Mir Sadiq Kon Tha Aur Hai?
میر صادق کون تھا اور ہے؟
میں میر جعفر کے بارے میں تو کچھ کہہ نہیں سکتا، کیونکہ جب تک آپ نے مطالعہ نہ کیا ہو کسی تاریخی شخصیت پر تب تک اپنی رائے پیش کرنا فضول ہے، لیکن میر صادق کے بارے میں میں کچھ فرمانا چاہتا ہوں۔
پچھلے سال، جب ابھی عمران خان صاحب کی حکومت موجود تھی، تب میں نے ٹیپو سلطان اور ان کے والد کے بارے میں لکھی ہوئی ایک کتاب پڑھی تھی۔ کتاب کا عنوان ہے "شیرِ میسور ٹیپو سلطان شہید" (ہم بک کارنر کے مشکور ہیں کہ انہوں نے اس کتاب کو آج کے قارئین کرام کے لیے شائع کیا)۔ کتاب ایک ایسے شخص (سید میر حسن کرمانی) نے لکھی ہے جو ٹیپو سلطان کی ملازمت میں تھا اور اس نے یہ کتاب ٹیپو سلطان کی شہادت کے 8 سال بعد لکھی تھی۔
میر صادق ایک غدار تھا، بے شک۔ لیکن غلطی سراسر ٹیپو سلطان کی تھی۔ کتاب پڑھنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ٹیپو سلطان کو وہ مسلسل گمراہ کرتا رہا، اس کی غداری بہت پہلے عیاں ہو چکی تھی لیکن ٹیپو سلطان اسے معاف کرتا رہا۔ وہ معزول تھا لیکن پھر بھی ٹیپو سلطان نے اسے دیوان کے عہدے پر فائز کیا، جس پر کتاب کے مترجم صاحب اپنے حواشی میں لکھتے ہیں کہ "(ٹیپو) کی اکثر ناکامیاں محض غلط آدمیوں کے انتخاب کا نتیجہ تھیں۔ "(ص 488)۔
یہ بات بڑی واضح ہے کہ ٹیپو کو اس کی شرارتوں کا پہلے سے پتہ تھا، لیکن وہ نرم دلی کا مظاہرہ کرتا رہا۔ خیر، اس نرم دلی سے پرہیز کرنا چاہیے جس میں آپ کا اور پوری قوم کا نقصان ہو۔ لیکن میر صادق نے ٹیپو کو گمراہ کیسے کیا؟ ملاحظہ ہو مصنف کے الفاظ میں میر صادق کی کارستانیاں۔
"یہ (میر صادق) شخص نہایت کینہ توز اور مردم آزار تھا۔ جناں چہ مسند اقتدار پر بیٹھتے ہی اس نے اکثر امراخوانین کو جو مخلص اور قدیم خیر خواہ تھے جھوٹے الزامات لگا کر قتل و غارت کرا دیا۔ "(ص489)
مزید مصنف لکھتے ہیں کہ: "امرائے دربار اور سرداران لشکر نے بارہا اس بدذات کی تخریبی کاروائیوں سے سلطان کو مطلع کر دیا، لیکن سلطان یہ سب کچھ سن کر اور جان کر بھی اس کی بداعمالیوں سے اغماض برتتے رہے، بلکہ الٹا اس کو روز افزوں شہانہ عنایات سے نوازتے اور اس کی بداعمالیوں کی پردہ پوشی کرتے رہے۔ ممالک محروسہ میں رونما ہونے والے واقعات رعایا کے حالات اور سرکاری دفاتر کی خبریں سلطان تک نہیں پہنچاتا تھا اور ان کو ہمیشہ حقائق سے بے خبر رکھا کرتا تھا۔ "(ص495)
ٹیپو سلطان کان کے اتنے کچے تھے کہ۔۔ خیر آپ خود پڑھیں اور سنیں مصنف کیا لکھتے ہیں:
"سلطنت خداداد کا آخری عہد تھا۔ سلطان کو چند بدخواہوں نے ایسا مغالطہ دیا کہ انہوں نے بعض جاہلوں کو کلام پاک کے عثمانی رسم الخط تبدیل کرنے پر مقرر کر دیا۔ یہ جرات اس سے پہلے عرب و عجم کے کسی سلطان نے کی تھی نہ اس کی تجویز کسی عالم فاضل اور محدث نے کبھی کی۔ "(ص504)
آپ نے یہ سب سن لیا اور پڑھ لیا۔ اب آتے ہیں آج کے میر صادق کی جانب۔ اس سے پہلے میں یہ ذرا واضح کر دوں کہ اتنی غلطیوں اور غلط فیصلوں کے باوجود، ٹیپو سلطان نے آخر میں جس طرح جامِ شہادت نوش کیا، اس کی مثال ہی کوئی نہیں۔ دیدہ دلیری کے ساتھ وہ دشمن سے جا ٹکرائے، جان کی بھیک نہیں مانگی۔ یو ٹرن نہ لیا۔
