جیسا بھی ہو، البتہ حاکم کے غلط احکامات سے بچنے کی اجازت ضرور ہے۔
اور ہاں! اگر حاکم اور انتظامیہ آپ کے دین پر حملہ آور ہوتی ہے، اور آپ کے پاس (عددی، معاشی یا عسکری)طاقت نہیں اپنے دین کو محفوظ کرنے کے لیے، تو اس صورت میں اسلام نے ہجرت کی اجازت دی ہے۔ لیکن یہ بھی تب ہے جب حکومت اور حکمران آپ کے دین کے خلاف کھلے عام کروائیاں کریں۔ بصورت دیگر پچھلی قسط کی تعلیم کو بجا لانا ہرمسلمان پر لازم ہے۔ ہمیں چاہے ہمارا حاکم پسند ہو یا نہ ہو، اس کی اطاعت ہم سب پر لازم ہے۔
اب یہ بات آج کے اکثر دانشور اور سیاستدان ماننے سے قاصر ہیں۔ آج تو محنت ہی اس بات پر ہورہی ہے کہ کیسے ظالم نظام اور حکمران کو راستے سے ہٹایا جائے۔ اور یہ سوچ پھر انقلاب اور معاشرے کے نظام کو گرانے کی بات تک پہنچ جاتی ہے۔ لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ جب تک وہ اٹھیں گے نہیں، وہ راستوں اور شاہراہوں کو بند نہیں کریں گے، ریاست کے خلاف بغاوت نہیں کریں گے، تب تک ملک میں امن قائم نہیں ہوگا۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس قسم کی کاروائیاں صرف امن تباہ کرتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ظالم حکومت اور نظام سے لوگوں کو نقصان ہے، لیکن اس مسئلے کا حل بغاوت، دھرنے، احتجاج اور نظام گرانے میں پنہاں نہیں۔
بلکہ کچھ تو مزید یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ جب تک موجودہ حکومت اور نظام اور انتظامیہ کے لوگوں کو سر عام پھانسی نہیں دی جائے گی، انہیں قتل نہیں کیا جائے گا، تب تک ملک صاف نہیں ہوگا۔ یہ بات ہمارے کئی انقلابی دانشور وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک پھانسی اور قتل ہی ایک راستہ ہے جس سے معاشرہ بچے گا۔ کئی ان میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے آپ کو دین کا دوست بتاتے ہیں۔ لیکن ایسی بات کہہ کر وہ اپنی دین سے لاتعلقی اور لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں۔
کے پی کے صوبے کے وزیر اعلی، علی امین گنڈا پور صاحب کا یہ بیان ملاحظہ کیجیے، فرماتے ہیں کہ:
"قومیں انقلاب سے بنتی ہیں، یہاں انقلاب نہیں ہے۔ یہاں ارتقاء ہے۔ "(پروگرام"خبر" جس کی میزبانی مہر بخاری صاحبہ کرتی ہیں، مورخہ 30 اپریل، 2024ء اے آر وائے پر نشر ہوا)۔
یہ لوگ اپنے ہی لفظوں کے ذریعے اپنی جہالت کا ثبوت دے دیتے ہیں۔ میں نے پچھلی قسط میں کہا تھا کہ ہم رسول اللہﷺ کی تعلیم کو تاریخی حقائق سے جوڑیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر میں نے اتنی بحث ابتدا میں اس انقلابی ذہنیت پر کیوں کی؟ کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ آپ کو پتہ چلے کہ جو لوگ اپنی تقریر میں"اسلامی ٹچ"دیتے ہیں، ان کا اسلام سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستان سے، یا نریندر مودی کا مسلمان سے۔ ساتھ ساتھ میں یہ بھی دکھانا چاہتا ہوں کہ جو لوگ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اپنی دانشوری کی دکان چمکا رہے ہیں وہ کتنے اسلام کی تعلیم سے عاری اور لاعلم ہیں۔
