Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Basham Bachani
  4. Maktoob e Iblees Banam Pakistan

Maktoob e Iblees Banam Pakistan

مکتوبِ ابلیس بنام پاکستان

میرےپیارے پاکستانی بھائیو اور بہنو!

ویسے تو انسان کمزور ہے اور اسی لیے میرا کام آسان ہوجاتا ہے، لیکن تمہارے وطن میں میرے کام کو مزید چار چاند لگ جاتے ہیں۔

دیکھو نا! ایک طرف میں نے تمہاری اچھی خاصی آبادی کو ذاتی اصلاح سے محروم کردیا ہے، کیونکہ دن رات تمہارے دانشور حضرات سے لے کر تمہارے صحافی اور حزب اختلاف کے سیاستدان تمہیں بتاتے ہیں کہ تم مظلوم قوم ہو۔ جب تم اپنے آپ کو بے بس پاتے ہو اور ساری امیدیں ریاست سے وابستہ کرتے ہو تو تمہاری ذاتی اصلاح کی کوشش معدوم پڑ جاتی ہے اور یہی میرا بہترین حربہ ہے: تم لوگ خود کو سدھارتے نہیں، کیونکہ اکثر آبادی نظام اور حکومت کے بدلنے کے عاصرے بیٹھی ہے۔

ساتھ ساتھ میں تم لوگوں کا بے انتہا مشکور ہوں کہ تم لوگ اپنے ہی دین کا مطالعہ نہیں کرتے۔ اگر کرتے تو تم لوگوں کو چونا لگانا آسان نہ ہوتا۔ تمہیں آخری آسمانی کتاب عطا کی گئی ہے، لیکن تم اس کتاب کا بغور جائزہ لینا تو دور، اسے سمجھنے کی توفیق نہیں کرتے۔ تمہارے نبی کی سیرت پر بے شمار کتب موجود ہیں جو تمہارے گھروں کی زینت بنتی ہیں، لیکن ان کتب کا مطالعہ تم لوگوں کے بس کی بات نہیں اور میں چاہتا ہوں تمہارا یہی حال رہے۔ پوچھو کیوں؟

ہاں! آؤ تمہیں بتاتا ہوں۔ اگر تم لوگ قرآن اور سیرت نبوی کا مطالعہ کرنے لگے تو تمہیں منافقوں کی اور کفار کی خصلتوں سے آشنائی حاصل ہوجائے گی۔ کفار کے اور منافقین کے اور غلط لوگوں کے جو قول قرآن میں درج ہیں، ان کی ذہنیت کی جو نشاندہی کی گئی ہے، اس کے ذریعے تم اپنے معاشرے کے غلط لوگوں کی نشاندہی کرسکتے تھے۔ تم سیرت نبوی کے ذریعے کفار اور منافقین کے طرز پر غور کرسکتے تھے اور اپنے درمیان منافقین اور کفار کی نشاندہی کرسکتے تھے۔ لیکن تم لوگ ایسا نہیں کرتے، لہذا تم لوگ اپنے اصل محسنوں کو پہچانتے نہیں اور غلط لوگوں کو اپنا رہبر مان لیتے ہو۔ یہ اچھا ہے۔ میرا کام آسان کرنے کے لیے میں تم لوگوں کا بے انتہا مشکور ہوں۔ صدقے جائے تمہاری قوم کی جہالت، ہمیشہ آباد رہو اور اسی طرح رہو۔

میرا دوست ملک اسرائیل، جس سے تم لوگ بے انتہا نفرت کرتے ہو اور کرنی بھی چاہیے، لیکن تم لوگ اس ملک کے لیے کتنی آسانیاں پیدا کرتے ہو۔ تمہارے درمیان ایسی جماعتیں ہیں جو بظاہر اسرائیل مخالف ہیں، لیکن وہ اسرائیل کا ہی بہترین اثاثہ ہیں۔ تم بیوقوف لوگوں سے اور توقع ہی کیا کرنی چاہیے۔