میجر (ر) خرم حمید روکھڑی اور فیصل واوڈا ابھی چند دنوں پہلے ہی تحریک انصاف سے نکالے جا چکے ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے کیا کیا؟ بس یہ کہ جماعت کے عمومی مؤقف کی تائید نہ کی اور جماعت کے سربراہ کے بیانیے کو غلط کہا اور بڑے باادب طریقے سے عرض کی اپنی بات (ایک نے بالکل صحیح بات کی کہ لانگ مارچ خونی ہونے جا رہا ہے، وقت نے اس بات کو صحیح ثابت کیا کیونکہ کئی لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔) اور آپ کو پتہ ہے کہ تحریک انصاف میں کوئی اور مؤقف ہو نہیں سکتا۔
جو جماعت کے قائد نے کہا اسے بغیر چون و چرا کے قبول کرنا ہوتا ہے ورنہ گئی آپ کی جماعت کی رکنیت۔ بےشک آپ بدتہذیب نہ ہوں، بےشک آپ نے جماعت کو اپنے کئی سال دیے ہوں، یہ ہوتی ہے "حقیقی آزادی" اور اسے کہتے ہیں انصاف پر مبنی جماعت کا رویہ۔ اور دوسرا پھر جماعت کے سوشل میڈیا کے مجاہدین جو آپ سے کریں گے۔ اوف، توبہ۔
اس مہینے ان دو شخصیات نے متعدد انٹرویوز دیے اور سارے انٹرویوز کا لب لباب یہی ہے کہ عمران خان کے ارد گرد سانپ اور کیڑے موجود ہیں جو انہیں سیاسی موت کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ دونوں شخصیات کہہ رہی ہیں کہ ہم نے ثالث کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی اور خان صاحب کو باور کرایا کہ اس ڈگر نہ چلیں۔ لیکن دونوں کہتے ہیں کہ خان صاحب نے دونوں کی نہ سنی اور غلط مشیروں کے غلط فیصلوں کو ترجیح دی۔ خیر، وقت بتائے گا کون صحیح ہے اور کون غلط؟
لیکن توجہ طلب فیصل واوڈا کی یہ بات ہے جو انہوں نے نیا پاکستان (جیو ٹی وی کے پروگرام) پر کی۔ شہزاد اقبال کو انہوں نے 28 اکتوبر 2022ء کو یہ انٹرویو دیا جب ان کی جماعت کی رکنیت معطل کی گئی۔ واوڈا صاحب نے کہا: "خان صاحب نہ ٹوئیٹر دیکھتے ہیں نہ وہ تفصیل سے خبریں دیکھتے ہیں، بڑا آدمی ہے بڑا لیڈر ہے۔ اس کو مشیر صلاح دے رہے ہوتے ہیں۔ " سبحان اللہ! یعنی موصوف کی خود کی کوئی تحقیق نہیں۔ بس جو ارد گرد لوگ کہہ دیتے ہیں وہ مان جاتے ہیں۔ 35 پنکچر والا بھی قصہ ایسے ہی بنا۔ کسی نے کان میں آکے بات کہی، انہوں نے مان لی۔ بعد میں کہا سیاسی بیان ہے۔
عمران خان صاحب کا کہنا ہے کہ میں جتنا مغرب کو جانتا ہوں کوئی نہیں جانتا۔ میں نے یاد ہے پچھلے مضمون میں امریکا کے بانیوں میں سے ایک اور صدر دوم امریکہ کا ذکر کیا تھا، جان ایڈمس۔ ان کے بارے میں ان کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ جب وہ امریکا کے صدر بنے تب:
"وہ ہر چیز پڑھتے جو انہیں بھیجی جاتی۔ مکمل لگن کے ساتھ متعدد اخبارات کا مطالعہ کرتے۔ 70 کی تعداد میں خطوط وہ لکھتے مختلف محکموں کے سربراہان کو جب وہ دفتر نہیں آتے تھے، جن میں سے 28 خطوط ان کے سیکریٹری اوف اسٹیٹ کے لیے ہوتے تھے۔ " (ص526، جان ایڈمس، ڈیوڈ مککلو، سائمن اینڈ شوسٹر، نیو یارک)
اصل لیڈر خود تحقیق کرتا ہے۔ اور آج کے دور میں، جب انٹرنیٹ اور ٹی وی نے متعدد اور مستند معلوماتی ذرائع آپ کو مہیا کیے ہیں، ایسی کتابیں آپ کی دسترس میں کر دی ہیں جن کو خریدنے کے لیے ماضی میں کئی میل سفر کرنا پڑتا تھا، آپ جب اپنے چمچوں کے مرہون منت ہوتے ہو خبر اور حقائق کے لیے، تو پھر کہاں سے بنے گی مدینہ کی ریاست اور نیا پاکستان؟
گانے ہی بن سکتے ہیں کہ جب آئے گا فلاں تو بنے گا نیا پاکستان یا یہ کہ یا تبدیلی آئی رے۔ اور پھر آپ کے ارد گرد بیٹھے میر صادق آپ سے کیسے پہچانے جائیں گے؟ میر صادق تو وہ ہے جو آپ کے ساتھ ہوتا ہے اور گمراہ کر رہا ہوتا ہے۔ پھر یہی ہوگا جو ہو رہا ہے۔
اللہ ہمیں عقل دے اور شعور بھی۔ آمین۔