Mughalitistan Aur Imran Khan, Imran Khan Ki Zindagi (11)
مغالطستان اور عمران خان: عمران خان کی زندگی (11)
دوستو! پچھلی قسط میں ہم نے آپ کو قائد اعظم کی نصیحت، ان کی نوجوانوں کو تنبیہ اور ان کی نوجوانوں کے حوالے سے حکمت عملی سے آگاہ کیا تھا۔ ہم نے آپ کو بتایا کہ قائد اعظم نوجوانوں سے کیا توقعات رکھتے تھے۔ ہم نے سرتاج عزیز کی مثال بھی پیش کی۔ آئیے، اب ہم اپنی گفتگو کو مزید آگے بڑھاتے ہیں۔
ہم نے قائد کی نصیحت تو جان لی۔ اب آئیے ہم عمران خان، جو کہ آج نوجوانوں کے پسندیدہ رہنما ہیں، ان کے بارے میں کچھ حقائق آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔
2011ء میں عمران خان کی ایک کتاب چھپی تھی جس کا عنوان تھا "پاکستان: آ پرسنل ہسٹری"۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں اکثر عمران خان کے شیدایوں نے یہ کتاب پڑھی بھی نہیں ہوگی۔ کئی اپنے گھر میں سجانے کے لیے اس کتاب کو ضرور رکھتے ہیں، لیکن اگر وہ اس کتاب کا صحیح مطالعہ کریں (ساتھ ساتھ دیکھیں کہ آج عمران خان کیا کر رہے ہیں)تو انہیں پتہ چلے کہ عمران خان کتنے بیوقوف ہیں۔ آئیے ان کی کتاب کے چند حصے آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
کتاب کے چھٹے باب (ص198) کی ابتدائی سطور میں عمران خان لکھتے ہیں کہ ان کی ماں نے انہیں ایک نصیحت کی جب وہ انگلستان جارہے تھے پہلی بار۔ ان کی والدہ محترمہ نے انہیں کہا: "انگریز بیوی مت لانا واپسی میں۔ "یعنی ان کی والدہ نے انہیں کسی گوری سے شادی کرنے سے منع فرمایا۔ ان کی والدہ کا ماننا تھا، جو بات صحیح بھی ہے، کہ گوری ہمارے معاشرے میں آسانی سے ڈھل نہیں سکتی۔ لیکن ہمارے کپتان صاحب لکھتے ہیں، غور سے ان کے الفاظ ملاحظہ کیجیے گا، کیونکہ اپنی جہالت اور حماقت کا کھلا ثبوت وہ اپنی ہی تحریر سے دے رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
"میرے زندگی کےزیادہ تر فیصلے، من کی موج، اپنی خواہشوں، خوابوں اور جذبوں کا پیچھا کرتے ہوئے، کیے گئے ہیں اور شاز و نادر ہی عقلیت اور منطق کے ذریعے (فیصلے کیے گئے ہیں)"۔
یہ وہ جملہ ہے جو عمران خان کی پوری اصلیت کھول کر رکھ دیتا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جو حقیقت، منطق، حقائق اور دلیلوں کو ترجیح نہیں دیتا۔ بلکہ یہ وہ شخص ہے جو اپنی ماں کی عقلی اور جائز نصیحت تک کو سنجیدہ نہیں لیتا۔ یہ شخص خود اپنی ہی کتاب میں لکھتا ہے کہ وہ حقیقت پسند کم ہے، البتہ خوابوں اور خواہشوں اور جذبوں کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔
کتاب کے صفحہ نمبر 38 میں عمران خان لکھتے ہیں کہ ا ن کی والدہ زبردستی ان کا ہوم ورک مکمل کرواتی تھیں اور اسی صفحے میں وہ یہ بات بھی بیان کرتے ہیں کہ کھیل کی وجہ سے انہیں پڑھائی میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ جیفری لینگلینڈ ایک انگریز ٹیچر تھے ایچسن کالج میں جہاں عمران خان پڑھے۔ انہوں نے عمران خان سمیت کئی ہمارے اہم سیاستدانوں کو پڑھایا ہے جیسے کہ چودہری نثار، اعتزاز احسن، پرویز خٹک، وغیرہ وغیرہ۔ سہیل وڑائچ صاحب نے لینگلینڈ صاحب کا ایک انٹرویو لیا تھا اپنے پروگرام "ایک دن جیو کے ساتھ " میں (مورخہ 23 مئی، 2014ء)۔ انٹرویو کے دوران لینگلینڈ بتاتے ہیں کہ انہوں نے کئی سیاستدانوں کو پڑھایا، بشمول اعتزاز احسن اور عمران خان۔ لینگلینڈ صاحب انٹرویو میں اعتزاز احسن کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ بہت ذہین طالب علم تھے۔ اسی طرح وہ چودہری نثار کی بھی پڑھائی کے حوالے سےتعریف کرتے ہیں۔ لیکن عمران خان کے بارے میں فرماتے ہیں: "عمران خان کبھی بھی اچھا طالب علم نہیں تھا۔ " البتہ عمران خان کی کرکٹ کی صلاحیت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ سب کو پتہ تھا کہ ایک دن وہ بہت بڑا کرکٹر بنے گا۔ لہذا عمران خان کی صلاحیت صرف کرکٹ میں تھی۔ بطور طالب علم انہیں پڑھائی سے دلچسپی نہیں تھی۔
اب ایسا نہیں ہے کہ جو اسکول کالج میں اچھی پڑھائی کرتے ہیں وہی ذہین ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ بعد میں مطالعہ اور تحقیق کے ذریعے یا اپنی پڑھائی کو بعد میں اچھی طرح مکمل کرکے اپنی ذہانت کا لوہا منوا لیتے ہیں۔ اور ذہین (ساتھ ایماندار)لوگ ہی کچھ اچھا کرسکتے ہیں۔ لیکن عمران خان کی مثال ان لوگوں میں شمار نہیں ہوتی۔ وہ آج تک مطالعے اور تحقیق سے عاری ہیں۔ لیکن صدقے جاؤں اس قوم کے جو ایسے شخص کو اپنا نجات دہندہ سمجھتی ہے۔ عمران خان کی صلاحیت صرف کرکٹ میں تھی یا ہے۔ اور کرکٹ کی صلاحیت سے ملک ٹھیک نہیں ہوتا۔ ملک کے اہم پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے ایسے بندے نہیں چاہیے ہوتے جو حقیقت پسندی میں یقین نہ رکھتے ہوں، جو ببانگ دہل یہ کہتے ہوں کہ ہم تو اپنی خواہشوں اور جذبوں اور خوابوں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔
اب پڑھائی سے آگے دیکھتے ہیں کہ عمران خان نے کرکٹ کے علاوہ کون کون سی نوکریاں کی ہیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں عمران خان فرماتے ہیں (یہ انٹرویو سنو ٹی وی پر نشر ہوا، مورخہ 25 دسمبر 2022ء، البتہ یہ ریکارڈ 20 اکتوبر 2022ء کو کیا گیا تھا):
"جاب میں نے صرف پہلے سال(کی)۔۔ پہلے جب میرا۔۔ جو پہلا سال تھا۔۔ آکسفرڈ میں، کیونکہ اس وقت میرے پاس پیسے ختم ہوگئے"۔
ہارون الرشید جو عمران خان کا انٹرویو لے رہے تھے، بیچ میں کہتے ہیں:
"سیلز مین کا کام؟"
عمران خان کہتے ہیں:
"یونیورسٹی اسٹوڈنٹز کے لیے جوب ہوتی ہے کرسمس جوب۔ تو تین ہفتے کی جوب تھی۔ تو دس دن میں لاسٹ کیا، کیونکہ دو تین میری لڑائیاں ہوئیں، انہوں نے پھر مجھے نکال دیا دس دن کے بعد"۔
ہارون الرشید اس بات پر کہتے ہیں (یاد رہے یہ خود عمران خان کے شیدائی ہیں، انہیں بہت قریب سے جانتے ہیں):
"نوکری کے قابل توآپ نہیں ہیں"۔
یہ کہنے کے بعد اینکر ہارون الرشید ایک طنزیہ قہقہہ بھی مارتے ہیں۔
یہ ہے وہ شخص جو کہتا ہے کہ میں ملک کے سارے مسائل ٹھیک کردوں گا۔ جو لوگ انہیں فتنہ کہتے ہیں وہ بالکل صحیح ہیں۔ موصوف خود فرماتے ہیں کہ پہلی بار جب انہوں نے کوئی نوکری کی تو وہاں بھی پھڈے اور لڑائیوں میں مصروف ہوگئے۔ اور انہیں پھر ان کی فتنہ انگیزی کی وجہ سے نوکری سے نکال دیا گیا۔
1984ء میں"60 منٹزآسٹریلیا" نے عمران خان پر ایک مختصر دستاویزی فلم بنائی تھی۔ دستاویزی فلم کی ابتدا میں کچھ تمہیدی کلمات کہے جاتے ہیں۔ ذرا غور سے ملاحظہ کیجیے کن لفظوں کے ذریعے عمران خان کا تعارف کیا جارہا ہے۔ سینے یا پڑھیے:
"اگر آپ کرکٹ سے بیزار ہیں یا اس میں دلچسپی نہیں رکھتے تو دیکھتے رہیے۔ کیونکہ یہ کرکٹ کی کہانی نہیں۔ بلکہ (یہ کہانی) ایک امیر اور شاید بگڑے ہوئے نوجوان لڑکے کی ہے جو اب تک دو دنیاؤں کے بہترین مزے لے رہا ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں تمام کرکٹ کے ابھرنے والے ستاروں میں سے، عمران خان شاید اس قسم کے شو بزنس ہائپ کی بہترین نمائندگی کرتے ہیں جو اب کھیل کو چاہے برے یا اچھے کے لیے گھیرے ہوئے ہے۔ انگلستان اور اسٹریلیا میں اس نے اتنی ہی پریس کو متوجہ کیا ہے جتنا ایک سیکس سمبل کرتا ہے۔۔ جو کہ ستم ظریفی (کی بات) ہے کیونکہ وہ دنیا کے قدامت پرست ترین ملک سے تعلق رکھتا ہے"۔
سبحان اللہ! کتنی شاندار تعریف ہے۔ عمران خان کو ایک امیر اور بگڑا ہوا نوجوان کہا جارہا ہے۔ انہیں سیکس سمبل کہا جارہا ہے۔ خیر، اس دستاویزی فلم میں بھی عمران خان اپنی نوکری کے حوالے سے بیزاری کو ظاہر کرتے ہیں۔ جس سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ کرکٹ کے علاوہ یہ کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ انٹرویو لینے والا آخر میں عمران خان سے سوال کرتا ہے:
"عمران خان اور کیا کرسکتا ہے سوائے گیند پھینکنے کے اور زور سے بلے سے گیند مارنے کے؟"
سوال سن کر عمران خان ہنسنے لگتے ہیں۔ کہتے ہیں:
"تم نے تو مجھے ایک بیوقوف ظاہر کردیا۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں جو بھی کروں زندگی میں اس میں مقابلہ (چیلنج)ضرور ہونا چاہیے۔ کیونکہ ورنہ۔۔ اس سے زیادہ کچھ بھی برا نہیں ہوسکتا، جب میں اپنے آپ کو ذہن میں لاتا ہوں ایک میز کی پیچھے بیٹھا ہوا اور صرف کام کرتے ہوئے 9 بجے سے 5 بجے تک اور مہینے کے آخر میں تنخواہ وصول کرتے ہوئے۔ مجھے لگتا ہے (اس صورت) میں مر جاؤں گا"۔
یہ یقین مانیے عمران خان کے الفاظ ہیں۔ یہ شخص ایک سکون والی زندگی نہیں چاہتا۔ اسے مقابلہ چاہیے۔ یہ 9 سے 5 تک کام کرنے کو اور مہینے کے آخر میں تنخواہ کمانے کو موت سے تشبیہ دیتا ہے۔ اور عمران خان جو ہر حوالے سے یوٹرن لے چکے ہیں، اس حوالے سے انہوں نے مستقل مزاجی دکھائی ہے۔ کئی سالوں بعد 2012ء میں جب مہر بخاری کو انہوں نے انٹرویو دیا (مورخہ 7 جون، 2012ء، دنیا نوز، پروگرام: کروس فائر)تب بھی ایسی ہی بات کہی۔ مہر بخاری ان سے پوچھتی ہیں:
"آپ کیوں نہیں ایچوکیشن کے پیچھے پڑ گئے بس؟ سیاست کا یہ کیا نشہ ہے؟"