تم لوگ اپنے ہی ملک میں فلسطین کے حق میں مارچ منعقد کرتے ہو جس سے فلسطین کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ تم اپنے ہی ملک میں بھیڑ جمع کرتے ہو، کچرہ کرتے ہو، اپنی ہی ریاست کو مشکل میں ڈالتے ہو، راستے شاہراہیں بند کرتے ہو۔۔ اس سے زیادہ اسرائیل کی اور کیا خدمت ہوسکتی ہے؟ اسرائیل کو تو یہی چاہیے کہ تمہارے ملک میں ٹریفک رہے، کام دھندہ بند ہوجائے، ماحولیاتی آلودگی ہو، لوگ اور ریاست آمنے سامنے ہوں۔۔ لیکن تم لوگوں کی جہالت کو سلام! تم اپنے ہی ملک میں گند کچرہ کرنے والوں کو، اپنے ہی ملک کی شاہراہیں اور نظام کو بند کرنے والوں کو دین کا اور فلسطین کا دوست سمجھتے ہو اور اسرائیل کا دشمن۔ تم ان لوگوں کی زبان سے اسرائیل کی مذمت پر دھیان دیتے ہو، لیکن ان کی کاروائی جو سو فیصد اسرائیل کے حق میں جاتی ہے اسے نظر انداز کردیتے ہو۔ یار! براہ کرم ایسے ہی جاہل رہو۔

میں نے آج سے ڈیڑھ دہائی قبل شام میں اور دیگر مشرق وسطی کے ممالک میں، لوگوں کی اسی جہالت کا فائدہ اٹھایا تھا۔ میرے دوست اسرائیل کو اس سے بےپناہ فائدہ حاصل ہوا۔ آج اسرائیل شام پر بلا خوف بمباری کر رہا ہے۔ مجھے ڈر تھا کہیں تم لوگ میری اس کاروائی سے عبرت نہ حاصل کرلو۔ لیکن کمال ہے یار! تم لوگ اپنے ہی برادر ملکوں کی حالت سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ تم لوگ پھر بھی ان لوگوں کی ہمایت کرتے ہو جو تمہارے ملک میں بھی اسی صورتحال کو پروان دینا چاہتے ہیں۔

تمہارے بہترین دماغ اور تم لوگوں کے محسنین، جیسے کہ شہید حکیم محمد سعید جیسے لوگ، تمہیں متنبہ کرگئے کہ بھئی! ہمارے فلاں مشہور و معروف شخص کو اسرائیل کی معاونت حاصل ہے۔ اس بیچارے نے شہادت کا جام بھی نوش کیا، لیکن تم لوگوں نے اس کی ایک نہ سنی۔ جیسے کہ میں نے کہا، تم لوگوں کے مطالعے کا فقدان میرے لیے بے انتہا کارآمد ہے۔

تم لوگ میرٹ چاہتے ہو، چاہتے ہو کوئی بھی عام آدمی، جس کی کوئی سفارش نہ ہو، جو اشرافیہ سے تعلق نہ رکھتا ہو، اسے اقتدار ملے۔ لیکن جب ایسا حقیقت میں ہوتا ہے تم لوگ اشرافیہ کے ساتھ، عیاش لوگوں کے ساتھ، ایسے لوگ جنہیں ان کی دولت وراثت میں ملی ہے، ان کے ساتھ جا ملتے ہو۔

تاریخ گواہ ہے، جب جب غریب کا بچہ محنت کرکے ترقی کی منازل طے کرکے تم لوگوں کا حاکم بنا ہے تم نے اس شخص کو گالیاں دی ہیں اور ہر اس شخص کے ساتھ تمہاری رغبت ہوجاتی ہے جو اشرافیہ اور مالدار لوگوں سے تعلق رکھتا ہے۔ ایسے لوگ جو سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے ہیں۔

تمہارے ملک میں پہلا جرنیل ایوب خان تھا جو حاکم بنا۔ وہ کوئی مالدار گھرانے سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ اس کے والد نے اسے بڑی مشکل سے علی گڑھ پڑھائی کے لیے بھیجا تھا۔ وہ تو اس کا بھلا ہوا کہ وہ فوج میں بھرتی ہوگیا اور پھر ترقی پاتے پاتے ملک کا سپہ سالار بن گیا۔ لیکن ایوب خان کی مخالفت میں، ایسا شخص جو محنت کرکے اوپر پہنچا، جس کا والد غریب انسان تھا، تم نے کسے ترجیح دی؟ ذولفقار علی بھٹو۔ جو کہ ایک امیر اور جاگیردارانہ گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ لاکھوں ایکڑ اراضی کا مالک تھا، کلفٹن جیسے پوش علاقے میں رہتا تھا، حویلی نما گھروں میں قیام کرتا تھا۔