اب کیونکہ ہم نے ان غلط لوگوں کی غلط ذہنیت آ پ کے سامنے کھول دی ہے، اور رسول اللہﷺ کی تعلیم بھی آپ کے سامنے رکھ دی ہے، اب آئیے حقائق اور تاریخ کی دنیا میں داخل ہوکر دیکھتے ہیں کہ کون صحیح ہے۔ کس کی بات زیادہ مفید ہے۔ کس کی بات میں زہر ہے اور کس کی بات میں عافیت۔
آپ گوگل پر جاکردنیا کے دس خوشحال ممالک(ہیپئیسٹ کنٹریز)کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ اور پھر جو دس ممالک کے نام آپ کو ملیں ان میں سے کھوج لگائیں کہ کتنے ممالک میں انقلاب آیا۔ کتنےخوشحال ممالک میں حکمرانوں کو چوک پر لٹکایا گیا، کتنے خوشحال ممالک کے نظام اتھل پتھل کیے گئے۔ جواب یہ ہے کہ دس خوشحال ممالک میں سے کوئی بھی ایسا ملک نہیں جہاں انقلاب آیا۔ جہاں نظام اور حکمرانوں کو عبرت کا نشان بنایا گیا۔ دراصل یہ ہیں دنیا کے دس خوشحال ممالک:
1۔ فنلینڈ
2۔ ڈینمارک
3۔ آئیسلینڈ
4۔ سویڈن
5۔ اسرائیل
6۔ نیتھرلینڈز
7۔ نوروے
8۔ لکسمبرگ
9۔ سوزرلینڈ
10۔ آسٹریلیا
اب اگر آپ صرف وکی پیڈیا پر جاکر ان ممالک کے بارے میں پڑھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں سے کئی ممالک میں آج تک بادشاہت زندہ ہے۔ (اس کا مطلب ہر گز یہ نہ لیا جائے کہ یہ ممالک اس لیے خوشحال ہیں کیونکہ یہاں بغاوت نہیں ہوئی یا نظام نہیں تبدیل کیا گیا۔ کامیابی اور خوشحالی کے پیچھے کئی عوامل ہیں۔ لیکن کم از کم بغاوت اور حکومت کا تختہ الٹنا ان عوامل میں دور دور تک شامل نہیں)۔
اس کے برعکس آپ شام، لبیا، اور دیگر مشر ق وسطی کے ممالک کا حال دیکھ لیجیے، جہاں گنڈا پور اور عمران خان جیسے لوگوں کا خواب آج سے کئی سالوں پہلے، ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ پہلے، شرمندہ تعبیر ہوا۔ لبیا میں لوگ کرنل قذافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، سوشل میڈیا کا استعمال کرکے، مغرب اور امریکا کی مدد حاصل کرکے، نظام بھی گرایا گیا، کرنل قذافی کو سفاکی کے ساتھ قتل بھی کیا گیا اور اس دردناک واقعے کی وڈیوز بھی بنائی گئیں، جشن بھی منایا گیا، لیکن آج وہ ملک کس حال میں ہے؟ ایک ایسا ملک جس کا مرکز قائم تھا، جو ٹکڑے ٹکڑے نہیں تھا، وہاں آج دو متصادم حکومتیں قائم ہیں۔ ایک حکومت ہی نہیں بن سکی اتنے سالوں بعد بھی۔ اور وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا کیا حال ہے؟ آپ مڈل ایسٹ مونیٹر کے ایک مضمون (مورخہ اپریل 13-2023ء) کو ملاحظہ کیجیے جس کا عنوان ہے:
"Libyas human rights situation is worse than what it was under Gaddafi"
اس مضمون کے مطابق اب لبیا میں ایک مضبوط مرکزی حکومت بھی نہیں ہے اور ساتھ ساتھ حالات کرنل قذافی کے وقت سے بھی زیادہ برے ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر، کئی لوگ شام، لبیا جیسے ممالک سے نقل مکانی کرکے یورپ اور امریکا بھاگ رہے ہیں۔ شام کے حالات کے بارے میں بھی آپ انٹرنیٹ پر جاکر پڑھ سکتے ہیں، تقریباً وہی صورت حال ہے جو لبیا میں ہے۔ ان سارے ممالک میں جب نوجوان سڑکوں کی راہ لے رہے تھے، حکومت گر ارہے تھے، سوشل میڈیا کا استعمال کرکے ریاست مخالف کاروائیاں کر رہے تھے، تب پوری دنیا کو لگ رہا تھا کہ اب یہ ممالک آمریت کی زنجیر سے آزاد ہوکر خوشحال ہونگے۔ نتیجہ کیا ہے، سب کو معلوم ہے۔ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد وہاں کوئی تگڑی مرکزی حکومت، فوج اور نظام ہی موجود نہیں۔
مزید اس حوالے سے "ہیٹی"ملک کی مثال بھی دی جاسکتی ہے۔ کیونکہ"حقیقی آزادی "ملے ہیٹی کو دو صدیوں سے بھی زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ ہیٹی ایک وقت میں فرانسیسیوں کی کالونی تھا، جیسے بھارت اور موجودہ پاکستان ایک وقت میں انگریزوں کی کالونی تھے۔ ہیٹی کو ایک وقت میں"پرل اوف دی اینٹیلیز" کہا جاتا تھا۔ پرل یعنی کہ موتی اور اینٹلیز یعنی کہ ویسٹ انڈیز کے مختلف جزیرے(جن میں ہیٹی شامل ہے)۔ ایک وقت تھا جب ہیٹی کی چینی اور کوفی اور مختلف ذریعی پیداوار اس قدر وسیع تھی کہ مکمل جنوبی امریکا کی ہسپانوی سلطنت اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ لیکن پھر 1791ء میں ہیٹی کے کالوں (سیاہ فام افریقیوں)نے بغاوت شروع کی جس نے 13 سال ملک کو بد امنی اور جنگ میں دھکیل دیا۔
ہیٹی کے کالوں نے گورے فرانسیسیوں کو قتل کرنا شروع کیا، ان کی عورتوں کی عزت پر حملہ آور ہوئے اور 1804ءمیں ہیٹی ایک آزاد ملک بن گیا۔ تمام فرانسیسی، جو پہلے وہاں حاکم تھے، پھانسی اور تلوار اور گولی کی نذر ہوگئے۔ جو ہمیں بار بار انقلاب کا خواب دکھایا جاتا ہے، حکمرانوں کو چوک پر لٹکانےکی بات کی جاتی ہے، دو صدیوں پہلے ہیٹی وہ خواب دیکھ بھی چکا ہے اور پورا بھی کر چکا ہے۔
ہیٹی کا آج کیا حال ہے، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ آپ نے آج تک کبھی ہیٹی کا نام سنا ہے؟ کبھی کوئی آپ کا رشتے دار یا جاننے والا وہاں نوکری، ملازمت یا شہریت کے حصول کے لیے گیا ہے؟ ہیٹی کے حالات آج کیا ہیں، اس پر میں وقت ضائع ہی نہیں کرونگا۔ آپ محض کوئی بھی دستاویزی فلم، کوئی بھی مضمون یا کتاب اس حوالے سے ملاحظہ کر لیں، آپ کو پتہ چل جائے گا۔
