Mughalitistan Aur Imran Khan, 1965 Ki Jang Aur Bhutto Ka Kirdar (18)
مغالطستان اور عمران خان، 1965ء کی جنگ اور بھٹو کا کردار (18)

دوستو! پچھلی قسط میں ہم نے ذولفقار علی بھٹو کے سیاست میں داخلے سے لے کر ان کے وزیر خارجہ بننے تک کے سفر کا ذکر کیا تھا۔ ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ بھٹو ایک جاہ طلب انسان تھے، انہیں اقتدار اور شہرت چاہیے تھی اور وہ یہ حاصل کرنےکے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار تھے۔ پچھلی قسط کے اختتام پر ہم نے آپ کو بتایا کہ کیسے 1965ء کی پاک بھارت جنگ سے پہلے رن آف کچھ کے علاقے میں پاکستان اور بھارت کی فوجوں کا آمنہ سامنہ ہوا، جس کے نتیجے میں پاکستان کو فتح حاصل ہوئی، لیکن اس فتح نے جاہ طلب بھٹو کو اپنی چال چلنے کا ایک موقع دیا، جس سے ملک کو بھاری نقصان ہوا اور بھٹو کی نااہلی کھل کر سامنے آگئی۔
الطاف گوہر (میں نے ان کا اور ان کی کتاب کا ذکر پچھلے مضمون میں کیا ہے) لکھتے ہیں کہ "رن کچھ میں بھارتیوں کی شکست کے بارے میں سرکاری پراپیگنڈے نے سارے ملک میں ایک جارحانہ ماحول بنا دیا تھا"۔ (صفحہ 319 تا 320) البتہ ایوب خان اور اس وقت ہماری فوج کے سپہ سالار، جنرل موسی خان، اس حوالے سے بڑے محتاط تھے۔ لہذا، الطاف گوہر صاحب لکھتے ہیں کہ "ایوب خان اپنے کمانڈر انچیف جنرل موسی کے محتاط روئیے سے مطمئین تھے مگر انہیں خدشتہ تھا کہ جنرل موسی کے قریبی بریگیڈئیر انہیں اپنے جارحانہ موقف کی طرف مائل نہ کرلیں"۔
الطاف گوہر مزید لکھتے ہیں: "اس کامیابی پر عوام کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ دوسری طرف فوجی قیادت بھی فتح کے نشے میں سرشار دکھائی دے رہی تھی۔ چند چھوٹی چھوٹی جھڑپوں کو بھارت کے ساتھ جنگ کا نام دیا جارہا تھا اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ اس جنگ میں بھارت کو 1962ء میں چین کے ساتھ جنگ کی طرح شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ رن کچھ میں ہونے والا یہی چھوٹا سا تصادم چھ ماہ بعد پاک بھارت جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوا"۔ (صفحہ 320)
یہی کہنا ہے برائین کلوئلی کا بھی۔ برائین کلوئلی پاکستان فوج کی تاریخ پر ایک بڑی زبردست کتاب لکھ چکے ہیں جس کا عنوان ہے: "آ ہسٹری آف دا پاکستان آرمی"۔ اس کتاب کو آکسفرڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کیا۔ میرے پاس اس کتاب کا چوتھا شمارہ (جو 2014ء میں شائع ہوا) موجود ہے جس سے میں حوالہ دوں گا۔ کلوئلی صاحب لکھتے ہیں:
"رن آف کچھ کے معاملے کی اہمیت پاکستانی فوج کے اندر بھارت کے خلاف جنگ لڑنے کی صلاحیت کے حوالے سے پیدا ہونے والی امید اور برتری کا جھوٹا احساس تھا"۔ (صفحہ 60 تا 61)
اب یاد رہے رن آف کچھ ہو یا اس سے پہلے، ایوب خان، جو اس وقت پاکستان کے طاقتور ترین شخص تھے اور صدر بھی، مسئلے کشمیر کا حل پر امن طریقے سے کرنا چاہتے تھے۔ وہ جانتے تھے بھارت کے پاس نہ صرف جنگی اسلحہ اور فوجی ہم سے زیادہ تعداد میں موجود ہیں، بلکہ بھارت ایک بہت بڑا ملک ہے جس سے براہ راست جنگ کی صورت میں پاکستان کا وجود خطرے میں آسکتا ہے۔ الطاف گوہر لکھتے ہیں:
"رن کچھ کے واقعے کے بعد وہ (یعنی ایوب خان) اپنے وزیروں اور جرنیلوں کو مسلسل سمجھاتے رہے کہ بھارت کے خلاف دباؤ جاری رکھنا چاہیے مگر ہمیں کوئی ایسی اشتعال انگیز حرکت نہیں کرنی چاہیے جو ہمیں جنگ کی ہولناکیوں سے دوچار کردے"۔ (صفحہ 325)
لیکن یاد رہے بھٹو اور ان کے ہم خیال جرنیل اور فوجی افسران ایوب خان پر مقبوضہ کشمیر میں کسی کاروائی کرنے پر زور دیتے رہے۔ اس وقت بھٹو پاکستانی فوج کے اکثر افسروں کی آنکھ کا تارہ تھے۔ الطاف گوہر لکھتے ہیں:
"بھٹو ان دنوں جنرل اختر ملک اور بعض دوسرے فوجی افسروں کو باقاعدگی سے اپنی رہائش گاہ پر بلا کر انہیں "کشمیر میں جلد سے جلد مسلح کا روائیوں کے آغاز کی ضرورت سے آگاہ کرتے رہتے تھے"۔ بے تکلفانہ ماحول میں ہونے والی ان ملاقاتوں میں فوج کے افسر بھٹو کی خوش بیانی اور جذبے سے متاثر ہوکر اپنے دل کی بات زبان پر لے آتے۔ جنرل موسی نے بعد ازاں ایوب خان سے شکایت کی کہ بھٹو نے ان ملاقاتوں میں ان کے افسروں کی دماغی دھلائی "برین واشنگ" کی ہے"۔ (صفحہ 335)
میجر جرنل (ر) خادم حسین راجہ کا بھی یہی کہنا ہے، جو اس وقت پاک فوج میں شامل تھے، ان کا کہنا ہے کہ "بھٹو نے مضبوط اکثریت حاصل کرلی تھی۔۔ حتی کہ فو ج کے رینک اینڈ فائیل اس طبقے سے آئے جس نے بھٹو کی بھرپور حمایت کی تھی"۔ (صفحہ 48، آ سٹرینجر ان مائے اون کنٹری، آکسفرڈ یونیورسٹی پریس، دوسرا شمارہ، 2013ء) یعنی نہ صرف ایوب خان دور میں بھٹو کو فوج کی حمایت حاصل تھی، بلکہ بعدازاں ان کو اقتدار تک پہنچانے میں بھی فوج کا اہم کردار تھا۔ باقی ایوب خان کی ان پر مہربانیوں کے بارے میں ہم پچھلی قسط میں تو پڑھ چکے ہیں۔
میں نے جیسے ان سلسہ وار مضامین کی سولہویں قسط میں کہا تھا کہ بھٹو کے حقیقی سیاسی وارث عمران خان ہیں، تو یاد رہے دونوں میں یہ بات مشترک ہے۔ دونوں کو فوج نے پالا اور اقتدار سونپا اور پھر دونوں نے فوج کے خلاف دشمنی مول لی۔ جیسے عمران خان کو کوئی 2011ء سے پہلے پوچھتا بھی نہیں تھا، وہ اکیلی ایک نشست حاصل کرتے تھے، وہ بھی اپنی (اور وہ بھی ایک بار)، اسی طرح بھٹو کو بھی پہلے ایوب خان نے سیاسی طور پر پالا اور پھر انہیں وزیر خارجہ بنایا اور بعد ازاں ان کی غلطیوں کا خمیازہ بھی بھگتا۔ جیسے آج ہمارے مقتدرہ حلقے عمران خان کو سیاسی طور پر پالنے کی سزا بھگت رہے ہیں۔
خیر، ہم واپس موضوع پر آتے ہیں۔
یاد رہے مقبوضہ کشمیر میں گھس کر کاروائی کرنے کی خواہش رن آف کچھ کی فتح کے بعد پیدا نہیں ہوئی تھی۔ بلکہ دسمبر 1964ء میں ہی، جنگ ستمبر سے کئی ماہ پہلے، دفتر خارجہ اور آئی ایس آئی کے اشتراک سے ایوب خان کو ایک منصوبہ پیش کیا گیا جس میں یہ واضح تھا کہ پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں جاکر، لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرکے، بھارتی فوج کو وہاں سے بھگانے کی جدو جہد کرنی چاہیے۔ جب یہ منصوبہ ایوب خان کو پیش کیا گیا، تب وہ ڈھاکہ میں موجود تھے۔ انہوں نے اس منصوبے کو پڑھنے کے بعد الطاف گوہر (سیکرٹری اطلاعات) اور ساتھ اپنے پرنسپل سیکرٹری سے اس منصوبے کے حوالے سے رائے طلب کی۔ الطاف گوہر لکھتے ہیں:
"منصوبے کے جائزے کے بعد دونوں افسروں کی رائے یہ تھی کہ اس کی حیثیت ایک بے وقت اور احمقانہ مہم جوئی سے زیادہ نہیں۔ سیکرٹری اطلاعات نے ایوب خان کو یاد لایا کہ انہوں نے کمانڈر انچیف کی حیثیت میں ایک ایسے ہی منصوبے کو بچگانہ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا"۔ (صفحہ 332)
بعدازاں یہ منصوبہ کابینہ کی انٹیلی جینس کمیٹی کے سامنے فروری 1965ء میں بھی پیش کیا گیا۔ عزیر احمد (سیکرٹری خارجہ) اور آئی ایس آئی کے ڈپٹی ڈائیریکٹر ایس جان نے اس منصوبے پر روشنی ڈالی کہ کیسے مقبوضہ کشمیر میں جاکر کشمیریوں کو آزادی دلانی چاہیے اور کہا کہ بھارت بے انتہا کمزور ہوچکا ہے، چین کے ساتھ ہماری دوستی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ جب عزیر احمد بول چکے تو پھر ایوب خان نے کہا: "کیا کسی اور کو کچھ کہنا ہے؟" جب سب خاموش رہے تو ایوب خان بولے:
"اگر کسی کو کچھ نہیں کہنا تو مجھے یہ بتایا جائے کہ دفتر خارجہ اور آئی ایس آئی کو اس طرح کا منصوبہ بنانے کی اجازت کس نے دی تھی؟ اس طرح کی منصوبہ سازی ان کا کام نہیں ہے۔ میں نے تو صرف یہ ہدایت دی تھی کہ کشمیر کی صورت حال پر نظر رکھی جائے۔ انہیں حکومت پر اس طرح کا منصوبہ تھوپنے کا کوئی حق حاصل نہیں"۔
اس دوران، الطاف گوہر فرماتے ہیں کہ "بھٹو کی پوزیشن اس وقت بہت غیر یقینی تھی۔ انہیں یہ بھی خبر نہ تھی کہ ایوب خان انہیں اپنی نئی کابینہ میں شامل کریں گے یا نہیں۔ انہوں نے ایوب خان کی سخت کلامی پر مکمل خاموشی اختیار کیے رکھی۔ شاید وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ اس منصوبے میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں اور سب کچھ ان کے محکمے کے سیکریٹری کا کیا دھرا ہے۔ یوں کشمیر کی آزادی کے لئے تیار کیا گیا مسلح مداخلت کا منصوبہ بظاہر داخل دفتر کردیا گیا"۔ (صفحہ 333)
یاد رہے ہم پچھلے مضمون میں واضح کرچکے ہیں کہ بھٹو حادثاتی طور پر وزیر خارجہ بنے۔ ایوب خان انہیں وزیر خارجہ بنانے کے خواہشمند نہ تھے۔ ایوب خان کو جن لوگوں کو وزیر خارجہ بنانا تھا، وہ انہیں میسر نہ تھے۔ لہذا، اس اقتباس کے بعد مزید واضح ہوجاتا ہے کہ وہ خود اپنے کابینہ میں رہنے کے حوالے سے زیادہ پر امید نہیں تھے۔
لیکن خیر، رن آف کچھ کے بعد بہت کچھ تبدیل ہوگیا۔ یہ جاننا مشکل ہے کہ وہی ایوب خان جو پہلے مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد کے حامی نہ تھے، انہوں نے اچانک آپریشن جبرالٹر کی اجازت کیسے دے دی۔ غالباً، بھٹو اور ان کے ہم خیال لوگوں نے ان کو بار بار اصرار کرکے اس بات پر راضی کرلیا ہوگا، دوسرا رن آف کچھ کے بعد فوج کے اندر بھارت کے خلاف جنگ لڑنے کی اور کشمیر کو آزاد کرنے کے لیے جوش عروج پر تھا۔ لہذا، الطاف گوہر صاحب لکھتے ہیں کہ 24 جولائی 1965ء کے دن کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں آپریشن جبرالٹر کا تذکرہ کیا گیا۔ (صفحہ 327 تا 328)
آپریشن جبرالٹر کیا ہے؟ یہ ایک آپریشن تھا جس کے تحت پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں خفیہ طور پر کچھ لوگوں کو بھیجنا تھا جنہوں نے وہاں جاکر مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو بھارت کے خلاف گوریلا جنگ کی تیاری کروانی تھی۔ گوریلا جنگ میں عوام کے اندر ہی چھوٹے چھوٹے ٹولے پیدا کرنے ہوتے ہیں، جنہیں عسکری سامان اور تربیت سے لیس کرنا ہوتا ہے، جو قابض فوج کے خلاف عسکری کاروائی کرکے انہیں شکست دیتے ہیں۔ آپریشن جبرالٹر کے حوالے سے ایوب خان کو بریفنگ بھی دی گئی اور بھٹو کی جانب سے قائل کیا گیا کہ یہی وہ راستہ ہے جس سے کشمیر کی آزادی حاصل کی جاسکتی ہے۔
لیکن یہ کاروائی بری طرح ناکام ہوئی۔ آپریشن کے آغاز میں ہی وہ لوگ پکڑے گئے جنہیں مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے پاس جاکر انہیں بھارتی فوج کے خلاف تیار کرنا تھا۔ اب یاد رہے بھٹو نے ایوب خان کو یہ یقین دلایا تھا کہ اگر آپریشن جبرالٹر کے بارے میں بھارت کو پتہ چلا، تو وہ پاکستان میں اپنی فوجیں داخل نہیں کرے گا۔ اس حوالے سے بھٹو نے ایوب خان کو باور کرادیا تھا، یوں سمجھیے کہ ضمانت دی تھی، کہ پاکستان کی مقبوضہ کشمیر میں کاروائی سے پاکستان کے دوسرے حصے بھارت کی یلغار سے محفوظ رہیں گے۔ لیکن یہ بات غلط ثابت ہوئی اور بھارت نے اس کے رد عمل میں پاکستانی حدود میں اپنی فوجیں داخل کردیں، لہذا جنگ ستمبر کا آغاز ہوگیا۔ پاکستان کی سب سے پہلی بڑی جنگ کا آغاز ہوا، جس میں ہمارے کوئی فوجی شہید ہوئے، ملک کو کافی مالی نقصان ہوا، املاک تباہ ہوئی، بہت مشکل سے ملک کا دفاع کیا گیا اور اس سب کے ذمے دار بھٹو تھے۔ ہاں! حکمران ہونے کے ناطے ایوب خان زیادہ ذمہ دار ہیں۔ چاہے یہ ان کا منصوبہ نہ تھا، لیکن انہوں نے اس کی اجازت دی تھی۔
کہتے ہیں عزت اور دولت اور کامیابی کے لیے کئی سال لگتے ہیں، لیکن ان سب چیزوں کو تباہ کرنے میں چند لمحے لگتے ہیں۔ میرے نزدیک ایوب خان کی حکومت، جس نے پاکستان کو وہ سنہری دور دیا جس میں صنعتیں لگیں، جس میں ترقی ہوئی، ڈیمز تعمیر کیے گئے، پاکستان دنیا کے لیے مثال تھا، ہماری پی آئی اے دوسری ائیر لائینز کو تربیت دیتی تھی، ہمارا پہلا اور آخری کامیاب پانچ سالہ منصوبہ پائے تکمیل کو پہنچا اور اپنے اہداف سے بھی تجاوز کرگیا۔۔ اس دور کی ساری اچھائیاں آپریشن جبرالٹر کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ ایک ایسی جنگ لڑنی پڑی جو وجود میں ہی نہ آتی اگر ہم مقبوضہ کشمیر میں حماقت پر مبنی آپریشن نہ کرتے۔ آپریشن جبرالٹر کے اہداف بھی مکمل نہ ہوئے، بلکہ کشمیر کو مکمل حاصل کرنے کے چکر میں پورے ملک پر بھارت کی یلغار اور بمباری نے تباہی مچا دی۔ ہماری فوج نے بڑی مشکل سے ملک کا دفاع کیا، اپنے سے کئی گنا بڑے ملک، اپنے سے کئی گنا بڑی فوج اور اپنے سے کئی گنا بڑی طاقت کا مقابلہ کیا۔ بھارت کے کچھ علاقوں میں ہماری فوج بھی داخل ہوئی اور قربانی اور لوگوں کے جوش اور حب الوطنی کی عظیم داستان رقم ہوئی۔
دوستو! مزید گفتگو اگلی قسط میں۔ فی الحال وقت کی قلت کے باعث ہم اپنی گفتگو موخر کرتے ہیں۔ آپ سے اگلی قسط میں ملاقات ہوگی۔ اللہ حافظ!
اور ہاں! اگر آپ کو ہماری یہ اقساط پسند آرہی ہیں تو انہیں اپنے دوستوں اور عزیزوں میں ضرور تقسیم کیجیے۔ اللہ نگہبان۔