اسی طرح ضیاء الحق بھی امیر گھرانے سے تعلق نہیں رکھتا تھا۔ وہ تو مہاجر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ لیکن تم نے اس کے بجائے ایک ایسی خاتون کو ترجیح دی جو کہ اپنے والد کی سیاست کو وراثت میں حاصل کرکے پاکستان آئی۔ تم لوگ میرٹ میرٹ کی بات کرتے ہو، لیکن چاہتے امیر گھرانوں کے لوگ ہی ہو۔ تم خود ایسے لوگوں کو پسند کرتے ہو جو وراثت میں ہر چیز حاصل کرتے ہیں۔ لیکن نوکری پیشہ فوجی، جو ایمانداری سے بھرتی ہوکر تمہاری فوج میں شامل ہوتا ہے، بعدازاں ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے اوپر پہنچتا ہے اور اگر تمہارا حاکم بن جاتا ہے تو تمہاری عوام، تمہاری میڈیا اور صحافی سب اس کو آمر کہنا شروع کردیتے ہو۔ چاہے وہ کتنی بھی ترقی تمہارے ملک کو دے۔

آج تو تم لوگوں نے میرا نام ہی روشن کردیا۔ ایک مسجد کے امام کا بیٹا تمہارے ملک کا طاقتور ترین شخص بن گیا، لیکن تمہیں ایک ایسا شخص چاہیے جو سوائے کھیل کے کچھ نہیں جانتا۔ جو نوکری کو موت سے تشبیہ دیتا ہے۔ ایک ایسا شخص جو صبح کچھ کہتا ہے اور رات کو کچھ اور۔ جس کا کوئی دین ایمان نہیں۔ جو بدزبان ہے اور تصدیق شدہ زانی بھی۔ تمہیں ایک حافظ قرآن نہیں چاہیے، ایک ایسا شخص جو محنت کے بل بوتے پر ملک کا طاقتور شخص بنا ہے۔ تمہیں ایسا شخص چاہیے جس کو زمان پارک جیسے پوش علاقے میں گھر وراثت میں ملتا ہے۔ جو خود مانتا ہے کہ اس کی کسی بھی کام کے حوالے سے تیاری نہیں ہوتی۔

میں نے ایسے دانشور اور صحافی اور قلم کار تمہارے درمیان چھوڑے ہیں جو تضادات سے بھرے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگ جو مسلمانوں کے علیحدہ تشخص کو نہیں مانتے، لیکن یہ مانتے ہیں کہ سندھی، بنگالی اور پختون قوم پرست جائز ہیں۔ جہاں بات مشرقی اور مغربی پاکستان کی ہو تو اکثریت کے حقوق انہیں یاد آجاتے ہیں اور جہاں موجودہ پاکستان کی بات ہو تو انہیں اقلیت کے حقوق یاد آجاتے ہیں۔

لیکن میری بدبختی! ایک ادارہ ہے جس کے خلاف میں نے شروع دن سے مہم شروع کی ہوئی ہے۔ لیکن اس ادارے کو میں کمزور نہیں کرپایا۔ وہ ادارہ جوہری ہتھیار رکھتا ہے اور یہ بات میرے دوست ملک اسرائیل کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ یہ تم لوگوں کا واحد ادارہ ہے جو دنیا کے دس بہترین اداروں میں شامل ہے۔ باقی سارے ادارے دس بدترین اداروں میں شامل ہیں۔ عالمی سطح پر یہی ادارہ ہے جو دوسرے ملکوں کو تربیت دے رہا ہے، جس سے تمہارے دوست ملک دفاعی معاہدہ کر رہے ہیں۔ یہی ایک ادارہ ہے جو عالمی سطح پر کسی کے کام آرہا ہے۔ باقی اداروں کا میں ستیا ناس کرچکا ہوں۔