یاد رہے یہ وہ ملک ہے جہاں امریکا کو صدر وڈرو ولسن کے دور میں مداخلت کرنی پڑی۔ امریکیوں نے 19 سال پچھلی صدی میں ہیٹی پر حکومت کی۔ حالات بدلنے لگے، لیکن جب امریکی واپس گئے تو حالات معمول پر آگئے(یعنی کہ بد امنی اور خانہ جنگی)۔ آج تک ہیٹی کو مستحکم حکومت اور امن نصیب نہیں ہوا۔ ملک آج تک بدترین بد امنی، بد نظمی اور عدم استحکام کا شکار ہے۔
کبھی آپ کو لگے نا کہ ہم کتنے بدترین ملک میں زندگی گزار رہے ہیں، یہاں یہ نہیں، یہاں وہ نہیں، تو کبھی ہیٹی کے حالات پر وڈیوز اور دستاویزی فلم ضرور دیکھ لیجیے گا۔ آپ کو پتہ چلے گا کہ ہم کتنے خوشنصیب ہیں۔ لیکن اس کے لیے شکر کا جذبہ چاہیے۔ ورنہ شکایتی تو کسی بھی صورت میں خوش نہیں ہوگا۔
اسی طرح آپ نے کئی نوجوانوں کو چی گویرا کی تصویر لگاتے دیکھا ہوگا۔۔ اور وہ بھی ایسی تصاویر جن میں چی گویرا تمباکو نوشی کرتے ہوئے نظر آئیں گے، کسی توتصویر میں سگار کے کش لگاتے ہوئے ملیں گے تو کسی میں بہت سارا دھواں اپنے منہ سے ہوا میں خارج کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ایسی تصاویر سے نوجوانوں کو کیا ترغیب مل رہی ہے؟ تمباکونوشی مضر صحت ہے۔ لیکن خیر کیا کریں۔۔
البتہ سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ چی گویرا کی تصاویر لگانے والے نوجوانوں میں سے کتنے کیوبا کی شہریت کے لیے عرضی دیتے ہیں؟ جو لوگ بھی چی گویرا کی تصویر لگاتے ہیں ان سے پوچھیں کہ اس انقلابی بندے کی تصویر تم لوگ لگاتے ہو، لیکن اس انقلابی نے کونسی شے پیدا کی ہے، کیا کارناما انجام دیا ہے جس کی وجہ سے تم اس کے مداح ہو؟ موبائل سے لے کر ٹی وی تک، برآمدات سے لے کر درآمدات تک، دوائیوں سے لے کر آئی ٹی ایپس اور ویب سائٹز تک، کوئی بھی ایسی شے ہے جسے کیوبا نے فراہم کیا ہو؟ کوئی بندہ ہے جو کیوبا جانا چاہتا ہے۔ خودیہ انقلابی ذہن کے لوگ امریکا اور یورپ کی پناہ لیتے ہیں، وہاں جاکر "امریکی سازش" اور "رجیم چینج " کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔ ان کے بچے مغرب میں پڑھتے ہیں، لیکن ان کو مثال ان لوگوں کی دینی ہے جو مغرب کے خلاف ہیں۔ الٹا، آج امریکا کی جنوبی سرحد پر کئی کیوبا سے بھاگے ہوئے لوگ آپ کو ملیں گے جو کیوبا کی حالت سے بیزار کسی اور ملک کی راہ لینا چاہ رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر اتنے نوجوان چی گویرا کی تصویر کیوں لگاتے ہیں، اسے ہیرو کیوں مانتے ہیں؟ یہاں آکر میں یہ کہوں گا کہ یہ ہمارے والدین کی تربیت اور ہمارے تعلیمی نظام پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ہم زیادہ بچے پیدا کرنے والی قوم بن گئے ہیں، لیکن ان بچوں کی تربیت اورصحیح ذہن کے لیے ہم کچھ بھی نہیں کرتے۔ لہذا آج پاکستان مغالطستان بن گیا ہے۔ کسی بھی چی گویرا کی تصویر لگانے والے سے پوچھیں کہ اس نے چی گویرا کے بارے میں پڑھا کتنا ہے؟ اس نے کتنی کتب کا مطالعہ کیا ہے جو چی گویرا پر لکھی گئی ہیں؟ جواب آپ کو صفر ملے گا۔ اکثر نے نہ کوئی کتاب پڑھی ہوگی، نہ کوئی تحقیق کی ہوگی۔ بس جاہلوں کی طرح دوسروں کو دیکھ کر اس کام پر لگے ہونگے۔ انہیں بس بتا دیا گیا ہے کہ یہ آزادی کا سپاہی تھا، یہ امریکی سامراجیت کے خلاف تھا، وغیرہ وغیرہ۔ انہیں اس بات سے آپ بالکل لاعلم پائیں گے کہ آج کیوبا کا کیا حال ہے۔
انجیل میں (متی، ساتویں کتاب، آیت 15 تا 20) یہ واضح کردیا گیا ہے کہ غلط لوگ جو اچھائی کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں آپ انہیں ان کے پھلوں سے پہچان لیں گے۔ اور یہ کہا گیا ہے کہ اچھا درخت برے پھل نہیں دے گا اور برا درخت اچھے پھل نہیں دے گا۔ اسی طرح قرآن پاک میں بھی درج ہے کہ "اور لوگوں میں کوئی تو ایسا ہے کہ آپ کو اس کی بات دنیا کی زندگی میں بہت بھلی لگتی ہے اور جو کچھ اس کے دل میں ہے اس پر وہ اللہ کو گواہ ٹھہراتا ہے، حالانکہ وہ سخت جھگڑالوہے۔ اور جب وہ پلٹتا ہےتو کوشش کرتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے کھیتوں اور نسل کو تباہ کرے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا"۔ (سورۃ البقرۃ، آیت204 تا 205)
آپ سیدھا سیدھا انقلاب کے پھل دیکھ لیجیے۔ آپ کس ملک میں آج اپنا سرمایہ ڈالنا چاہیں گے؟ لوگ کن ملکوں کی شہریت چاہتے ہیں؟ کہاں خوشحال لوگوں کے بچے پڑھتے ہیں اور نوکریاں کرتے ہیں اور جائیدادیں بناتے ہیں؟ جواب بچے بچے کو پتہ ہے۔ انقلاب اور بغاوت کے نتیجے میں کوئی بھی ایسا ملک پیدا نہیں ہوا جو آج خوشحال ہے، جہاں لوگ اپنا سرمایہ ڈالنا چاہتے ہیں، جہاں لوگ رہائش اختیار کرنا چاہتے ہیں۔
بہت سے لوگ آج گھر بیٹھ کر یوٹیوب کے ذریعے، ٹک ٹاک کے ذریعے اور فری لانسگ ذرائع کے ذریعے پیسے کما رہے ہیں، ملک کو بیرونی کرنسی کما کر دے رہے ہیں، اپنی زندگی بہتر بنا رہے ہیں، ان میں سے کئی ہیں جن کے ماضی کو ان کے حال سے جوڑ کر دیکھیں گے تو آپ حیران ہوجائیں گے۔۔ وہ کل تک غریب تھے، آج کئی عالمی پلیٹفارمز کے ذریعے وہ کروڑ پتی بن گئے ہیں۔ یہ سارے پلیٹ فارمز کسی بھی انقلابی ملک کی پیداوار ہیں؟ آپ خود کھوج لگائے، پتہ چل جائے گا۔
دوستو! وقت کی قلت باعث ہم فی الحال اپنی گفتگو کو التوا کا شکار کر تے ہیں۔ انشاء اللہ آپ سے اگلی قسط میں ملاقات ہوگی۔ تب تک کے لیے اپنا خیال رکھیے گا۔ مجھے اجازت دیجیے۔ اللہ حافظ!
اور ہاں! اگر ہمارے یہ مضامین آپ کے دل کو لگیں، آپ کو پسند آئیں، تو انہیں اپنے جاننے والوں اور عزیزوں میں ضرور تقسیم کیجیے گا۔ اللہ حافظ!