Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Basham Bachani
  4. Mughalitistan Aur Imran Khan, Haqeeqi Azadi Ya Haqeeqi Ghulami? (8)

Mughalitistan Aur Imran Khan, Haqeeqi Azadi Ya Haqeeqi Ghulami? (8)

مغالطستان اور عمران خان: "حقیقی آزادی" یا "حقیقی غلامی"؟ (8)

پچھلے مضمون میں میں نے کہا تھا کہ ہم سر سید احمد خان کے ایک مضمون، "اپنی مدد آپ"، کا ذکر کریں گے۔ لہذا، دوستو! آئیے، آج ہم سر سید احمد خان کے اس عمدہ مضمون کے کچھ اقتباسات پیش کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنا تبصرہ بھی۔

عنوان"اپنی مدد آپ" کے حوالے سے سر سید مضمون کی ابتدائی سطور میں لکھتے ہیں: "اس چھوٹے سے فقرے میں انسانوں کا اور قوموں کا اور نسلوں کا تجربہ جمع ہے"۔ مزید فرماتے ہیں کہ:

"کسی شخص کے لیے یا کسی گروہ کے لیے کوئی دوسرا کچھ کرتا ہے تو اس شخص میں سے یا اس گروہ میں سے وہ جوش اپنے آپ مدد کرنے کا کم ہوجاتا ہےا ور ضرورت اپنے آپ مدد کرنے کی اس کے دل سے مٹتی جاتی ہے اور اسی کے ساتھ غیرت جو ایک نہایت عمدہ قوت انسان میں ہے اور اسی کے ساتھ عزت جو اصلی چمک دمک انسان کی ہے از خود جاتی رہتی ہے اور جبکہ ایک قوم کی قوم کا یہ حال ہو تو وہ ساری قوم دوسری قوموں کی آنکھ میں ذلیل اور بے غیرت اور بے عزت ہوجاتی ہے۔ آدمی جس قدر کہ دوسرے پر بھروسے کرتے جاتے ہیں، خواہ اپنی بھلائی اور اپنی ترقی کا بھروسہ گورنمنٹ ہی پر کیوں نہ کریں (یہ امر بدیہی اور لابدی ہے)وہ اسی قدر بے مدد اور بے عزت ہوتے جاتے ہیں"۔

پھر انہوں نے اس دور کے مسلمانان ہند سے پوچھا:

"اے میرے ہم وطن بھائیو! کیا تمھارا یہی حال نہیں ہے؟" (ص179، مضامینِ سر سید احمد خان، ترتیب و تعارف: تنظیم الفردوس، آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، کراچی، 2018ء)

جی ہاں! سر سید صاحب یہی حال ہے اور آج تک یہی حال چلتا آرہا ہے۔ آپ ٹی وی چینل کی کسی بھی رپورٹ کو ملاحظہ کریں، آپ کو پہلے کسی علاقے یا گلی محلے کی کسی برائی کی نشاندہی ملے گی۔ کسی جگہ کھڈوں پر نشاندہی ملے گی، کسی جگہ اسکول کی عدم دستیابی پر تو کبھی کچھ۔ آخر میں رپورٹر ایک رٹا رٹایا جملہ فرمائے گا: "حکومت سے گزارش کی جاتی ہے کہ اس مسئلے کو حل کرے۔ کیمرہ مین فلاں کے ساتھ فلاں رپورٹر، فلاں نیوز، فلاں شہر"۔ اسی علاقے میں بغیر حکومتی امداد کے کئی چیزیں دستیاب ہونگی۔ مثلاً، جتنا بھی غریب علاقہ ہو، بلکہ جتنا غریب ہو، اتنی زیادہ تمباکو اور گٹکے اور نسوار اور سپاری پان وغیرہ کی دکانیں بے تحاشہ ملیں گی۔ جب ان چیزوں پر، جو آگے جاکر آپ کی صحت تباہ کریں گی، پیسہ خرچ کیا جاسکتا ہے، توکیا لوگ مل کر اس مسئلے کو حل نہیں کرسکتے؟ لیکن نہیں۔

خیر، واپس سر سید کے مضمون پر لوٹتے ہیں۔ پھر سر سید مغالطہ عظیم کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں:

"ایشیا کی تمام قومیں یہی سمجھتی رہی ہیں کہ اچھا بادشاہ ہی رعایا کی ترقی اور خوشی کا ذریعہ ہوتا ہے"۔ (ص179)

اور پھر یورپ کے لوگوں کے حوالے سے بھی فرماتے ہیں:

"یورپ کے لوگ قانون بنانے والی مجلسوں کو بہت بڑا ذریعہ انسان کی ترقی و بہبود کا خیال کر کر ان کا درجہ سب سے اعلی اور نہایت بیش بہا سمجھتے تھے، مگر حقیقت میں یہ سب خیال غلط ہیں"۔ (ص179 تا 180)

یعنی، سر سید احمد خان کے نزدیک، یہ سب بکواس ہے۔ نہ قانون ساز اسمبلی ملک و ملت کی تقدیر سنوارنے میں کوئی اہم کردار ادا کرتی ہے اور نہ ہی کوئی ایک نام نہاد مر د مجاہد جو راتوں رات آکر ملک کی تمام برائیوں کو جڑ سے اکھاڑنے کا دعوی کرتا ہے۔ آگے سر سید احمد خان ووٹ کی طاقت، جس کا آج بڑا چرچہ کیا جاتا ہے، کے بارے میں فرماتے ہیں:

"برس دو برس میں کسی بات پر ووٹ دے دینے سے، گو وہ کیسی ہی ایمان داری اور انصاف سے کیوں نہ دیا ہو، قوم کی کیا بھلائی ہوسکتی ہے؟ بلکہ خود اس کے چال چلن پر اس کے برتاؤ پر بھی اس سے کوئی اثر پیدا نہیں ہوتا، تو قوم کے برتاؤ پر کیا اثر پیداکر سکتا ہے؟" (ص180)

یہاں سر سید ایک قانون ساز اسمبلی کے رکن کی با ت کر رہے ہیں۔ و ہ کہہ رہے ہیں کہ اگر کوئی منتخب یا غیر منتخب بندہ اسمبلی میں جاکر ووٹ دے دے، تو اس سے اس کی ذات تبدیل ہوتی ہے اور نہ ہی قوم کا رویہ۔ اور آج ہم یہ سب نہیں دیکھ رہے؟ جو قانون بنا رہے ہیں نہ ان کی نیت قانون سے درست ہوتی ہے اور نہ قوم کی۔ سر سید اس حوالے سے ایک بڑی ہی عالیشان دلیل پیش کرتے ہیں۔ غور سے پڑھیے وہ کیا لکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:

"کوئی قانون گو وہ کیسا ہی ابھارنے والا کیوں نہ ہو سست آدمی کو محنتی، فضول خرچ کو کفایت شعار، شراب خور کو تائب نہیں بنا سکتا، بلکہ یہ باتیں شخصی محنت، کفایت شعاری، نفس کشی سے حاصل ہوسکتی ہیں۔ قومی ترقی، قومی عزت، قومی اصلاح، عمدہ عادتوں، عمدہ چال چلن، عمدہ برتاؤ کرنے سے ہوتی ہے، نہ گورنمنٹ میں بڑے بڑے حقوق اور اعلی اعلی درجے حاصل کرنے سے"۔ (ص180)

یہ باتیں جو سر سید نے کیں انہیں ملاحظہ کرنے کے بعد سوچیے کہ آج پوری میڈیا اور پوری قوم کس جانب لگی ہے؟ کیا لوگوں کی کردار سازی پر اتنی بات ہوتی ہے جتنی اس بات پر ہوتی ہے کہ لوگوں کو حقوق ملیں اور حکومت کے بڑے بڑے عہدے؟ آپ جواب اچھی طرح جانتے ہیں۔ آگے سر سید اس مقولے کی نفی کرتے ہیں کہ حکومت لوگوں کو اپنے رنگ میں رنگ دیتی ہے۔ ان کے بقول حقیقت اس بات کے الٹ ہے۔ وہ کہتے ہیں:

"جیسا مجموعہ قوم کی چال چلن کا ہوتا ہے۔ یقینی اس کے موافق اس کے قانون اور اسی کے مناسب حال گورنمنٹ ہوتی ہے"۔ (ص181)

آج اکثر لوگ یہ مانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں برائیاں جڑ پکڑ چکی ہیں، لہذا آج کے دانشور کہتے ہیں کہ حکومت اس حوالے سے ایسے اقدام کرے کہ وہ برائیاں جڑ سے اکھاڑ دی جائیں۔ لیکن سر سید اس حوالے سے نہایت ہی معقول بات فرماتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:

"اگر ہم چاہیں کہ بیرونی کوشش سے ان برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ ڈالیں اور نیست ونابود کردیں، تو یہ برائیاں کسی اور نئی صورت میں اس سے بھی زیادہ زور و شور سے پیدا ہوجائیں گی"۔ (ص181)

اس حوالے سے مزید انہوں نے لکھا کہ:

"جبکہ ہر شخص اور کل قوم خود اپنی اندرونی حالتوں سے آپ اپنی اصلاح کرسکتی ہے۔ تو اس بات کی امید پر بیٹھے رہنا کہ بیرونی زور انسان کی یا قوم کی اصلاح و ترقی کرے کس قدر افسوس بلکہ نادانی کی بات ہے"۔ (ص182)

اب آئے گا مضمون کا دلچسپ حصہ۔ آج عمران خان نے اس جاہل اور بیوقوف قوم کو مزید بیوقوف بنانے کے لیے 2022ء سے ایک بیانیہ بیچا ہے۔ وہ بیانیہ یہ ہے کہ "ہم کوئی غلام ہیں؟" اور وہ اپنی جدوجہد کو "حقیقی آزادی" کا نام دیتے ہیں۔ لیکن "حقیقی آزادی" سے پہلے "حقیقی غلامی" تو معلوم کریں کہ وہ کس چڑیا کا نام ہے۔ سر سید احمد خان کے بقول غلامی اسے کہتے ہیں:

"وہ شخص در حقیقت غلام نہیں ہے جس کو ایک خدا ناترس نے، جو اس کا ظالم آقا کہلایا جاتا ہے، خرید لیا ہے۔ یا ایک ظالم اور خود مختار بادشاہ یا گورنمنٹ کی رعیت ہے بلکہ درحقیقت وہ شخص اصلی غلام ہے جو بد اخلاقی، خود غرضی، جہالت اور شرارت کا مطیع اور اپنی خود غرضی کی غلامی میں مبتلا ا ور قومی ہمدردی سے بے پروا ہے"۔ (ص182)

ذرا ذہن پہ زور ڈالیں۔ کون آج بد اخلاقی پھیلانے میں ملوث ہے؟ جس کی تقریر میں گندی زبان کا استعمال ہوتا ہے اور اس کے نوجوان ساتھی بھی گندی گندی فحش گالیاں اپنے مخالفین کو دینے سےگریز نہیں کرتے۔ کون خودغرض ہوچکے ہیں؟ 2022ءمیں پاکستان کے بدترین سیلاب اور بارشوں کے وقت، ملک جب معاشی بحران کا شکار تھا(اور آج بھی ہے)، تب کون دارالحکومت کے درختوں کو آگ لگا رہا تھا؟ کون سیلاب متاثرین کی مدد کرنے کے بجائے لانگ مارچ اور دھرنے دے رہا تھا؟ کون اسمبلیاں تحلیل کر رہا تھا ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے؟ جہالت کے مرتکب کون ہیں؟ کون آج جعلی خبروں اور ٹرینڈز کے ذریعے فوج اور ریاست کو بدنام کر رہے ہیں؟ کون شرارتیں کر رہے ہیں؟ کون آج اپنی خود غرضی میں قومی ہمدردی سے بےپروا ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اقتدار کا سورج ڈوبتا دیکھ کر آئی ایم ایف کے اس معائدے کو تباہ کرکے جاتے ہیں جس کی ابتدا ان کی ہی حکومت نے کی۔ بعد ازاں یہ لوگ آئی ایم ایف کو خط لکھتے ہیں کہ پاکستان کو اس کی قسطیں نہ دیں (کیونکہ ان کو انتخابات سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے، لہذا آئی ایم ایف کی قسطوں کو رو ک کر یہ ملک کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں)۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ملک کو آگ لگانا چاہتے ہیں تاکہ ان کا لیڈر برسر اقتدار آئے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کہتے ہیں: "ہم کوئی غلام ہیں؟"جی بالکل۔ آپ سے زیادہ کوئی غلام نہیں۔ سنیے سر سید آپ جیسے لوگوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں:

"وہ قومیں جو اس طرح دل میں غلام ہیں وہ بیرونی زوروں سے، یعنی عمدہ گورنمنٹ یا عمدہ قومی انتظام سے آزاد نہیں ہوسکتیں جب تک کہ غلامی کی یہ دلی حالت دور نہ ہو۔ اصل یہ ہے کہ جب تک انسانوں میں یہ خیال ہے کہ ہماری اصلاح و ترقی گورنمنٹ پر یا قوم کے عمدہ انتظام پر منحصر ہے اس وقت تک کوئی مستقل اور برتاؤ میں آنے کے قابل نتیجہ اصلاح و ترقی کا قوم میں پیدا نہیں ہوسکتا"۔ (ص182)

اب "تبدیلی"کے خواہشمند لوگ سر سید کی نصیحت کو سنیں۔ وہ کہتے ہیں:

"گو کیسی ہی عمدہ تبدیلیاں گورنمنٹ یا انتظام میں کی جاویں۔ وہ تبدیلیاں فانوس خیال سے کچھ زیادہ رتبہ نہیں رکھتیں جس میں طرح طرح کی تصویریں پھرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں، مگر جب دیکھو تو کچھ بھی نہیں"۔ (ص182)

اپنی بات کو مزید واضح کرنے کے لیے سر سید بھارت کے مسلمانوں کی مثال دیتے ہیں۔ یاد رہے جب بھارت برطانیہ کے زیر سایہ تھا، تب یہاں ریل گاڑی آئی، ٹیلی گرام کی سہولت آئی، کئی جگہوں پر اسکول اور کالج تعمیر ہوئے، جدید مشینری آئی۔ اب اس سب کا فائدہ ہندوؤں کو زیادہ ہوا۔ کیونکہ وہ تعلیم اور تجارت کے میدان میں داخل ہوئے اور مسلمانوں کی بہ نسبت زیادہ ترقی کرنے لگے۔ جبکہ مسلمانوں نے انگریزی تعلیم او ر تجارت کے طریقوں کو مسترد کیا۔ آج تک ہم اس تفاوت کے باعث بھارت سے پیچھے ہیں۔ اگر حکومت لوگوں کی حوشحالی کی ذامن ہوتی تو ہندوؤں اور مسلمانوں کو یکساں فائدہ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ آزادی کے وقت تک، حتی کہ آج تک ہم ہندوؤں سے تعلیم اور تجارت اور ترقی میں پیچھے ہیں۔ لہذا سر سید نے اس بات کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں سے پوچھا:

"اے مسلمان بھائیو! کیا تمہاری یہی حالت نہیں ہے؟ تم نے اس عمدہ گورنمنٹ سے جو تم پر حکومت کر رہی ہے کیا فائدہ اٹھایا ہے؟"(ص183)

پھر اپنے غصے کا اظہار کرنے کے لیے سر سید اپنی قوم سے کہتے ہیں:

"ھیچ ھیچ ھیچ! اس کا سبب یہی ہے کہ تم میں اپنی مدد آپ کرنے کا جذبہ نہیں ہے"۔ (ص183)

مزید وہ اس حوالے سے فرماتے ہیں:

"انسان کی قومی ترقی کی نسبت ہم لوگوں کے یہ خیال ہیں کہ کوئی خضر ملے، گورنمنٹ فیاض ہو اور ہمارے سب کام کردے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ ہر چیز ہمارے لیے کی جاوے اور ہم خود نہ کریں۔ یہ ایسا مسئلہ ہے کہ اگر اس کو ہادی اور رہنما بنایا جائے تو تمام قوم کی دلی آزادی کو برباد کردے اور آدمیوں کو انسان پرست بنا دے"۔ (ص183)

اب اس غلط سوچ کا علاج بھی وہ پیش کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

"بڑا سچا مسئلہ اور نہایت مضبوط جس سے دنیا میں معزز قوموں نے عزت پائی ہے وہ اپنی آپ مدد کرنا ہے۔ جس وقت لوگ اس کو اچھی طرح سمجھیں گے اور کام میں لائیں گے، تو پھر خضر کو ڈھونڈنا بھول جائیں گے"۔ (ص183)

پچھلے دو اقتباسات میں مسلسل سر سید اس مغالطے کی نشاندہی کر رہے ہیں جس کا ذکر ہم نے پچھلی قسط میں کیا۔ جس مغالطے کو ہم نے زہریلے مغالطے کا نام دیا۔ ہم در اصل ایک مسیحا کی تلاش میں ہیں۔ بار بار سر سید فرما رہے ہیں کہ ہم ایک خضر کی تلاش میں ہیں اور یہ چیز، بقول سر سید، ہمیں انسان پرست بنا دیتی ہے، جبکہ ہم اپنے آپ کو درست کریں، اپنے معاملات اپنے ہاتھوں میں لیں، تو کوئی مسیحا تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔

میں نے پہلی قسط میں آپ سے کہا تھا کہ "پروجیکٹ عمران خان" کبھی پروان نہ چڑھتا، کبھی عمران خان کو وہ ہمایت نہ ملتی جو آج ملی ہے، اگر ہمارا معاشرہ اور ہماری قوم مغالطستان کی سیر کرنے میں مصروف نہ ہوتی۔ سر سید کے بقول یہ امید ہی غلط ہےکہ ایک شخص آئے گا اور وہ ہمارے سارے مسائل حل کرے گا۔ ہمیں خود اپنے آپ کو سدھارنا پڑے گا۔ پچھلی قسط میں عمران خان کے کچھ پرانے انٹرویوز کے اقتباسات ہم نے پیش کیے تھے۔ خود عمران خان بھی سیاست سے پہلے اس قسم کی باتیں کرتے تھے۔

دوستو! وقت کی قلت کے باعث آج ہم مکمل مضمون پر گفتگو نہیں کر سکیں گے۔ لہذا جتنا مضمون کا مطالعہ رہ گیا ہے، ہم اسے اگلی قسط میں شامل کر لیں گے۔ فی الحال ہمیں اجازت دیجیے۔ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔ اور ہاں! اگر مضامین پسند آئیں، تو دوستوں اور عزیزوں میں انہیں ضرور تقسیم کیجیے گا۔ اللہ حافظ!

Check Also

Final Call Ka Nateeja Sifar

By Muhammad Riaz