اب ایسا نہیں ہے میں نے اس ادارے کے خلاف کوئی کامیاب کاروائی نہیں کی۔ اچھی خاصی آبادی کو میں نے یہ یقین دلا دیا ہے کہ یہ سب اس لیے ہے کہ یہ ادارہ بہت بڑا حصہ بجٹ کا لے جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تمہارے دشمن ملک کے پاس اس سے دس گنا زیادہ بجٹ ہے، لیکن وہ اس سال کی جنگ میں جس طرح شکست کھا کر بھاگا وہ پوری دنیا نے دیکھا۔ دوسرا زیادہ پیسہ اپنی جگہ، اہم چیز عزم ہے، دانش ہے، نظم و ضبط ہے۔ اگر پیسہ کامیابی کا ضامن ہوتا تو ہر امیر بندے کا بچہ اسکول، کالج اور ینیورسٹیوں میں سرخ رو ہوتا اور غریب کا بچہ کبھی اچھے نمبر نہ حاصل کرتا۔ جبکہ ایسا نہیں ہے۔ کئی مالدار لوگوں کے بچے کاروبار میں پیسہ ڈالتے ہیں، ضروری نہیں کہ وہ کاروبار پیسے بھی کما کر دے۔ جبکہ کئی کم دولت والے کامیاب کاروبار چلا لیتے ہیں۔ لیکن دولت کو پوجنے والوں کو میں نے یہ بات باور کرادی ہے۔

پھر میں نے تمہاری اگلی نسل کو بگاڑنے کے لیے ایک ایسے لیڈر کا انتخاب کیا جس نے تمہارے ایک صوبے کو دہشتگردوں کے حوالے کردیا ہے اور جب وہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پر حکومت کرتا تھا، اس نے ایک نا اہل کو اس صوبے کا وزیر اعلی بنادیا۔ ساتھ ساتھ اس نے نوجوانوں کو پڑھائی سے دور کردیا ہے اور تخریب کاری پر لگا دیا ہے۔ نوجوان نسل، تمہارا مستقبل، ایک ایسے شخص سے مرعوب ہے جو انہیں بدزبانی، بغاوت اور گالیوں پر اکسا رہا ہے اور کامیاب بھی ہورہا ہے۔

میں نے اس شخص کے ذریعے ملک کے لوگوں کو اس ملک کے بہترین ادارے کے خلاف لگا دیا۔ مجھے پوری امید تھی کہ میرا پیادہ کامیاب ہوگا۔ مجھے امید تھی کہ یہ ادارہ تباہ ہوجائے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ نالائق فتنہ خان ناکام رہا۔ میں نے 2019ء میں اپنی بیٹی بھارت ماتا کو کہا کہ اپنے جہاز بھیجو اس ملک، لیکن تمہارے کامیاب ترین ادارے نے ان جہازوں کو بھی مار گرایا اور ان کا پائلیٹ بھی پکڑ لیا۔ اس سال بھی میری بیٹی بھارت ماتا نے اپنے جہاز اڑائے، لیکن اپنی حدود میں، تم لوگوں کے کامیاب ادارے نے اپنی حدود میں سے میری بیٹی کے جہاز ٹین کے ڈبے بنا دیے اور بعدازاں میری بھارت ماتا کو تکلیف دی، اس کا "سندور" اجاڑ دیا۔

عالمی سطح پر تمہارے ملک کی غربت اور ناکامیوں پر چرچا ہوتا ہے۔ لیکن کم بخت ایک ادارہ ہے جو تم لوگوں کی مثبت شناخت کا باعث ہے۔ امریکی صدر سے لے کر شہزادہ محمد بن سلمان تک، ہر کوئی اس ادارے کی تعریف کرتا ہے اور اس کی خدمات حاصل کرتا ہے۔

میں نے ایک فتنے کو تمہارے ملک پر مسلط کیا، تمہارے عوام کی جہالت کی وجہ سے وہ مقبول ہوا، لیکن کم بخت تمہارے ایک ادارے نے اسے وزیر اعظم بننے نہ دیا۔

یہ کم بخت ادارہ نہ میری بیٹی بھارت ماتا کے "سندور" کا احترام کرتا ہے، نہ وہ اس ملک میں فتنہ پرور شخص کو ملک کا وزیر اعظم بننے دیتا ہے، نہ یہ ادارہ تمہارے دوسرے اداروں کی روش اختیار کر رہا ہے۔ میں نے کئی لوگ اس ادارے کے پیچھے لگائے ہیں جو اس ادارے کے بجٹ پر بحث کرتے ہیں، اس دارے کے افسران کی مراعات پر تنقید کرتے ہیں اور کسی حد تک لوگوں کے ذہنوں کو میں نے حسد کی آگ سے بھر دیا ہے۔ کبھی نہ کبھی تو افاقا ہوگا نا! میں نے پہلا قتل ہی حسد کو جنم دے کر کروایا تھا۔