دراصل مہر بخاری یہ پوچھ رہی تھیں کہ سیاست ہی کا انتخاب آپ نے کیوں کیا؟ تعلیم اور دیگر شعبوں کے ذریعے بھی تو خدمت کی جاسکتی ہے ملک کی۔ اور یاد رہے عمران خان یہ کہہ چکے ہیں۔ 1995ء میں بھی 60 منٹز کی دستاویزی فلم بنی تھی عمران خان اور ان کی سابق اہلیہ جمائمہ پر۔ اس میں عمران خان نےکہا تھا:
"میرا مقصد یہ ہے کہ اگر میں اپنے ملک کی مدد کرنے کی پوزیشن میں ہوں تو میں کوشش کروں گا۔ اور میں محسوس کرتا ہوں کہ موجودہ حالات میں۔۔ جس طرح سے ہمارا سیاسی نظام اتنا کرپٹ ہے۔۔ میں سیاست سے باہر اپنے ملک کے لیے بہت کچھ کرسکتا ہوں۔ اور میں یہی کرنے کی کوشش کر رہا ہوں"۔
لیکن خیر، عمران خان یو ٹرن لینے کے ماہر ہیں۔ اس وقت انہوں نے مسلسل اپنے کئی انٹرویوز میں کہا کہ وہ سیاست میں نہیں آنا چاہتے۔ ہم نے اس حوالے سے اِن سلسلہ وارمضامین کی ساتویں قسط میں بہت گفتگو کی ہے۔ لہذا ساتویں قسط ضرور ملاحظہ کیجیے گا۔ آج کی گفتگو اُس قسط سے مزیدواضح ہوتی ہے۔
ہم واپس مہر بخاری کے 2012ء کے انٹرویو پر لوٹتے ہیں۔ تو مہر بخاری نے عمران خان سے پوچھا کہ آپ تعلیم کے ذریعے تبدیلی لاتے، سیاست میں کیوں داخل ہوئے؟ اب عمران خان کا جواب ملاحظہ کیجیے:
"میں انگلینڈ میں ہوتا، اگر مجھے کوئی کہے نا کہ سیاست کرو میں اپنے سر پہ گولی مار دیتا"۔
عمران خان بعد میں کہتے ہیں کہ انہیں سیاست بطور پیشہ پسند نہیں۔ وہ سیاست خدمت اور جدو جہد کے لیے کر رہے ہیں تاکہ ملک کو ٹھیک کرسکیں۔ اب یہ ساری بات بالکل حقائق کے منافی ہے۔ وہ شخص جو بغیر تصدیق کے 35 پنکچر کے بیانیے کو استعمال کرکے ایک تہائی سال دارالخلافہ کو مفلو ج کرتا ہے(اور جو ریاست اور نجی املاک کابیڑا غرق کردیتا ہے)، بعد میں وہ اسے سیاسی بیان کہہ دیتا ہے، ایسا شخص خدمت کی سیاست نہیں کرتا۔ دراصل انگلستان میں آپ ایسی شر انگیز سیاست نہیں کرسکتے، وہاں آپ کو دن بھر کام کرنا پڑتا ہے۔ اور عمران خان معمول کے مطابق کام کرنے کو موت سے تشبیہ دیتے ہیں۔ ان کو دراصل کچھ نہ کچھ چاہیے جیسے کہ لڑائی اور بیان بازی اور لانگ مارچ وغیرہ جیسی سرگرمیاں۔ سکون سے دفتر آنا کام کرنا، امن اور استحکام کو قائم رکھنا، یہ ایسے شخص کے لیے موت ہے۔
آج سے کئی سالوں پہلے، قریب دو صدیاں پہلے، ابراہم لنکن نے ایسے اشخاص کے بارے میں اپنی قوم کو متنبہ کیا تھا۔ یاد رہے جس تقریر کا میں حوالہ دے رہا ہوں وہ ابراہم لنکن نے تب دی جب وہ ابھی صدر نہیں بنے تھے۔ صدارت کے عہدے پر بیٹھنے کے بھی کئی سالوں پہلے انہوں نے سپرنگفیلڈ الینوئے میں ایک خطاب کیا تھا جس کو آج "ابراہم لنکنزلائسیم ایڈریس "کہا جاتا ہے۔ ابراہم لنکن اس وقت 28 سال کے نوجوان تھے۔
دوستو! وقت کی قلت کے باعث ہم گفتگو کو فی الحال التوا کا شکار کرتے ہیں۔ انشاءاللہ اگلی قسط میں ہم ابراہم لنکن کے اُس خطاب پر گفتگو کریں گے جس کا ذکر ابھی کیا گیا۔ فی الحال مجھے اجازت دیجیے۔ اللہ حافظ۔
ہاں! اگر یہ مضامین پسند آئیں، آپ کے دل کو لگیں، تو انہیں اپنے عزیزوں اور جاننے والوں میں ضرور تقسیم کریں۔ اللہ حافظ!