دراصل میں تب کامیاب ہوسکتا ہوں جب میرا بہترین حربہ کامیاب ہو۔ ایک ہی ذریعہ ہے جس سے دس جاہل ایک عقل مند پر بھاری ہوسکتے ہیں اور وہ ہے جمہوریت۔ جمہوریت میں یہ نہیں دیکھا جاتا کون کتنا صحیح، کارآمد اور نفیس ہے۔ بس گنتی پوری ہونی چاہیے۔ لہذا دس کم عقل ایک عاقل پر غالب آسکتے ہیں، دس فحش لوگ ایک پاکیزہ شخص پر غالب آسکتے ہیں۔ لیکن تم لوگوں کا یہ کم بخت ادارہ میرے اس خواب کو بھی پورا نہیں ہونے دیتا۔ میں کیا کروں؟ یہ کم بخت ادارہ میرے ہر کام میں رکاوٹ ہے۔

بس اب بہت ہوگیا۔ اب مجھے کچھ نہیں پتہ۔ افغانستان اور میری بھارت ماتا کو ملنا ہوگا۔ بے شک لوگ اس جوڑ پر ہنسیں گے۔ ہاں! بھارت بت پرستوں کا ملک ہے اور افغانستان نام نہاد اسلامی ریاست ہے۔ لیکن اب بات اس نہج کو پہنچ گئی ہے کہ مجھے اپنے سارے ہتھیار ساتھ ملانے ہونگے۔ ویسے تو میں نے ہر ہتھیار کو الگ شناخت دی، کچھ کو اسلامی شکل اور لباس دے دیا اور اعمال ان کے غیر اسلامی رکھے، دوسری طرف میں نے بھارت ماتا کو تیار کیا جو مسلمانوں کی مساجد شہید کرنے کی موجب ہے، ساتھ ساتھ وہ مسلمانوں کو دیوار سے لگا رہی ہے۔ ہاں! میں قوم پرستی کے ہتھیار کو تو بھول ہی گیا۔ مجھے بی ایل اے کے دہشتگردوں کو بھی ساتھ ملانا ہوگا۔ کیونکہ اب میں بوکھلاہٹ کا شکار ہوگیا ہوں۔ مجھے میرے سارے ہتھیار یکجا کرنے ہونگے۔ میرا پیارا بچہ قید خانے میں ہے۔ وہ باہر ہوتا تو مزا ہی آجاتا۔

لیکن ایک ادارہ میری تمام کاروائیوں کو روک کر بیٹھا ہے۔ لہذا میں نے ٹی ایل پی ہو، ٹی ٹی پی ہو، پی ٹی آئی ہو، بی ایل اے ہو، را ہو، بھارت ہو۔۔ سارے متضاد نظریات رکھنے والی جماعتوں کو تمہارے اس ادارے کو تباہ کرنے کے کام پر معمور کردیا ہے۔ دیکھیں کون کامیاب ہوتا ہے۔

غزوہ خندق کے وقت بھی میں نے کفار کے مختلف قبائل کو یکجا کیا جو ایک دوسرے سے لڑتے رہتے تھے، لیکن میں نے انہیں اور یہودیوں اور منافقوں کو یکجا کیا۔ مقصد مسلمانوں کو اور تمارے رسول کو کمزور کرنا تھا، ان کی تعلیمات کو ختم کرنا تھا۔ یہودی اور منافق مدینہ میں ہی رہتے تھے، لیکن وہ اندر سے مسلمانوں کی ریاست کو کمزور کرنے میں لگے رہے اور کفار براہ راست عسکری تعاقب کے ذریعے مسلمانوں کو ختم کرنے کے در پر تھے۔

لیکن اس وقت ایک خندق نے میرے سارے عزائم ریزہ ریزہ کردیے۔ ایک صحابی جن کا نام حضرت سلمان فارسی تھا، انہوں نے تمہارے رسول کو خندق کی صلاح دی اور اس خندق کے طفیل کفار آگے نہ بڑھ سکے۔

اسی طرح تم لوگوں کے خلاف بھی میں نے بہت سی قوتوں کو جمع کیا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے تم اپنی خندق کی حفاظت کرتے ہو یا نہیں۔ ایک ادارہ موجودہ دور کی خندق ثابت ہورہا ہے۔ اگر وہ ادارہ نہ ہو تو تمہاری عالمی سطح پر کوئی حیثیت نہیں اور تمہیں بچانے والا کوئی نہیں۔ لیکن تم لوگ اپنی جہالت میں ڈوبے رہو۔ میرے لیے اسی میں عافیت ہے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan